سرکاری ویب سائٹس سے تمام ہیلتھ ڈیٹا ہٹا دینے پر ٹرمپ پر مقدمہ دائر
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
ٹرمپ انتظامیہ نے حال ہی میں سرکاری ویب سائٹس سے صحت عامہ سے متعلق ہیلتھ ڈیٹا کو ہٹا دیا ہے جس کے نتیجے میں ڈاکٹرز فار امریکا کی طرف سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر مقدمہ دائر کردیا گیا ہے۔
ڈاکٹرز فار امریکا (ڈی ایف اے) کی جانب سے پبلک سٹیزن لٹیگیشن گروپ نے یہ مقدمہ دائر کیا ہے جس میں آفس آف پرسنل مینجمنٹ، سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن، فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن اور محکمہ صحت اور ہیومن سروسز کو مدعا علیہ کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔
ڈی ایف اے ایک وکالت کی تنظیم ہے جو یونیورسل ہیلتھ کوریج، استطاعت، معیار اور ایکویٹی کی حمایت کرتی ہے۔
ڈی ایف اے اور پی سی ایل جی نے واشنگٹن میں امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ میں دائر کیے گئے مقدمے میں کہا ہے کہ ہیلتھ ویب پیجز اور ڈیٹا کو ہٹانے سے بیماری کے پھیلنے کی نگرانی اور اس کا موثر اقدام کرنے کے لیے دستیاب سائنسی ڈیٹا میں خطرناک خلا پیدا ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے ڈاکٹروں کو ایسے وسائل سے محروم کر دیا گیا ہے جو کلینیکل پریکٹس کی رہنمائی کرتے ہیں اور مریضوں کے ساتھ بات چیت اور مشغول ہونے کے کلیدی وسائل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ٹیلی کام کمپنیوں کی کمپٹیشن کمیشن کے خلاف دائر درخواستیں مسترد
اسلام آباد:ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے دائر کی گئیں کمپٹیشن کمیشن کے خلاف درخواستیں عدالت نے مسترد کردیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جاز، ٹیلی نار، زونگ، یوفون، وارد، پی ٹی سی ایل اور وائی ٹرائب کی درخواستیں خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کمپٹیشن کمیشن کو ٹیلی کام سمیت تمام شعبوں میں انکوائری کا اختیار حاصل ہے۔
واضح رہے کہ کمپٹیشن کمیشن نے گمراہ کن مارکیٹنگ پر ٹیلی کام کمپنیوں کو شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔ یہ شوکاز نوٹسز پری پیڈ کارڈز پر اضافی فیس ’’سروس مینٹیننس‘‘ فیس پر کیے گئے تھے جب کہ ٹیلی کام کمپنیوں نے 2014ء سے نوٹس پر اسٹے حاصل کر رکھا تھا ۔
موبائل کمپنیوں کے ’’ان لِمٹڈ انٹرنیٹ‘‘ پیکیجز کو گمراہ کن مارکیٹنگ قرار دیا گیا تھا۔
پی ٹی سی ایل نے فکسڈ لوکل لوپ سروسز میں امتیازی قیمتوں پر انکوائری پر اسٹے لیا تھا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ کمپٹیشن کے قانون کا دائرہ اختیار معیشت کے تمام شعبوں تک ہے۔ ریگولیٹری ادارے بھی کمپٹیشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں آ سکتے ہیں۔ عدالت نے ٹیلی کام کمپنیوں کی ساتوں منسلک درخواستیں ناقابلِ سماعت قرار دے کر مسترد کردیں۔