Daily Ausaf:
2025-06-12@09:17:30 GMT

5 فروری، ایک عزم اور جدوجہد کی علامت

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جس کی تاریخ اور تقدیر میں درد و الم کی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں۔ ہر سال 5 فروری کو پاکستانی عوام جوش و خروش کے ساتھ کشمیر ڈے مناتی ہے۔یہ دن کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت، ان کی قربانیاں اور ان کے حقِ آزادی کی جدوجہد کو اجاگر کرنے کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔یہ دن نہ صرف کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن ہے، بلکہ یہ دنیا بھر کے انسانوں کے لئے ایک پیغام بھی ہے کہ ہم سب کو انسانی حقوق اور انصاف کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔ یہ دن اس بات کاعملی مظہر ہے کہ پاکستان کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔کشمیرکی تاریخ میں کئی عروج و زوال آچکے ہیں۔ یہ ایک خوبصورت وادی ہے جسے عام طور پر جنت کی وادی کہا جاتا ہے مگر اس کی سیاسی تاریخ بدعنوانیوں سے بھی ہوئی ہے۔کشمیر کی سرزمین پر ہمیشہ سے ظلم و جبر کی داستانیں رقم ہوئی ہیں۔ 1947 ء میں برطانوی ہند کی تقسیم کے بعد کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی ریاست کا مستقبل طے کرنے میں دیر کی جس کی وجہ سے کشمیری عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔بھارت اور کشمیر کے درمیان جنگ میں کشمیر ایک اہم ہدف بنا جس کی وجہ سے یہ مسئلہ آج تک حل طلب ہے۔بھارت نے کشمیر کی خودمختاری کو پامال کرتے ہوئے اس پر قبضہ کیا اور کشمیری عوام کی آواز کو دبا دیا۔جبکہ کشمیر کی آزادی کے لئے کشمیری عوام نے بے شمار قربانیاں دیں۔ ہزاروں کشمیریوں نے اپنی جانیں قربان کیں، لیکن وہ اپنی زمین کی آزادی کے لئے لڑتے رہے۔
کشمیر ڈے کی ابتدا 1990 کی دہائی میں ہوئی جب پاکستان نے کشمیری عوام کے حقوق اور ان کے حق خود ارادیت کی حمایت کے لئے عالمی سطح پر آگاہی پیدا کرنے کا فیصلہ کیا۔اس دن کو منانے کا مقصد کشمیری عوام کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنا اوردنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول کرانا ہے۔ ان کی اس جدوجہد نے پوری دنیا کو یہ دکھایا کہ انسانوں کی آزادی کا حق کوئی چھین نہیں سکتا۔جبکہ کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی قبضے کے دوران کشمیری عوام نے مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا کیا۔ بھارتی فوج کی طرف سے ہونے والے ظلم و ستم کی کوئی حد نہیں ہے۔ خواتین کی عزتوں کا سوداگر بننا، بے گناہ لوگوں کا قتل عام، قید و بند کی تکالیف، اور بے شمار دیگر جبر و تشدد کی کارروائیاں کشمیریوں کی روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ اس کے باوجود کشمیری عوام نے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا۔ہر کشمیری کے دل میں آزادی کا جذبہ موجود ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان کی آزادی کا وقت آئے گا۔ ان کی قربانیاں نہ صرف کشمیر کے لئے اہم ہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کے لئے ایک مثال ہیں کہ ظلم و جبر کے باوجود انسان کا حوصلہ ٹوٹ نہیں سکتا۔5 فروری کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا اور کشمیری عوام کا حقِ آزادی ابھی تک انہیں نہیں ملا۔ اس دن پاکستان کے ہر شہر میں مختلف تقریبات، ریلیاں اور مظاہرے ہوتے ہیں تاکہ عالمی برادری کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ کشمیری عوام اپنے حقِ آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں۔پاکستانی حکومت اور عوام ہمیشہ سے کشمیری عوام کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور اس دن کے ذریعے وہ اپنی حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ دن نہ صرف کشمیری عوام کے لئے اہم ہے بلکہ پاکستان کے لئے بھی ایک سنگ میل ہے کیونکہ اس دن کے ذریعے پاکستان دنیا کو یاد دلاتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہونا چاہئے اور کشمیری عوام کو ان کا حقِ آزادی دیا جانا چاہیے۔اگرچہ کشمیری عوام کی جدوجہد ایک طویل عرصے سے جاری ہے، لیکن عالمی برادری کی خاموشی نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیمیں کشمیری عوام کے حقوق کے حوالے سے کبھی کبھار بیانات دیتی ہیں، مگر عملی طور پر اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔ بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر عالمی برادری کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔اگر دنیا کی بڑی طاقتیں کشمیر کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیں تو کشمیری عوام کا درد بڑھتا جائے گا۔
عالمی برادری کو اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ وہ کشمیری عوام کے حقِ آزادی کو تسلیم کرے اور ان کے حقوق کا دفاع کرے۔پاکستان ہمیشہ سے کشمیری عوام کے حقوق کا حامی رہا ہے اور کشمیر کے مسئلے پر عالمی سطح پر آواز بلند کرتا رہا ہے۔ پاکستان نے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں ہمیشہ کشمیریوں کا ساتھ دیا ہے اور دنیا بھر میں اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے اپنے وسائل اور توانائی کا بڑا حصہ اس مسئلے کی طرف متوجہ کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے۔پاکستان کا موقف یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ صرف کشمیری عوام کے حقوق کی بات نہیں ہے بلکہ یہ عالمی امن کا مسئلہ بھی ہے۔ کشمیر کی آزادی نہ صرف پاکستان کے لئے بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لئے اہمیت رکھتی ہے۔ عالمی برادری اور پاکستان کی حمایت کے باوجود، کشمیری عوام کی جدوجہد کبھی نہیں رکے گی۔ ان کی آزادی کا راستہ مشکل ضرور ہے، مگر کشمیری عوام کا عزم اور حوصلہ انہیں ان کے مقصد کے قریب لے جائے گا۔اس خواب کو حقیقت بننے میں وقت لگے گا، مگر کشمیری عوام اپنی زمین کے لئے ہمیشہ لڑتے رہیں گے۔ کشمیر ڈے ایک ایسا دن ہے جو کشمیری عوام کی قربانیوں اور ان کے حق آزادی کی جدوجہد کو عالمی سطح پر اجاگر کرتا ہے۔ اس دن کا مقصد بھی ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا اور ان کے حقِ آزادی کے لئے آواز بلند کرنا ہے۔ کشمیر کے مسئلے کا حل عالمی برادری کی ذمہ داری ہے اور پاکستان ہمیشہ کشمیری عوام کے حقوق کا حامی رہے گا۔ ان کی قربانیاں بے شمار ہیں اور ان کی جدوجہد نے دنیا کو یہ سکھایا ہے کہ آزادی کا حق کسی سے چھینا نہیں جا سکتا۔ کشمیر کا مسئلہ حل ہو گا اور ایک دن کشمیری عوام اپنی آزاد سرزمین پر فخر کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔انشا اللہ

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کشمیری عوام کے حقوق کشمیری عوام کے حق کشمیری عوام کی کشمیر کا مسئلہ ہے کہ کشمیر کا عالمی برادری آزادی کے لئے اور ان کے حق کی جدوجہد اور کشمیر کشمیر کی کشمیر کے کی آزادی آزادی کا اس مسئلے کے ساتھ ہے اور

پڑھیں:

وطنِ عزیز میں نظامِ مصطفیٰ ﷺ کی جدوجہد

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور آپؐ نے تئیس سال کی نبوی زندگی میں ایک ریاست اور اس کا ایک نظام دیا۔ اس ریاست کو ریاستِ مدینہ کہتے ہیں اور جو نظامِ زندگی دیا تھا اسے نظامِ شریعت کہتے ہیں، نظامِ مصطفٰی کہہ لیں، دینِ اسلام کہہ لیں۔ اس نظام کا مختصر تعارف ہمیں خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلے خطبے کے چند جملوں میں مل جاتا ہے جو نظامِ مصطفٰیؐ کے بنیادی ستون ہیں۔
اسلامی ریاست کی بنیادیں کیا ہیں اور اسلام کا سیاسی نظام کیا ہے؟ مجھ سے جب اس بارے میں پوچھا جاتا ہے تو میری گزارش ہوتی ہے کہ تین خطبے اگر ہم بغور پڑھ لیں تو اس حوالے سے بنیادی سوالات کا جواب ہمیں مل جاتا ہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ کا پہلا خطبہ اور حضرت فاروقِ اعظمؓ کا پہلا اور آخری خطبہ۔ آج کی سیاسی اصطلاح میں اسے پالیسی سپیچ کہہ لیں۔ یہ تینوں خطبے بخاری شریف میں موجود ہیں اور جو علماء کرام سیاسی نظام سے دلچسپی رکھتے ہیں میری ان سے گزارش ہوتی ہے کہ انہیں یہ خطبے بطور نصاب کے پڑھنے چاہئیں۔
پہلی بات تو میں یہ عرض کروں گا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ کیسے بنے تھے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے خلافت کے لیے کوئی دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی کسی جنگ کے نتیجے میں اقتدار پر قبضہ کیا، بلکہ ایک مجلس میں اس وقت کے امت کے نمائندوں اور طبقات نے باہمی مشاورت اور اعتماد کے ساتھ حضرت صدیق اکبرؓ کو امیر منتخب کیا تھا۔
بخاری شریف کی روایت ہے، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوشگوار ماحول میں بیٹھے ہوئے تھے، آپؐ نے مجھ سے کہا، عائشہ! ابا جان کو بلاؤ اور بھائی کو بھی، میں کچھ باتیں لکھ دوں، ایسا نہ ہو کہ لوگ کچھ اور دعویٰ کر دیں، میں ابوبکر کے لیے خلافت کی جانشینی لکھ دوں۔ پھر فرمایا کہ رہنے دو ’’یابی اللہ والمومنون الا ابابكر ‘‘ نہ اللہ کسی اور کو بننے دے گا اور نہ مومن کسی اور کو قبول کریں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے کو اللہ کی تقدیر پر اور عوام کے فیصلے پر چھوڑ دیا تھا اور یہ بڑی حکمت کی بات تھی کیونکہ اگر آپؐ حضرت صدیق اکبرؓ کو نامزد کر دیتے تو پھر قیامت تک نامزدگیاں ہی چلتیں۔
حضرت صدیق اکبرؓ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو مسجد نبوی میں انہوں نے پہلا خطبہ ارشاد فرمایا :فرمایا کہ میں تم پر امیر بنا دیا گیا ہوں لیکن تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ امیر بنا نہیں کرتے بلکہ بنائے جاتے ہیں۔ اور ’’ولست بخیرکم‘‘ کا جملہ تو کسرِ نفسی میں تھا، اس لیے کہ اس منصب کے لیے ان سے بہتر کون تھا؟ دوسری بات فرمائی کہ میں تمہیں اللہ کی کتاب اور اللہ کے نبی کی سنت کے مطابق لے کر چلوں گا۔ یعنی ریاست اور حکومت کا نظام کتاب اللہ اور سنتِ رسول کے مطابق ہو گا۔ تیسری بات یہ فرمائی کہ اگر قرآن و سنت کے مطابق چلوں تو میری اطاعت تم پر واجب ہے، اور اگر اس سے ہٹ جاؤں تو میری اطاعت تم پر واجب نہیں ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ریاست اور رعیت کے درمیان کمٹمنٹ اور تعلق کی بنیاد قرآن و سنت ہے۔ اور چوتھی بات یہ فرمائی کہ اگر میں سیدھا چلوں تو میرا ساتھ دو، اور اگر ٹیڑھا چلتا نظر آؤں تو مجھے سیدھا کر دو۔ یعنی عوام اپنے حکمرانوں کا محاسبہ کر سکتے ہیں اور انہیں حقِ احتساب حاصل ہے۔ اسلامی نظامِ حکومت کے یہ چار بنیادی ستون ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی خلیفہ منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطبے میں یہی باتیں ارشاد فرمائیں لیکن اس میں یہ اضافہ کیا کہ میں اپنے پیشرو کے فیصلوں کا احترام کروں گا۔ مطلب یہ کہ میں پہلے سے چلے آنے والے تسلسل کو ختم کر کے نئے سرے سے آغاز نہیں کروں گا بلکہ اس تسلسل کو قائم رکھوں گا۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا تھا کہ اگر میں ٹیڑھا چلوں تو مجھے سیدھا کر دو، یہی بات حضرت عمرؓ نے اپنے انداز میں فرمائی کہ اگر میں سیدھا چلوں گا تو میرا ساتھ دو گے، اور اگر ٹیڑھا چلوں گا تو کیا کرو گے؟ روایات میں آتا ہے کہ یہ جمعہ کا خطبہ تھا، حضرت عمرؓ نے جب یہ فرمایا تو ایک بدوی کھڑا ہوا اور اس نے نیام سے تلوار نکال کر لہرائی اور کہا ’’یابن الخطاب‘‘ اگر کتاب اللہ اور سنتِ رسول کے مطابق چلے تو ہم تمہاری اطاعت کریں گے اور اگر ٹیڑھے ہوئے تو اس تلوار کے ساتھ تمہیں سیدھا کر دیں گے۔ حضرت عمرؓ منبر پر کھڑے تھے، آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر فرمایا، یااللہ تیرا شکر ہے کہ میری رعیت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو عمرؓ کو سیدھا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
نظامِ مصطفٰیؐ کے ساتھ ہمارا تعلق کیا ہے؟ ایک تعلق تو یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلم معاشرے میں کتاب و سنت کے احکام کو نافذ کرنا ہمارے لیے لازمی ہے ورنہ ہم مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔ کوئی بھی مسلمان ریاست پابند ہے کہ قرآن و سنت کے تمام احکام اپنی سوسائٹی میں عملاً‌ نافذ کرے۔ ہم مسلمان عقائد و عبادات کے پابند ہیں، اخلاقی احکام کے پابند ہیں، اور شریعت و قانون کے بھی پابند ہیں ۔ اور جب قرآن و سنت کی بات آتی ہے تو اس میں کوئی ایسی تقسیم نہیں ہے کہ کچھ احکام کو تو ہم لازمی مان لیں اور کچھ کو اختیاری طور پر لیں۔ مثال کے طور پر ’’ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں۔ اسے تو لازمی سمجھیں، لیکن اس کے ساتھ ’’یا ایہا الذین اٰمنوا کتب علیکم القصاص‘‘ کو ہم اختیاری سمجھیں۔ قرآن کریم میں جیسے نماز فرض کی گئی ہے، ایسے دیگر احکام ہیں جیسے ’’وکتبنا علیہم فیہا ان النفس بالنفس‘‘ ، ’’والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیہما‘‘، ’’الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منہما مائۃ جلدۃ‘‘۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اور مسلم ریاست ہونے کی حیثیت سےیہ سب احکام لازمی ہیں۔
جب پاکستان قائم ہوا تھا تو ہم نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے کہ ہماری تہذیب و ثقافت، ہمارا عقیدہ، ہماری اخلاقیات ان سے مختلف ہیں، ہمیں الگ ملک بنوا دو، اور ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے نعرے کے ساتھ ہم نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا کہ اس ملک میں ہم اسلام کا قانون نافذ کریں گے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم و مغفور اور ان کے ساتھ جو صفِ اول کی قیادت تھی انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ہم اس نئے وطن کو اسلامی نظام کا نمونہ بنائیں گے، اور ان کی حمایت میں جو علماء کرام تھے، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، حضرت مولانا عبدا لحامد بدایونیؒ، حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹیؒ، حضرت پیر مانکی شریف رحمہم اللہ تعالیٰ ، وہ لوگوں کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ واقعی ایسا ہو گا اور ہم ان کے ساتھ ہیں۔ اسلامی نظام کا اعلان قائد اعظم اور لیاقت علی خان کر رہے تھے اور اس کی ضمانت ہمارے علماء کرام دے رہے تھے۔ جبکہ پاکستان بننے کے بعد دستوری طور پر ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کی صورت میں جو پہلا فیصلہ ہوا تھا اس کی بنیاد تین باتوں پر ہے: • حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے، • قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا، • اور حقِ حکمرانی عوام کے منتخب نمائندوں کا ہے۔ یہ تینوں نظامِ مصطفٰیؐ کی بنیادیں ہیں۔ میں نے یہ بات عرض کی ہے کہ ہم پاکستانی دوہرے پابند ہیں، کلمہ طیبہ پڑھ کر بھی پابند ہیں اور نظریہ پاکستان کے تحت بھی پابند ہیں۔ ایک بات اور شامل کرنا چاہوں گا کہ اس وقت کشمیر میں بیٹھا ہوا ہوں۔ پاکستان کی جغرافیائی تکمیل کشمیر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور آزادئ کشمیر کی تحریک کیا تھی، آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔
( جاری ہے )

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ کشمیر، کالے قانون کے تحت ایک اور کشمیری کی زرعی اراضی ضبط
  • کشمیری رکشہ ڈرائیور جو وطن سے محبت کا اظہار انوکھے انداز میں کرتا ہے
  • جے شنکر کی پاکستان پر حملے کی دھمکی عالمی توجہ کشمیر سے ہٹانے کی کوشش ہے، علی رضا سید
  • امریکا عالمی مفاد میں بھارت کو گھسیٹ کر مذاکرات پر لائے، بلاول
  • کشمیری عوام پاکستان کیساتھ اپنی نظریاتی وابستگی کو کبھی کمزور نہیں ہونے دیں گے، سردار عتیق
  • کیلیفورنیا عوام کی اکثریت آزادی چاہتی ہے، سروے رپورٹ
  • کیلیفورنیا عوام کی اکثریت آزادی چاہتی ہے، رپورٹ
  • بلاول بھٹو زرداری نے عالمی فورم پر پاکستان کا سچ پیش کیا، شازیہ مری
  • وطنِ عزیز میں نظامِ مصطفیٰ ﷺ کی جدوجہد
  • مسئلہ کشمیر کا پائیدار حل نہ ہوا تو خطہ ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے: سلیم بٹ