چین کے قدرتی جنگلات کے تحفظ کا نظام بنیادی طور پر 2035 تک مستحکم ہو جائے گا
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
بیجنگ : چین کے ققومی جنگلات اور چراگاہوں کے ادارے، قومی ترقی اور اصلاحات کی کمیٹی، اور وزارت خزانہ سمیت چھ محکموں نے مشترکہ طور پر “قدرتی جنگلات کی حفاظت اور بحالی کے لیے درمیانی اور طویل مدتی منصوبہ” جاری کیا ہے۔ اس منصوبے میں نئے دور میں چین کے قدرتی جنگلات کی حفاظت اور بحالی کے لیے اعلیٰ سطحی ڈیزائن اور جامع تعیناتی کی گئی ہے۔
منصوبے میں تجویز کیا گیا ہے کہ 2035 تک، قدرتی جنگلات کی حفاظت اور بحالی کا نظام بنیادی طور پر مکمل ہو جائے گا، معیار میں بنیادی بہتری آئے گی، اور قدرتی جنگلات کا ماحولیاتی نظام صحت مند، مستحکم اور فعال ہوگا۔ منصوبے میں واضح کیا گیا ہے کہ تمام قدرتی جنگلات اور غیر قدرتی عوامی جنگلات کے لیے یکساں تحفظ کا نظام ، تحفظ کی ذمہ داریوں کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے گا، تحفظ کی صلاحیت کو مسلسل بہتر بنایا جائے گا اور بحالی کے لیے پرورش، تبدیلی، اور تجدید جامع اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ جنگلاتی علاقوں میں عوامی بہبود کے تحفظ کے نظام کو مسلسل بہتر بنایا جائے گا، جنگلاتی علاقوں میں سبز ترقی کو فروغ دیا جائے گا اور جنگلاتی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کیا جائے گا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے حالات غیر مستحکم
مودی حکومت کے اقدامات سے کشمیر ایک کھلی جیل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کرفیو نافذ کر کے انسانی حقوق کی پامالیاں عام بات بن چکی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ کشمیر جنگی جنون میں مبتلا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے اور آرٹیکل 370 کی منسوخی بھی مودی سرکار کا ایک ناکام اقدام ثابت ہوا ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال غیر مستحکم و تشویش ناک ہے اور مقبوضہ وادی کا کنٹرول مودی سرکار کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، جس سے امن کے دعوے بے بنیاد ثابت ہو رہے ہیں آرٹیکل 370 کی منسوخی سمیت مودی کی تمام یکطرفہ پالیسیوں نے عوامی غصے کو بغاوت کی شکل دے دی ہے۔ یاد رہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی پر امت شاہ نے اسے پارلیمنٹ میں تاریخی قدم قرار دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ آرٹیکل 370 ہٹانے سے کشمیر میں دہشت گردی ختم ہو گی امن و یکساں حقوق ملیں گے۔ حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ امت شاہ کے یہ دعوے حقیقت سے کوسوں دور ہیں اور مقبوضہ وادی آج بھی سلگ رہی ہے۔ مودی حکومت نے کشمیری عوام اور قیادت کو نظرانداز کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا تھا۔ محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور دیگر رہنماؤں کو نظربند کیا، جس کے ردعمل میں احتجاج اور تحریکیں شدت پکڑ گئیں۔
مودی کی پالیسیوں کے خلاف جموں و کشمیر اپنی پارٹی جیسی جماعتیں منظر عام پر آئیں۔ اس کے علاوہ بھی کشمیر میں مودی حکومت کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے اور آزادی کی آوازیں مزید بلند ہو رہی ہیں۔ مودی حکومت کے اقدامات سے کشمیر ایک کھلی جیل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کرفیو نافذ کر کے انسانی حقوق کی پامالیاں عام بات بن چکی ہے۔یہاں تک کہ ہیومن رائٹس واچ نے 2019ء کے بعد مقبوضہ کشمیر میں حقوق کی پامالیوں کو دستاویزی شکل دی۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 2020ء اور 2021ء میں 200 سے زائد شہری سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں "فیک انکاؤنٹر" میں مارے گئے۔ ہزاروں کشمیری بشمول سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور طلبا کو بغیر الزام یا مقدمے کے گرفتار کیا گیا۔ انسانی حقوق تنظیم کے مطابق اگست 2019ء سے فروری 2020ء تک 7 ماہ کی طویل انٹرنیٹ کی بندش سے زندگی مفلوج رہی اور پابندیاں اب بھی جاری ہیں۔فوجی کارروائیوں کے دوران تشدد اور ریپ کے واقعات میں اضافہ ہو چکا ہے جب کہ میڈیا پر پابندیاں ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں مودی کے جبر کیخلاف جاری مزاحمت، آزادی کے لیے کشمیری عوام کے عزم کی عکاسی ہے۔