نیشنل اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش: شائقین کرکٹ کے لیے حیران کن سہولیات
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
نیشنل اسٹیڈیم کراچی بین الاقوامی معیار کے مطابق تعمیر، فنشنگ کا کام جاری۔
اسٹیڈیم میں اس بار شائقین کرکٹ کے لیے کرسیاں کرایے پر نہیں بلکہ اسٹیڈیم کی اپنی آرام دے کرسیاں لگائی گئی ہیں۔ اس بار 70 سے زائد نئے واش رومز بنائے گئے ہیں، کھانے پینے کی اشیا اسی قیمت پر ملیں گی جو عام مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ فلڈ لائٹس نصب کر دی گئی ہیں۔ اس کا ایک بلب 12 لاکھ روپے مالیت کا ہے یوں اس کی مجموعی لاگت کروڑوں روپے میں بنتی ہے۔
نیشنل اسٹیڈیم میں 2 بڑی ڈیجیٹل اسکرینز لگائی گئی ہیں جو دن کی روشنی میں بھی کام کریں گی۔ وی آئی پی بلاک جہاں سے آپ ملکی اور بین الاقوامی ستاروں کو قریب سے دیکھ سکتے ہیں، اس کا ٹکٹ پہلے میچ کے لیے 25 ہزار، جبکہ سب سے سستا ٹکٹ پہلے میچ کے لیے 2000 ہزار روپے ہے۔
اسٹیڈیم کے نئے بلاک کے اسٹکرز 80 فیصد لگ چکے ہیں، جبکہ اسٹیڈیم میں موجود کنٹینرز سمیت اضافی سامان نکالنے کا عمل جاری ہے۔ منتظمین کے مطابق ٹرائی نیشن سریز میں پاکستانی اسٹیڈیمز نئی اور جدید شکل میں نظر آئیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
پاکستان میں ذہنی امراض بڑھ گئے، گزشتہ سال 1 ہزار افراد نے خودکشی کرلی
ذہنی امراض کے حوالے سے ہونے والی ایک کانفرنس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 10 فی صد افراد منشیات کی لت میں مبتلا ہیں۔ گزشتہ سال مختلف ذہنی دباؤ کی وجہ سے تقریباً ایک ہزار افراد نے خودکشی کی۔
کراچی میں ذہنی امراض کے حوالے سے 26ویں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔
کانفرنس کے سائنٹیفک کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر محمد اقبال آفریدی نے ایکسپریس ٹریبون کو بتایا کہ پاکستان میں ہر تین ہزار افراد (34 فی صد) میں سے ایک فرد جبکہ دنیا بھر میں 5 میں سے ایک فردکسی نہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خواتین میں ڈپریشن کے مسائل بہت زیادہ سامنے آرہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ خواتین کو وہ مقام نہیں مل رہا جو انکو ملنا چاہیے۔ گھریلو چپقلش کی وجہ سے خواتین شدید ڈپریشن اور انزائیٹی کا شکار رہتی ہے جبکہ نوجوان نسل میں آئس جسے دیگر نشہ آور چیزوں کے استعمال کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تواتر کے ساتھ زلزے سیلابی صورتحال کی وجہ سے ہزاروں گھر بہہ جانے اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے بھی عوام پر ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جو نفسیاتی بیماریوں کے زمرے میں آتے ہیں۔
پاکستان سائیکیٹری سوسائٹی کے صدر پروفیسر واجد علی اخوندزادہ نے بتایا کہ پاکستان میں ہر چار میں سے ایک نوجوان جبکہ ہر پانچ میں سے ایک بچہ کسی نہ کسی نفسیاتی بیماریکا شکار ہے۔ پاکستان میں ایک فی صد (25 لاکھ) افراد کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہے اور یہ 25 لاکھ خاندان ہیں وہ ہیں جو معاشی، سیاسی، سیلابی سمیت دیگر وجوہات کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 10 فی صد افراد منشیات کی لت میں مبتلا ہیں اور گزشتہ سال مختلف ذہنی دباؤ کی وجہ سے تقریباًایک ہزار افراد نے خودکشی کی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ملک میں نفسیاتی امراض پر کافی کام کرنے کی ضرورت ہے، ملک کی 24 کروڑ آبادی کے لیے صرف 90 نفسیاتی امراض کے ماہرین موجود ہیں جبکہ عالمی ادارے صحت کے مطابق 10 ہزار پر ایک نفسیاتی ڈاکٹر ہوناچاہیے۔ اس وقت ہمارے ملک میں تقریباً 5 لاکھ 500 مریض پر ایک نفسیاتی ڈاکٹر کی سہولت ہے جو ناکافی ہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر افضال جاوید سمیت دیگر ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان معاشی ناہمواریوں، قدرتی آفات اور مختلف ڈیزاسٹر، بے روزگاری کا شکار ہیں جبکہ سرحدوں پر جنگی صورتحال نے بھی عوام کے ذہنوں میں مختلف نفسیاتی مسائل پیدا کررکھے ہیں خاص کر نوجوان نسل موجود صورتحال کی وجہ سے مایوس نظر آتی ہے۔
ان ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے ان تمام صورتحال کا جائزہ لے کر موثر حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ ملک کا نوجوان ان ذہنی مسائل سے نکل سکے۔
ان ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں مجموعی طور پر صرف 4 فی صد شجرکاری ہے جو نا ہونے کی برابر ہے جس کی وجہ سے موسمی تبدلیاں رونما ہورہی ہیں۔