فرانس، متحدہ عرب امارات ایک گیگا واٹ کا اے آئی ڈیٹا سینٹر تیار کرنے پر متفق
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
پیرس (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 فروری2025ء)فرانسیسی ایوان صدر نے بتایاہے کہ فرانس اور متحدہ عرب امارات نے مصنوعی ذہانت کے لیے وقف ایک گیگا واٹ ڈیٹا سینٹر کے لیے ایک لائحہ عمل معاہدے پر اتفاق کیا جس پر 30 سے 50 بلین ڈالر کے درمیان سرمایہ کاری ہو گی۔میڈیارپورٹس کے مطابق پیرس میں آئندہ ہفتے مصنوعی ذہانت سے متعلق سربراہی اجلاس ہونا ہے جس سے قبل صدر ایمانوئل میکرون نے اپنے اماراتی ہم منصب شیخ محمد بن زید النہیان کی میزبانی کی۔
اس اجلاس میں تقریبا 100 ممالک مصنوعی ذہانت (اے آئی)کی صلاحیت پر تبادل خیال کرنے کے لیے مجتمع ہوں گے جیسا کہ امریکہ اور چین نے توانائی سے متعلق ٹیکنالوجی پر برتری حاصل کر لی ہے تو دس اور گیارہ فروری کے سربراہی اجلاس کا مقصد فرانس اور یورپ کی مصنوعی ذہاتن کے نقشے پر نمائندگی کرنا بھی ہے تاکہ وہ امریکہ اور چین کا مقابلہ کر سکیں۔(جاری ہے)
ایک مشترکہ فرانسیسی-اماراتی بیان میں کہا گیا،دونوں رہنماں نے اے آئی کے میدان میں ایک تزویری شراکت داری قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور یہ اے آئی ویلیو چین کی ترقی میں معاونت کرنے والے منصوبوں اور سرمایہ کاری پر تعاون تلاش کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
"انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری فرانسیسی اور اماراتی دونوں کی مصنوعی ذہانت، جدید ترین چپس کے حصول، ڈیٹا سینٹرز اور استعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ورچوئل ڈیٹا مراکز کے قیام کے لیے ہو گی تاکہ دونوں ممالک میں خودمختار اے آئی اور کلاڈ انفراسٹرکچر کا قیام ممکن ہو۔پہلی سرمایہ کاری کا اعلان اس سال کے آخر میں چوز فرانس سمٹ میں کیا جائے گا۔فرانسیسی حکومت نے قبل ازیں جمعرات کو کہا تھا کہ اس نے اے آئی ڈیٹا سینٹرز کی میزبانی کے لیے 35 مقامات کا تعین کیا تھا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مصنوعی ذہانت سرمایہ کاری کے لیے اے آئی
پڑھیں:
29 فلسطینی بچے اور بزرگ بھوک سے موت کے منھ میں چلے گئے، اقوام متحدہ کا الرٹ جاری
جنیوا: اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق غزہ میں شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی شرح تین گنا بڑھ چکی ہے، خاص طور پر اس وقفے کے بعد جب رواں سال کے آغاز میں جنگ بندی کے دوران امداد کی رسائی ممکن ہوئی تھی۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب فلسطینی علاقے میں امداد کی ترسیل پر عالمی توجہ مرکوز ہے۔ حالیہ ہفتوں میں امدادی مراکز کے قریب فائرنگ کے واقعات سامنے آئے ہیں، خاص طور پر امریکہ کی حمایت سے قائم کیے گئے امدادی نظام کے قریب، جن میں کئی افراد شہید ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارچ میں جنگ بندی ٹوٹنے کے بعد اسرائیل نے غزہ کے لیے 11 ہفتوں تک امدادی سامان پر سخت پابندی عائد کی، جسے اب جزوی طور پر ہی ہٹایا گیا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس امداد چوری کرتی ہے، تاہم حماس اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
اقوام متحدہ اور امدادی اداروں کے اتحاد "نیوٹریشن کلسٹر" کے مطابق مئی کے دوسرے حصے میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 50,000 بچوں کو جانچا گیا، جن میں سے 5.8 فیصد شدید غذائی قلت کا شکار پائے گئے۔ مئی کے آغاز میں یہ شرح 4.7 فیصد تھی، جبکہ فروری میں، جنگ بندی کے دوران، یہ شرح اس سے تقریباً تین گنا کم تھی۔
مزید یہ کہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بچوں میں "شدید غذائی قلت" کے کیسز میں بھی اضافہ ہوا ہے، جو ایک جان لیوا حالت ہے اور مدافعتی نظام کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ ایک فلسطینی وزیر کے مطابق گزشتہ ماہ صرف چند دنوں میں بچوں اور بزرگوں کی بھوک سے 29 اموات ہوئیں۔
شمالی غزہ اور جنوبی علاقے رفح میں موجود وہ مراکز جہاں شدید کیسز کا علاج کیا جاتا تھا، اب بند ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے متاثرہ بچوں کو جان بچانے والا علاج دستیاب نہیں۔