پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات
اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT
ہندوستان کی پہلی غلطی یہ تھی کہ اس نے اپنی شکست کو قبول کرنے سے انکارکردیا اور اپنے جنگی نقصانات کا انکاری ہوا۔ دوم، اس نے جنگ بندی کروانے میں امریکی صدرکے کردارکا بھی اعتراف نہیں کیا اور نتیجتاً اپنے اوپر پچیس فیصد ٹیرف عائد کروا لیا جو اب بڑھ کر پچاس فیصد ہوگیا ہے۔
ہندوستان روسی تیل کی خریداری اور اس کی بین الاقوامی بازار میں فروخت کو خود کی بہت بڑی معاشی اور سفارتی کامیابی سمجھتا تھا۔ یکایک اس کی ساری معاشی اور غیر معاشی سرگرمیاں بین الاقوامی اداروں کے راڈار پر آگئی اور عالمی ذرایع ابلاغ میں اس پر تحقیقات اور گفتگو ہونے لگی۔
موجودہ حالات میں بات ٹیرف کی پابندیوں تک نہیں رہی ہیں بلکہ ہندوستان نے یکطرفہ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرکے دنیا بھر کے دریاؤں کے استعمال اور پانی کے معاہدوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مہذب دنیا نے نہ صرف اس کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے بلکہ وہ یہ سمجھتی ہے کہ اس فیصلے کی وجہ سے مستقبل میں پانی کے حوالے سے تنازعات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے اور جس کی وجہ ہندوستان ہے۔
دنیا یہ بھی خیال کرسکتی ہے کہ یہ ہندوستان کی عالمی امن کو خراب کرنے کی مذموم سازش بھی ہوسکتی ہے۔ ان حالات میں ہندوستان کے سلامتی کونسل کے مستقل ممبر بننے کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا ہے اور دنیا یہ سمجھنے لگی ہے کہ ہندوستان میں ایک بڑا عالمی کردار ادا کرنے کی نہ اہلیت ہے اور نہ سکت۔ ہندوستان صرف ایک ہندو ریاست ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
ہرچند کے اب ہندوستانی فوج نے جنگ میں ہونیوالے نقصانات کا اعتراف کرنا شروع کردیا ہے۔ ہندوستان کی سول سوسائٹی نے بھی اپنے ذرایع ابلاغ کے غیر ذمے دارانہ کردار پر ان کی گوشمالی شروع کردی ہے۔ وہاں کے مہذب حلقوں کا کہنا ہے کہ بجائے اس کے کہ ذرایع ابلاغ ایک ذمے دارانہ کردار ادا کرتا، اس نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا۔
ایسا لگ رہا تھا کہ پورا ذرایع ابلاغ مودی کے مذموم ایجنڈے پر کام رہا تھا کہ جس کا خمیازہ اب ریاست اور عوام بھگت رہے ہیں۔ مودی کے اکتیس اگست دوہزار پچیس کو چین کے ممکنہ دورے کی خبر نے بین الاقوامی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے اور سنا ہے کہ ہمیں بھی دوبارہ طلب کیا گیا ہے۔
مودی سات سال بعد چین جا رہا ہے۔ ابھی اس دورے کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا بس آپ کو ایک کہاوت بتائی جاسکتی ہے کہ ’’ بنیے کا بیٹا کچھ دیکھ کرگرتا ہے۔‘‘ ہندوستان ہمارا پڑوسی ملک ہے، آپ سب کچھ بدل سکتے ہیں پڑوسی نہیں تبدیل کرسکتے۔
ہمارے بھی یہ مفاد میں ہے پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات بہتر اور برابری کی بنیاد پر استوار ہوں۔ اب ہم اس پر بات کریں گے کہ پاکستان سے اچھے تعلقات ہندوستان کی ضرورت ہی نہیں بلکہ مجبوری کیوں ہے؟ پاکستان اور ہندوستان کی جنگ ایک پراکسی جنگ تھی۔
اصل لڑائی تو دراصل چین اور امریکا کی تھی، اگر اور کھل کر بات کرے تو مغربی اور چینی ٹیکنالوجی کے درمیان جنگ تھی۔ مغرب اپنی ٹیکنالوجی کے سامنے چینی ٹیکنالوجی کو حقیر سمجھتا تھا مگر یہ پاکستانیوں کی مہارت تھی کہ جس کے طفیل چین نے اپنی ٹیکنالوجی کا لوہا منوایا اور مغربی ٹیکنالوجی کو شکست دی۔
مغرب نے ہار ماننے کے بجائے اس کا ملبہ ہندوستانیوں کی اہلیت اور صلاحیت پر ڈالنے کی کوشش کی کہ جس نے ہندوستان کو آگ بگولہ کردیا اور یوں دونوں کے تعلقات میں دراڑ آنے لگی۔ اب اگر آپ اس تناظر میں دیکھیں تو ہندوستان کے پاس دو راستے ہیں۔
ایک، وہ چین کے ساتھ اپنے تمام تعلقات ٹھیک کر لے کہ جس میں لداخ، تبت اور دیگر تنازعات شامل ہیں اور یا پھر وہ پاکستان سے اپنے تعلقات ٹھیک کر لے جو نسبتاً زیادہ سہل اور سستا راستہ ہے۔ چین کے ساتھ سمجھوتہ کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ مغربی دنیا ہی ہوگی اور ڈر ہے کہ یہ راستہ دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف لے جائے گا جوکہ امریکا اور اس کا موجودہ صدر چاہتا ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کی ہزار سال کی مشترکہ تاریخ ہے اور یہ حقیقت ہے۔ اس تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ ہندوستان کھلے دل سے پاکستان اور اس کے وجود کو تسلیم کر لے، اگر ہندوستان ایسا کرتا ہے تو سب کچھ بہت آسان ہوجائے گا۔
کشمیر کا مسئلہ درحقیقت پانی کا مسئلہ ہے۔ فطرت نے وہاں پانی کے اتنے وسائل رکھے ہیں کہ جو دونوں ملک کی ضروریات سے بہت زیادہ ہے بلکہ سمندر برد کرنے پڑتے ہیں، اگر جرمنی اور فرانس اپنی تمام تر خون آلود اور خونخوار تاریخ کے باوجود یورپی یونین میں ایک ہوسکتے ہیں۔
اگر جرمنی اور برطانیہ دو عالمی جنگیں لڑنے کے باوجود یورپ میں شیر و شکر ہوکر رہ سکتے ہیں تو پھر پاکستان اور ہندوستان کے اچھے تعلقات میں رکاوٹ کیوں ہے؟ یہ مغربی دنیا کا وطیرہ رہا ہے کہ جب انھیں اپنا نوآبادیاتی نظام دنیا سے ختم کرنا پڑا تو ہر جگہ سے جانے سے پہلے انھوں نے کوئی نہ کوئی تنازعہ پیچھے چھوڑ دیا جو ان ممالک کے لیے آگے چل کر ناسور بن جاتا ہے۔
یہ بات سمجھا جتنا اب ضروری ہے شاید پہلے کبھی نہ تھا۔ ہندوستان پاکستان کے ذریعے نہ صرف مغرب سے اپنے تعلقات ٹھیک کرسکتا ہے بلکہ دونوں ممالک مل کر بہت بڑی علاقائی قوت بن سکتے ہیں اور پھر مغرب ہمیں نہ یوں لڑوا سکے گا اور نہ بلیک میل کرسکے گا۔
یہ بات جتنی پاکستان کے مفاد میں ہے اس سے کئی گنا زیادہ ہندوستان کے مفاد میں ہے۔پاکستان کے پاس کھونے کے لیے کچھ زیادہ نہیں ہے، ہماری معاشی حالت دنیا کے سامنے عیاں ہے لیکن ہندوستان کے اپنے عالمی عزائم بہت زیادہ ہیں اور اسی لیے اس کا اسٹیک یا داؤ پر بھی بہت کچھ لگا ہوا ہے، اب یہ اس نے طے کرنا ہے کہ وہ اس کی کیا قیمت ادا کرنا چاہتا ہے۔
مودی سات سال بعد چین کے دورے پر جا رہا ہے، ہرچندکہ ان کی وزارت خارجہ نے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کی ہے لیکن جلد ہی ہوجائے گی۔ شنید یہ ہے کہ مودی شنگھائی تعاون تنظیم یعنی ایس سی او کے سربراہ اجلاس میں شرکت کرے گا۔ اس وقت دونوں ممالک کے ماہرین اس دورے کی جزئیات طے کر رہے ہونگے اور اس کے بعد کے جاری ہونیوالے مشترکہ بیانیہ پر بھی کام ہو رہا ہوگا۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ اس ملاقات کو مغرب ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لے گا؟ بالکل بھی نہیں بلکہ ہندوستان کے لیے مشکلات بڑھ جائے گی۔ صدر ٹرمپ نے خالصتان تحریک کی حامی تنظیم ’’ سکھ فار جسٹس‘‘ کے رہنما گروپتونت سنگھ پنن کو خط لکھ دیا ہے جس نے بین الاقوامی سطح پر نئی بحث چھیڑدی ہے۔
ہندوستان میں بہت ساری آزادی کی تحریکیں چل رہی ہے کہ جن کو ہوا اور پانی دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان سے اچھے تعلقات ہندوستان کی ضرورت ہی نہیں بلکہ مجبوری ہے ورنہ ہم اور آپ اپنی زندگی میں ہندوستان کے مزید ٹکڑے ہوتے دیکھیں گے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمام صورتحال تو پاکستان کے حق میں ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان اور ہندوستان بین الاقوامی کہ ہندوستان ہندوستان کی ذرایع ابلاغ ہندوستان کے پاکستان کے سکتے ہیں ہیں بلکہ میں ہے اور اس چین کے ہے اور
پڑھیں:
فیلڈ مارشل سے ممکنہ ملاقات کا خوف؛ مودی ٹرمپ سے ملنے نہیں گئے( امریکی جریدہ)
17 جون کوبھارتی وزیر اعظم کو خدشہ تھا کہ امریکی صدر آرمی چیف عاصم منیر سے ملاقات نہ کرادیں،جریدے کا دعویٰ
ٹرمپ اورمودی کی45 منٹ کی ٹیلی فونک گفتگو امریکا اور بھارت کے تعلقات کے درمیان ٹرننگ پوائنٹ بنی،بلومبرگ
امریکی جریدے بلومبرگ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ممکنہ ملاقات کے ڈر سے امریکی صدر سے ملنے سے گریز کیا۔جریدے کے مطابق مودی نے 17 جون کو امریکی صدر کی کھانے کی دعوت قبول کرنے سے انکار کیا، مودی کو خدشہ تھا کہ امریکی صدر فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات نہ کرادیں۔امریکی جریدے نے دعویٰ کیا کہ 17جون کو امریکی صدر اورمودی کی 45 منٹ طویل ٹیلی فونک گفتگو ہوئی تھی، یہ گفتگو ہی امریکا اور بھارت کے تعلقات کے درمیان ٹرننگ پوائنٹ بنی۔اس تناؤ بھری گفتگو کے بعد ہی امریکا اور بھارت کے تعلقات میں تلخی آنا شروع ہوئی اور تناؤ کی جھلک اس وقت بھی سامنے آئی جب ٹرمپ نے بھارتی معیشت کومردہ کہا۔بعد ازاں امریکی صدر ٹرمپ نے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف بھی عائد کیا۔