سات اکتوبر2023کو غزہ میں جو تباہی کی بنیادرکھی گئی وہ بظاہر سیز فائر اور قیدیوں کے تبادلے کے باوجود ختم نہیں ہو سکی بلکہ یہ تباہی اب علاقہ مکینوں کو بے گھر کرنے کی وسیع کوششوں میںتبدیل ہوچکی ہے یہاںکے شہریوںکو مصراور اُردن بسانے کامنصوبہ ہے غزہ کو امریکہ کے حوالے کرنے کاٹرمپ بیان اسی سلسلے کی کڑی ہے یہ منصوبہ زمین ہتھیانے کے لیے بزور انخلانسل کشی ہے اکیسویں صدی جسے تہذیب و تمدن اور انصاف کی صدی کہاجاتا ہے میں بھی مسلمانوں سے بے انصافی ہورہی ہے جب گزشتہ بیسویں صدی کے اختتامی عشروں میں یورپی علاقے بوسنیا میں مسلمانوں کی وسیع پیمانے پر نسل کشی کی گئی توبھی دنیاخاموش رہی اب جب مشرقِ وسطیٰ میں بدترین نسل کشی ہورہی ہے تو بھی دنیا کی خاموشی برقرارہے فلسطین جسے ستر ہزار انبیا کی سرزمین ہونے کاشرف حاصل ہے اور جہاں سے محبت وہدایت کے چشمے جاری ہوئے وہاں ہرانسانی جان غیر محفوظ ہوچکی ہے مسلمانوں کا خون ارزاں ہے دنیا کی بے حسی کی وجہ یہ ہے کہ غزہ کے لوگ مسلمان ہونا ہےں مذہبی تعصب کی بنا پر ایسی ناانصافی کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔
غزہ جسے آج خالی کراکریہودیوں کی آبادکاری کامنصوبہ ہے یہ علاقہ صدیوں سے مسلمانوں کا مسکن ہے جو غربت کے حوالے سے دنیا کے پس ماندہ ترین علاقوں میں شمارہوتا ہے یہاں صنعت وحرفت کے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں اکثریت کا پیشہ کھیتی باڑی یا پھر اسرائیلی علاقے میں جاکر محنت مزدوری کرنا ہے تعلیم وصحت کی سہولتوں کا فقدان ہے اِس کے باوجود پُرعزم فلسطینی اپنے آباﺅ اجداد کی سرزمین سے دستبردارہونے پر تیارنہیں اور جیسے تیسے گزربسرکررہے ہیں یہاں کے لوگوں کو بھی زمینیں اور گھر بیچ کر علاقے سے نکل جانے کی پیشکش ہوئی وگرنہ جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں لیکن لوگ خوفزدہ نہ ہوئے اور تمام تر نامساعد حالات کے باوجود علاقہ چھوڑ کر نہ گئے اِس ثابت قدمی پرجھنجلا کر امریکہ جیسی عالمی طاقت اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی ہے اور یہ علاقہ بزورخالی کراکر اسرائیل کوتحفے کے طورپرپیش کرناچاہتی ہے ستم ظریفی تویہ کہ غزہ سے ناانصافی ہوتی دیکھ کربھی مسلم ممالک یک زبان نہیں بلکہ تقسیم ہیں جس کے نتیجے میں عالمی سازشیں کامیاب اور گریٹر اسرائیل کے لیے ماحول سازگار ہو سکتاہے ۔
غزہ کے حوالے سے جس قسم کے اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں یہ ویسا ہی ہے کہ کسی کمزور کی عورت کسی طاقتور کے کارندے کو پسند آجائے مگر کمزور دستبردار نہ ہو تو طاقتور اپنے کارندے کی مدد کو آپہنچے مگر جدید دنیا میں جس طرح عدل و انصاف کی باتیں کی جاتی ہےں ایک عدد اقوامِ متحدہ نامی تنظیم موجود ہے جس کی سلامتی کونسل کادنیا میں امن و استحکام یقینی بنانے کے حوالے سے باقاعدہ کردارطے ہے توسوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی بات آنے پر یہ تمام عالمی اِدارے اور طاقتیں لاتعلق ،غیر جانبدار اور عدم مداخلت کے اصول پرکیوں کاربند ہوجاتی ہیں؟ اِس کا سادہ ساجواب یہ ہے کہ دنیا میں مذہبی تفریق وتعصب برقرارہے رواداری اور برادشت کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں اگر ایسا نہ ہورہا ہوتا تو فلسطین ،کشمیر ،بوسنیااور برما کے مسلمان کیوں بے ےارومددگارہوتے؟ غزہ سے انسانی انخلا کامطالبہ خود مذہبی تفریق کی بدترین مثال ہے۔
روس ،یورپ،مسلم اُمہ ،آسٹریلیا سمیت دنیا کے کئی ممالک نے غزہ آبادی کو بے دخل کرنے اور علاقے کو تحویل میں لینے کے امریکی منصوبے کو مسترد کر دیا ہے عالمی ردِ عمل کے باوجود صدرٹرمپ کا ایک بار پھر غزہ پر قبضے کا بیان دہرانے کاصاف مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ کو کسی اصول یاقاعدے کی پروا نہیں وہ فلسطینیوں سے غزہ کا علاقہ چھیننے پر بضد ہے تاکہ اسرائیل کی جغرافیائی سرحدوں کو وسیع کیا جا سکے گریٹر اسرائیل کے حالیہ جاری ہونے والے نقشے میں مکمل فلسطین کے علاوہ ،شام، اردن، لبنان، مصر، عراق سمیت کئی مسلم ممالک کے علاقے شامل ہیں ایسے علانیہ توسیع پسندانہ عزائم سے آگاہ ہوکر بھی مصر اور اُردن کارویہ کمزوراور مصالحانہ ہے جس سے خدشہ ہے کہ امریکی آشیر باد سے اسرائیل خطے کانقشہ بدل سکتا ہے حالیہ حملوں کے دوران وہ شام اور لبنان کے کئی علاقے ہتھیا چکا مزید پیش قدمی سے اُسے روکنے کی کسی میں ہمت نہیں جدید دنیا میں بھی وہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے قانون پر عمل پیرا ہے اِس میں اُسے امریکہ کا مکمل تعاون حاصل ہے اگر دنیا ناانصافی اور نسل کشی کے خلاف متفقہ اور مشترکہ لائحہ عمل بناکر آواز بلند کرے توحالات تبدیل ہو سکتے ہیں۔
ٹرمپ کے صدر بننے پر یاہو کی امریکہ آمد نے کئی ابہام دور کر دیئے ہیں یاہوکابطورمہمان پُرتپاک استقبال ا ورپھر ٹرمپ کامہمان کے لیے خود کرسی سیدھی کرنا سفارتی آداب سے بالاتررویے میں دنیاکے لیے پیغام ہے کہ اب بھی اگر ٹرمپ سے کوئی انصاف پسند موہوم اُمید لگائے بیٹھا ہے کہ غزہ کے خون آلود کھنڈرات کے ورثاکو انصاف دلانے میں معاونت کرے گا تو وہ غلط ہے بلکہ غزہ کے لیے ٹرمپ خود ایسا طویل مدتی منصوبہ رکھتاہے جس کے تحت اصل آبادکاروں کو مصر اور اُردن دھکیل کر دنیا سے یہودی لاکر آباد کیے جائیں اِس کام کو وہ ترقی کا نام دیتے ہیں ایسے حالات میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا کردار اہم ہو سکتا ہے کیونکہ بظاہر تو سعودی حکومت نے کہہ دیا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی مگر وہ امریکہ میں چھ سو سے لیکر ایک ہزارارب ڈالر کی جس سرمایہ کاری کا اعلان کر چکے ہیں جس کے صلے میں ٹرمپ نے سعودیہ اور اسرائیل کے دورے کا عندیہ دیا ہے اگر سعودی حکومت تھوڑی دلیری دکھائے اور اپنی سرمایہ کاری کے عوض ٹرمپ سے مجوزہ غزہ منصوبہ ترک کرنے کامطالبہ کر دے تو غزہ کے مفلوک الحال اور زخم زخم مسلمانوں پر منڈلاتے خطرات ختم ہو نے کا امکان پیداہوسکتاہے۔
میں مسلسل لکھ رہا ہوں کہ حماس نے اسرائیل پر حملے تیاری و مشاورت کے بغیر کیے جس کا خمیازہ صرف اُسے ہی نہیں تمام فلسطینیوں کو بھگتنا پڑسکتا ہے وہی ہوا کہ فلسطینی اتھارٹی کوحاصل محدود اختیارات سلب کرنے کے ساتھ فلسطین کے حصے بخرے کرنے کاکام شروع ہو چکا ہے ظاہر ہے جب فلسطینیوں کو بے دخل کرکے ہمسایہ ممالک میں آباد کردیا جائے گا توپھر فلسطین کا نام لیوا کون رہے گا؟اِس نوبت تک لانے میں حماس کی بے حکمتی کابڑاعمل دخل ہے اگر سات اکتوبر 2023کی شب حماقت نہ کی جاتی تو نہ صرف لاکھوں مسلمان جانوں سے نہ جاتے بلکہ غزہ کا علاقہ بھی کھنڈرہرگزنہ بنتا۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کے باوجود دنیا میں کے حوالے یہ ہے کہ غزہ کے کے لیے کہ غزہ
پڑھیں:
دنیا ایک نئے عالمی موڑ پر، خود مختاری کا اُبھرتا ہوا بیانیہ
اسلام ٹائمز: ایران نے یہ بیج مشرقِ وسطیٰ میں بویا، سوڈان نے افریقہ میں اسے مضبوط کیا اور نیویارک کے عوام نے مغرب میں اسے آواز دی۔ دنیا اب طاقت کی نہیں، اصول کی سیاست کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک ایسا عہد ہے، جہاں قومیں اپنی تقدیر خود لکھنا چاہتی ہیں اور عالمی طاقتوں کے پرانے کھیل کے لیے جگہ تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ وقت فیصلہ کرے گا کہ امریکہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لاتا ہے یا ایک نئے تصادم کی راہ ہموار ہوتی ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ دنیا اب پرانی نہیں رہی۔ دنیا اب ڈکٹیٹرشپ سے نکل کر اپنے فیصلے اپنے ایوانوں میں کرنا چاہتی ہے، ایسے فیصلے جو انسانی اصولوں پر قائم ہوں، نہ کہ استعماریت و سامراجیت پر۔ تحریر: سید عدنان زیدی
دنیا ایک نئے سیاسی و نظریاتی موڑ پر کھڑی ہے۔ ایران، سوڈان، حزب اللہ اور نیویارک۔۔۔۔ بظاہر چار مختلف محاذ، مگر ایک ہی پیغام دے رہے ہیں کہ خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ یہ چار خبریں اس ہفتے عالمی سیاست کا رخ بدلنے کی طرف واضح اشار ہ کر رہی ہیں، جہاں اصول، غیرت اور خود مختاری کے تصورات دوبارہ زندہ ہوتے نظر آرہے ہیں۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں رہبرِ مسلمین کی اُن شرائط پر، جو انہوں نے ایران و امریکہ تعلقات کی بحالی کے لیے عائد کیں، جنہوں نے ایران کا اصولی مؤقف پوری دنیا پر واضح کر دیا۔ رہبرِ مسلمین نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے تین واضح اور اصولی شرائط رکھ دیں: 1۔ امریکہ اسرائیل کی حمایت مکمل طور پر ختم کرے۔ 2۔ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے فوجی اڈے بند کرے۔ 3۔ خطے کے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرے۔
یہ صرف سفارتی نہیں بلکہ نظریاتی اعلان ہے کہ طاقت مفاد سے نہیں بلکہ اصول سے پیدا ہوتی ہے۔ ایران کا یہ پیغام دراصل مشرقِ وسطیٰ میں نئی خود مختار پالیسی کا آغاز ہے، جہاں کسی بھی طاقت کو "دباؤ" کے بجائے "برابری" کی سطح پر بات کرنی ہوگی۔ ایران نے لبنان کی حمایت پر مبنی اپنے بیانیے میں اسرائیل کو واضح پیغام دیا ہے کہ اگر لبنان میں حزب اللہ پر حملہ کیا گیا تو یہ جنگ صرف لبنان تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ایران اس جنگ میں شامل ہو کر حزب اللہ اور لبنان کا مکمل دفاع کرے گا، یہ وارننگ تین سمتوں میں گئی:
اسرائیل کے لیے: اگر حملہ کرو گے تو کئی محاذ کھل جائیں گے۔
امریکہ کے لیے: ایران اب صرف دفاع نہیں بلکہ پیش قدمی کی پالیسی پر گامزن ہے۔
عرب دنیا کے لیے: ایران خطے کی قیادت کے لیے تیار ہے۔
یہ پیغام ظاہر کرتا ہے کہ ایران اب ردِعمل نہیں بلکہ عمل کا مرکز بن چکا ہے۔ ایران اب طاقت کے ساتھ ہر منفی قوت کا سر کچلنے کے لیے آمادہ ہے اور وقت سے پہلے ہر جارحیت کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ 12 روزہ جنگ میں ایران نے ثابت کیا۔ دنیا نے دیکھا کہ ایرانی میزائلوں نے ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے امریکہ و اسرائیل کے دعووں کو کس طرح کھوکھلا کر دیا اور انہیں جنگ بندی پر مجبور ہونا پڑا۔ قارئینِ محترم! خطے کی طاقت کا توازن تیزی سے بدل رہا ہے، جہاں ایران ایک مضبوط جغرافیائی و نظریاتی قوت کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ اسی دوران افریقہ کے ملک سوڈان کے وزیرِاعظم کامل ادریس نے ایک بڑا اعلان کیا ہے، جس کے بعد سوڈان کے اندر مسلط کردہ جارحیت کے خلاف مزاحمت کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے۔
واضح رہے کہ مصر اور ایران کے تعاون سے کئی مقامات پر سوڈانی مزاحمت کاروں نے دہشت گرد گروہوں کے قافلوں کو تباہ کیا ہے۔ سوڈانی وزیرِاعظم نے ریپڈ سپورٹ فورس (RSF) کو دہشت گرد گروہ قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ وہ گروہ ہے، جو دارفور اور فاشر میں شہریوں کے قتلِ عام میں ملوث سمجھا جاتا ہے اور جس کی مکمل پشت پناہی امریکہ اور متحدہ عرب امارات کر رہے ہیں۔ معاملہ وہی پرانا ہے، معدنیات کا، مفاد کا اور انسانی جانوں کی قیمت پر تسلط کا۔ سوڈانی وزیرِاعظم نے اقوامِ متحدہ کی امن فورس کی تعیناتی کو بھی مسترد کر دیا اور کہا کہ "بین الاقوامی افواج سوڈان کی خود مختاری کے لیے خطرہ ہیں۔" یعنی سوڈان انصاف بھی چاہتا ہے، لیکن اپنی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ یہ افریقہ میں ایک نئی فکری لہر اور مزاحمتی سوچ کا آغاز ہے، جہاں مقامی قیادت عالمی طاقتوں کے اثر سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔
امریکہ جو تہران میں رجیم چینج کا خواب دیکھ رہا تھا، خود نیویارک کے اندر رجیم چینج کی فضا کا شکار ہے۔ ٹرمپ اور اسرائیل دونوں ہی اپنی حمایت کے گراف میں زبردست گراوٹ کا سامنا کر رہے ہیں۔ نیویارک کے میئر کے انتخابات میں زہران ممدانی کی جیت نے سیاسی فضا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ جیت صرف ایک انتخابی کامیابی نہیں بلکہ ایک فکری تبدیلی ہے۔ تین چیزیں اب واضح ہوچکی ہیں۔ 1۔ ٹرمپ ازم کی مقبولیت زوال کا شکار ہے۔ 2۔ اسرائیل مخالف بیانیہ امریکی سیاست میں جگہ بنا رہا ہے۔ 3۔ نئی نسل انسانی بنیادوں پر سیاست چاہتی ہے، اندھی وفاداری نہیں۔ اگرچہ زہران ممدانی مذہبی یا نظریاتی سیاستدان نہیں، لیکن ان کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی عوام بھی اب انصاف پر مبنی سیاست چاہتے ہیں۔
یہ چاروں واقعات بظاہر الگ الگ ہیں، لیکن اصل میں ایک نئی عالمی لہر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایران نے یہ بیج مشرقِ وسطیٰ میں بویا، سوڈان نے افریقہ میں اسے مضبوط کیا اور نیویارک کے عوام نے مغرب میں اسے آواز دی۔ دنیا اب طاقت کی نہیں، اصول کی سیاست کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک ایسا عہد ہے، جہاں قومیں اپنی تقدیر خود لکھنا چاہتی ہیں اور عالمی طاقتوں کے پرانے کھیل کے لیے جگہ تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ وقت فیصلہ کرے گا کہ امریکہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لاتا ہے یا ایک نئے تصادم کی راہ ہموار ہوتی ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ دنیا اب پرانی نہیں رہی۔ دنیا اب ڈکٹیٹرشپ سے نکل کر اپنے فیصلے اپنے ایوانوں میں کرنا چاہتی ہے، ایسے فیصلے جو انسانی اصولوں پر قائم ہوں، نہ کہ استعماریت و سامراجیت پر۔