امریکہ چین تجارتی محاذ آرائی سے عالمی معیشت کو خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف لینے کے بعد اپنے خطاب میں جو سخت اقدامات کرنے کا عندیہ دیا ہے اس سے توقع یہی کی جا رہی ہے کہ اب دنیا میں بہت سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے کا امکان ہے، خصوصاً جو انہوں نے چین کی درآمدات پر بھاری ٹیکس عائد کر کے اس کی معیشت کو نقصان پہنچانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے اس سے امریکہ اور چائنہ کے مابین تجارتی کشمکش بڑھنے کا امکان ہے۔ یہ تصادم کی صورتحال کسی طور بھی عالمی معیشت کے لئے کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کو ایک بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ صحت مند مسابقت پوری دنیا کے مفاد میں ہو گی ایک دوسرے کے مواقع کم کرنے یا اس میں رکاوٹ ڈالنے سے سب کا نقصان ہو گا۔ امریکہ کی چین کے ساتھ گزشتہ 25 سال سے تجارت جاری ہے اور اب امریکہ کا خیال ہے کہ اس تجارت کا سارا فائدہ چین نے اٹھایا اور امریکہ کو صرف نقصان ہی نقصان ہوا چین کی معیشت نے اس دوران آٹھ سو فیصد ترقی کی جب کہ امریکہ خسارے سے دوچار ہوا، امریکہ کے ساتھ متنازع تعلقات چین کے لئے ایک اہم چیلنج ہے۔
سال 2025ء چائنہ کے 14ویں منصوبے کا اختتام ہو رہا ہے۔ چین اس موقع پر اپنے میڈ ان چائنہ منصوبے کو عملی جامہ پہنا کر دنیا پر اپنی دھاک قائم کرنا چاہتا ہے۔ 2025ء منصوبے کا مقصد چین کو صنعت اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں طاقتور بنانا ہے۔ چین کے اس منصوبے پر امریکہ کو شروع سے کچھ اعتراضات ہیں۔ جب کہ ٹیکنالوجی چین کے منصوبوں میں تیزی سے ایک اہم عنصر بن گئی ہے کیونکہ بیجنگ اپنی برآمدات میں اضافہ کر کے اس شعبے میں روزگار اور پیداوار میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح اس شعبے کو محدود کرنا امریکہ کے لئے ایک ترجیح ہے جو کہ سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی تک چینی رسائی کو محدود کرنے کی اس کی کوششوں سے ظاہر ہے۔ یہ نئے جنگی محاذوں میں سے ایک ہے۔ اہم ٹیکنالوجیز پر عبور حاصل کرنے کے علاوہ یہ ٹیکنالوجی کے لئے معیارات طے کرنے کا بھی مقابلہ ہے۔ اس طرح کے اقدام سے چین کو ٹیکنالوجی کی دنیا میں ممکنہ طور پر سٹرٹیجک سبقت مل سکتی ہے۔ 2024ء میں چین نے سبز اور کم کاربن ترقی کے لئے اقدامات اٹھائے ہیں اور نئے نتائج حاصل کئے ہیں، توانائی کی بچت اور کاربن میں کمی کو بھرپور طریقے سے فروغ دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں 2024ء میں توانائی کی کھپت میں 3 فیصد سے زائد کمی ہوئی ہے۔ مزید برآں 2025ء میں چین توانائی کی کھپت کو کنٹرول کر کے14 ویں پانچ سالہ منصوبے کے اہداف کو مکمل کرنے کی کوشش کرے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے خود بھی بیجنگ کے خلاف اپنے سابقہ دورِ صدارت کے دوران شروع کی گئی جنگ کو جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ چین ٹیکنالوجی چوری کر رہا ہے۔ امریکہ اسے قومی سلامتی اور کاروباری دنیا میں آزادانہ مقابلے کے لئے خطرہ قرار دیتا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان یہ مسئلہ ایک تنازع کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ یہ بات امریکہ سمیت تمام دنیا کو ماننا پڑے گی چین دنیا کی فیکٹری تھی اور اب عالمی ٹیکنالوجی کا مرکز بننا چاہتا ہے۔ چین اپنی خواہشات کو جائز کہتا ہے اور امریکہ کے الزامات مسترد کرتا ہے، چین کا مزید کہنا ہے کہ میڈ ان چائنا منصوبہ چین اور دوسرے ممالک کے لئے فائدہ مند ثابت ہو گا۔ چین نے 2015ء میں اس حکمتِ عملی کا اعلان کیا تھا لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک طویل عرصے سے ان کے ذہن میں تھا۔ چینی ٹیکنالوجی پالیسی کے ماہر پروفیسر ڈگلس بی فلر کہتے ہیںاس پروگرام میں کافی پیسہ لگایا جا رہا ہے، اس کے ساتھ ہی غیر ملکی کمپنیوں پر براہِ راست یا بالواسطہ طریقے سے ٹیکنالوجی کی منتقلی کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کی منتقلی مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر غیر ملکی کمپنی کو چین میں داخل ہونے کے لئے مقامی کمپنی کے ساتھ شراکت داری کرنا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ چین اپنی حکمتِ عملی کے تحت غیر ملکی کمپنیوں کو خریدتا بھی ہے۔ جیسے چینی کمپنی گیلی، مرسیڈیز بینز کی ملکیت والی جرمن کمپنی ڈیملر میں سب سے بڑی شراکت دار بن گئی ہے۔ اس کے علاوہ چین کے کئی قوانین ایسے ہیں جو ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کے وہاں مستقل طور پر رہنے کے لئے ہیں۔
امریکہ ہمیشہ سے چین پر یہ الزام عائد کرتا ہے کہ وہ اس کی ٹیکنالوجی کا سرقہ ہے اور امریکی کمپنیوں سے تجارتی راز حاصل کرنے پر زور دیتا ہے۔ ٹرمپ کے صدر کی حیثیت سے اپنے پہلے دورِ اقتدار کے حوالے سے ان کی کارکردگی پر نظر رکھنے والے اس بات کو شدت سے نوٹ کرتے رہے تھے کہ امریکہ نے چین پر غیر منصفانہ تجارتی حربے استعمال کئے تھے۔ اس لئے چین کو بھی اپنی مصنوعات کو بچانے کے لئے تجارتی محاذ آرائی پر اترنا پڑا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اس طرح کی صورتحال کا اثر شیئر مارکیٹ پر بھی پڑا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں موجودہ حالات سے غیر مطمئن اور مستقبل کے بارے میں مایوس نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو یقین دلایا ہے کہ وہ نہ صرف انہیں درپیش مسائل کی وجوہات سے واقف ہیں بلکہ انہیں دور کرنے کرنے کے لئے ان کے پاس نسخہ بھی موجود ہے اور یہ نسخہ امریکہ میں مقیم غیر قانونی تارکینِ وطن کہ اخراج اور آئندہ غیر ملکیوں کے لئے امریکی شہریت کو مشکل بنانے اور دوسرے ممالک خصوصاً چین کی مصنوعات پر امریکی مارکیٹ کے دروازے بند کرنے پر مشتمل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکی تاریخ کی سب سے بڑی ملک بدری تحریک شروع کرنے والے ہیں ۔وہ چین کی مصنوعات پر امریکی دروازے بند کرنے کے خواہاں ہیں۔
ٹرمپ امریکہ کی نوجوان نسل کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ ان کو درپیش تمام مسائل کی وجہ امریکہ میں غیر قانونی تارکینِ وطن کی بلا روک ٹوک آمد اور مارکیٹ میں چین جیسی ابھرتی ہوئی معیشت کی مصنوعات کی بھرمار ہے۔ ٹرمپ کے بیانیے کے مطابق تارکینِ وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد نے امریکیوں سے روزگار کے مواقع چھین لئے ہیں اور چینی درآمدات کی بھرمار نے ان کی فیکٹریاں بند کر دی ہیں اور اس کی ذمہ داری وہ امریکی اشرافیہ اورا سٹیبلشمنٹ خصوصاً صدر جوبائیڈن کے گزشتہ چار سالہ دورِ حکومت پر ڈالتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2024ء کا انتخاب سوشل میڈیا کے ذریعے تارکینِ وطن اور اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں لوگوں تک غلط گمراہ کن اور مسخ شکل میں اطلاعات پہنچا کر امریکی نوجوانوں کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل کر کے جیتا ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیکنالوجی کی کے ساتھ کے لئے چین کے رہا ہے چین کی ہے اور
پڑھیں:
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے مابین اشتراک پاکستان کی اعلیٰ تعلیم میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 جولائی2025ء) وفاقی وزیر برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی زیر صدارت نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (این آئی ٹی) لاہور اور ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی (اے ایس یو) امریکہ کے نمائندگان کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں پاکستان کی جانب سے عالمی تعلیمی معیار کو اپنانے اور ڈیجیٹل و علم پر مبنی معیشت کے قیام کے عزم کو اجاگر کیا گیا۔ جمعرات کو ہونے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ این آئی ٹی اور اے ایس یو کے درمیان اشتراک پاکستان کی تعلیمی تبدیلی کی جانب ایک نمایاں قدم ہے جس کے تحت پاکستانی طلبہ کو عالمی سطح پر تسلیم شدہ اعلیٰ تعلیم، دوہری ڈگریوں، بین الاقوامی نصاب اور جدید تحقیقاتی مواقع تک رسائی حاصل ہو گی۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 15 کروڑ سے زائد نوجوان موجود ہیں، ہمیں اس توانائی کو ایک موثر قومی سرمایہ میں تبدیل کرنا ہے، یہ شراکت داری ہمارے نوجوانوں کو مستقبل کی مہارتوں سے لیس کرنے کے عزم کی عکاس ہے۔
انہوں نے اے ایس یو کے ساتھ اشتراک کو سراہا جو گزشتہ دس سال سے مسلسل امریکہ کی سب سے جدید یونیورسٹی قرار دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اشتراک پاکستان کو عالمی جدت اور مقامی اہمیت کے سنگم پر لے آتا ہے۔انہوں نے کہا کہ این آئی ٹی پاکستان میں آئی ٹی، مصنوعی ذہانت ، فن ٹیک اور ای-کامرس جیسے شعبوں کے لیے ایک قومی ٹیلنٹ پائپ لائن کے طور پر کام کرے گا جو ڈیجیٹل پاکستان وژن سے ہم آہنگ ہے۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے حکومت کی جانب سے ایسے مستقبل بین تعلیمی ماڈلز کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا اور قومی قیادت اور بین الاقوامی علمی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اشتراک اصلاحات پر مبنی وژن کا عملی نمونہ ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ جب قومی صلاحیت کو عالمی مہارت کے ساتھ جوڑا جائے تو بڑی تبدیلیاں ممکن ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تعلیم کا مستقبل ایسی یونیورسٹیز کے قیام میں ہے جو عالمی سطح پر مسابقت رکھتی ہوں اور مقامی ضروریات کو پورا کرتی ہوں، اے ایس یو کے ساتھ اشتراک یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک جدید اور جامع تعلیمی نظام کس طرح قوموں کو بدل سکتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اسی طرز کے اشتراک کے امکانات ورچوئل یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ساتھ بھی زیر غور ہیں تاکہ فاصلاتی اور ڈیجیٹل تعلیم کے میدان میں اے ایس یو کی علمی برتری کو مزید وسعت دی جا سکے۔