ماتلی میں نوجوانوں کو منشیات سے بچانے کیلئے مہم کاآغاز
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
ماتلی(نمائندہ جسارت )محکمہ سماجی بہبود کی جانب سے سماجی تنظیم ایل ایچ ڈی پی کے تعاون سے “نوجوانوں کو منشیات کی لت سے کیسے روکا جائے” کے موضوع پر آگاہی مہم شروع کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں تعلقہ شہید فاضل راہو کے شہر ترائی کے گورنمنٹ ہائی اسکول اور اسی تعلقہ کے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول حاجی جونیجو میں سیمینار بھی منعقد کیے گئے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر عبدالغفار کھوسہ نے کہا کہ یہ سیمینار ڈپٹی کمشنر بدین، یاسر بھٹی کی ہدایت پر نوجوانوں کو منشیات کے تباہ کن اثرات سے بچانے اور معاشرے کو اس سنگین مسئلے سے آگاہ کرنے کے لیے منعقد کیے جا رہے ہیں۔ سیمینار کا بنیادی مقصد نوجوان نسل کو منشیات کی لعنت سے محفوظ رکھنا، اس کے خطرناک اثرات سے آگاہ کرنا اور اس کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات پر روشنی ڈالنا ہے انہوں نے کہا کہ منشیات ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے، جو خاص طور پر نوجوانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ نہ صرف صحت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ تعلیمی، سماجی اور معاشی نقصان کا بھی سبب بنتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں، ان کی سرگرمیوں کو مانیٹر کریں اور انہیں ان نقصان دہ عناصر سے محفوظ رکھنے کے لیے ان سے اچھا برتاؤ کریں انہوں نے کہا کہ سماجی بہبود کا محکمہ منشیات کے خاتمے کے لیے محکمہ تعلیم اور سماجی تنظیموں کے ساتھ مزید سیمینار منعقد کرے گا تاکہ نوجوان نسل کو اس ناسور سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا سکے سیمینار میں موجود طبی ماہرین اور ماہرینِ نفسیات نے منشیات کے جسمانی اور ذہنی اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ منشیات کا استعمال نوجوانوں کی ذہنی صلاحیت کو ختم کر دیتا ہے، ان کے فیصلہ کرنے کی قوت کو کمزور کر دیتا ہے اور آخر کار انہیں مجرمانہ سرگرمیوں کی طرف دھکیل دیتا ہے سیمینار کے دوران طلبہ نے منشیات کی روک تھام کے بارے میں اپنی آراء پیش کیں اور مختلف سوالات بھی کیے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اسکولوں اور کالجوں میں ایسی مہمات مسلسل چلائی جائیں تاکہ نوجوان نسل کو صحیح اور غلط کی پہچان کرائی جا سکے سیمینار سے اے ای او پرائمری منور میمن، پروجیکٹ مینیجر ایل ایچ ڈی پی علی، چائلڈ پروٹیکشن آفیسر ذوالفقار بھٹو، اسکولوں کے اساتذہ، مختلف سماجی رہنماؤں، تعلیمی ماہرین اور طبی ماہرین نے بھی خطاب کیا اس موقع پر اسکول کے طلبہ، اساتذہ، والدین اور مختلف سماجی تنظیموں کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نوجوانوں کو کو منشیات کے لیے
پڑھیں:
امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی و سماجی خدمات
اسلام ٹائمز: آپکے علمی مقام کا اعتراف کرتے ہوئے امام ابو حنیفہ نے کہا ہے: ” میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ پڑھا لکھا کوئی اور شخص نہیں دیکھا۔” ایک اور مقام پر امام ابو حنیفہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں گزارے ہوئے دو سالوں کے بارے میں کہا: "اگر یہ دو سال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہو جاتا۔" بہرحال علمی میدان میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمات ناقابل انکار ہیں، فقہ، کلام اور دیگر علوم میں سب سے زیادہ احادیث امام صادقؑ سے نقل ہونے کیوجہ سے مکتب اہلبیت کو مذہب جعفری بھی کہا جاتا ہے، یعنی موجودہ دور میں امام صادق علیہ السلام مذہب جعفری کے بانی اور مؤسس کے طور پر مشہور ہیں۔ تحریر: محمد ثقلین واحدی
جب رئیس مذہب جعفری امام صادق علیہ السلام منصب امامت پر فائز ہوئے تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی، جس کی بنا پر اموی حکمرانوں کی توجہ خاندان رسالت سے کسی حد تک ہٹ گئی اور خاندان رسالت کے افراد نے امویوں کے ظلم و ستم سے کسی حد تک سکون کا سانس لیا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے دین مبین اسلام کا حقیقی چہرہ روشناس کرانے کیلئے علمی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ اس دوران تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ اور عقائد کے شعبوں میں اسلام کی حقیقی تعلیمات بیان کرکے آپ نے اسلامی معاشرے کو بے شمار گمراہیوں اور فکری انحرافات سے نجات دلائی۔
ان کاوشوں کے نتیجے میں صحیح اسلامی سوچ اور عقائد مسلمانوں تک پہنچے اور مسلمان محققین خاص طور پر مکتب تشیع کے ماہرین نے ان علوم کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اس میں مزید وسعت ایجاد کی اور مدینے میں مسجد نبوی اور کوفہ شہر میں مسجد کوفہ کو یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا، جہاں انہوں نے ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی اور ایک عظیم علمی و فکری تحریک کی بنیاد ڈالی، اس تحریک کو خوب پھلنے پھولنے کے مواقع ملے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ علوم و فنون کی توسیع اور دوسری ملتوں کے عقائد و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ اسلامی افکار و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے تقابل اور علمی بحث و مناظرے کے اعتبار سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اسی زمانے میں ترجمے کے فن کو بڑی تیزی سے ترقی حاصل ہوئی اور عقائد و فلسفے دوسری زبانوں سے عربی میں ترجمہ ہوئے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ تاریخ اسلام کا حساس ترین دور کہا جاسکتا ہے۔ اس زمانے میں ایک طرف تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی اور دوسری علویوں کی بھی مسلح تحریکیں جاری تھیں۔ آپ نے ہمیشہ عوام کو حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور غلط حرکتوں نیز غیر اخلاقی و اسلامی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ آپ نے عوام کے عقائد و افکار کی اصلاح اور فکری شکوک و شبہات دور کرکے اسلام اور مسلمانوں کی فکری بنیادوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کی اور اہل بیت علیہم السلام کی فقہ و دانش کو اس قدر فروغ دیا اور اسلامی احکام و شیعہ مذہب کی تعلیمات کو دنیا میں اتنا پھیلایا کہ مذہب شیعہ نے جعفری مذہب کے نام سے شہرت اختیار کرلی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے جتنی احادیث راویوں نے نقل کی ہیں، اتنی کسی اور امام سے نقل نہیں کیں۔
امام علیہ السلام کے شاگردوں نے مختلف علوم و فنون جیسے فزکس، کیمیا، الجبرا اور جیومیٹری وغیرہ کے موضوعات پر مختلف کتابیں لکھیں۔ جیسے جابر بن حیان کی ’’المیزان‘‘، ’’الرحمۃ‘‘ اور ’’مختار رسائل جابر‘‘ وغیرہ۔ علم کلام میں مفضل بن عمر جعفی نے ’’توحید مفضل‘‘ پیش کی ہے، جو اپنے موضوع میں بے نظیر کتاب ہے۔ حدیث شناسی اور فقہ میں زرارہ بن اعین، ابان بن تغلب، جابر جعفی، برید عجلی، ابن ابی یعفور، محمد بن مسلم، ان ابی عمیر، ابو بصیر اسدی، فضیل بن سیارہ معلیٰ بن خنیس، جمیل بن دراج، حمار بن عثمان اور ہشام بن سالم وغیرہ جیسے نامور افراد کی تربیت فرمائی۔ مذہب جعفری سے دفاع کے لئے، فن مناظرہ میں حمران بن اعین شیبانی جیسے مناظر کی تربیت فرمائی۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسب فیض کرنے والے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، جن میں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ آپ کے ممتاز شاگردوں میں ہشام بن حکم، محمد بن مسلم، ابان بن تفلب، ہشام بن سالم، مفصل بن عمر اور جابر بن حیان کا نام بطور خاص لیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے بڑا نام پیدا کیا۔ مثال کے طور پر ہشام بن حکم نے اکتیس کتابیں اور جابر بن حیان نے دو سو سے زائد کتابیں مختلف علوم و فنون میں تحریر کی ہیں۔ جابر بن حیان کو علم کیمیا میں بڑی شہرت حاصل ہوئی اور وہ بابائے علم کیمیا کے نام سے مشہور ہیں۔ اہل سنت کے درمیان مشہور چاروں مکاتب فکر کے امام بلاواسطہ یا بالواسطہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں، خاص طور پر امام ابو حنیفہ نے تقریبا” دو سال تک براہ راست آپ سے کسب فیض کیا۔
آپ کے علمی مقام کا اعتراف کرتے ہوئے امام ابو حنیفہ نے کہا ہے: ” میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ پڑھا لکھا کوئی اور شخص نہیں دیکھا۔” ایک اور مقام پر امام ابو حنیفہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں گزارے ہوئے دو سالوں کے بارے میں کہا: "اگر یہ دو سال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہو جاتا۔" بہرحال علمی میدان میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمات ناقابل انکار ہیں، فقہ، کلام اور دیگر علوم میں سب سے زیادہ احادیث امام صادقؑ سے نقل ہونے کی وجہ سے مکتب اہل بیت کو مذہب جعفری بھی کہا جاتا ہے، یعنی موجودہ دور میں امام صادق علیہ السلام مذہب جعفری کے بانی اور مؤسس کے طور پر مشہور ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مکتب اہل بیت سے متعلق معصومین علیہم السلام سے منسوب احادیث کا ایک بڑا حصہ امام عالی مقام سے نقل ہوا، کیونکہ آپ کو اپنے علمی فیوضات سے دنیا کو مستفید کرنے کا تھوڑا سا موقع میسر آیا۔ بہر کیف امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی خدمات کا مکمل احاطہ ناممکن ہے، ویسے بھی آپ کا اسم گرامی جعفر ہے، جس کے معنی نہر کے ہیں، گویا قدرت کی طرف سے اشارہ ہے کہ آپ کے علم و کمالات سے دنیا سیراب ہو جائیگی۔