اخبار میں ایک نالے کی تصویر تھی، ٹوٹا ہوا نالہ، پلاسٹک کی رنگ برنگی کچرے اور مٹی میں ڈوبی تھیلیوں سے بھری تھی۔ یہ تھیلیاں نالے میں پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ بنی تھیں، بظاہر ہلکی پھلکی سی تھیلیاں نقصان دہ تو نہیں لگ رہی تھیں۔
درحقیقت یہ تھیلیاں نہ صرف نقصان دہ ہیں بلکہ ہماری ترقی کی بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔سڑک پر چلتے، بازاروں سے گزرتے یہاں تک کہ انڈرپاسز اور اوورہیڈ برج پر بھی آپ کو پلاسٹک کا کچرا ضرور ملے گا کہ یہ ہمارے ملک میں خود رو کی طرح نہ جانے کہاں سے اگ رہے ہیں اور نظر آ رہے ہیں۔
حال ہی میں ایک خبر پر نظر پڑی جہاں انڈونیشیا میں پلاسٹک پر پابندی سے متعلق لکھا دیکھا۔ یہ خبر انڈونیشیا کے جزیرے بالی کی تھی جو ایک سیاحتی مقام ہے اور یہ جزیرہ کوڑا کرکٹ کے معاملے میں آگے ہی بڑھتا جا رہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق یہ جزیرہ پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ تین لاکھ سالانہ پیدا کر رہا ہے یہ وہ کوڑا کرکٹ ہے جس کا آدھا جمع نہیں کیا جاتا، اس طرح تقریباً تینتیس ہزار ٹن سمندر میں چلا جاتا ہے۔
یہ پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ سمندر کی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے کیونکہ یہ غیر حل پذیر اجزا سے تشکیل پاتا ہے۔ یہ کوڑا کرکٹ پانی کی ان ڈھیروں خالی بوتلوں سے کچھ اور بھی کثیف ہو جاتا ہے جنھیں لوگ پانی پینے کے بعد بے پروائی سے ساحل پر ادھر اُدھر پھینک دیتے ہیں۔
انڈونیشیا میں جزیرہ بالی نے پلاسٹک کی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے نئی پالیسی نافذ کی ہے جس کے تحت وہاں اسکولوں،کالجز اور دیگر سرکاری دفاتر میں پلاسٹک کی بوتلوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
’’ہمیں امید ہے کہ پائیدار اور سرسبز بالی بنانے کے لیے نئی پالیسی کو پوری ذمے داری کے ساتھ نافذ کیا جائے گا۔‘‘ صوبے کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے لیکن کیا اس پر عمل ہو سکے گا۔
ویسے یہ مسئلہ تو ہمارے ملک کا بھی ہے، جہاں پلاسٹک کے کوڑا کرکٹ کے پہاڑ کھڑے ہو سکتے ہیں۔2019 میں بھی بالی میں حکومت نے سمندری آلودگی کو ختم کرنے کے لیے ’’ایک مرتبہ استعمال کے لائق پلاسٹک‘‘ پر پابندی عائد کی تھی اور اس طرح بالی انڈونیشیا کا پہلا صوبہ بن گیا تھا جہاں اس طرح کی پابندی کی گئی تھی۔
2025 میں یہ نئی پالیسی انڈونیشیا میں آلودگی کی بری صورتحال کو عیاں کرتی ہے۔ پاکستان میں آلودگی کا مسئلہ اب خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ نالے اور گٹر یہاں تک کہ حالیہ کھدنے والے کسی بھی نوعیت کے گڑھے چند دنوں میں ہی پلاسٹک کی تھیلیوں سے پُر ہو جاتے ہیں۔
کیا ہم کبھی اس قسم کی پالیسی کو نافذ کر سکیں گے کہ جس کے تحت ہمارے ملک میں پلاسٹک کے کچرے کو کنٹرول کر سکیں کیا ایسا ہونا کبھی ممکن ہے؟ دریائے ٹیمز برطانیہ کا ایک اہم دریا جو سترہویں صدی تک ایک بد بودار غلیظ پانی کی صورت تھا، ترقی کے سفر کی شروعات میں اس دریا کو آلودگی سے پاک کرنے کا عزم کیا گیا اور اس پر سختی سے عمل درآمد کیا گیا۔
گو یہ ایک نہایت مشکل عمل تھا لیکن انگلستان کو مستقبل میں ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لیے ناگزیر تھا اور پھر آج کے دریائے ٹیمزکو دیکھیے کیا وہ کبھی آلودہ تھا، وہ بھی گندے اور بدبودار پانی سے بھرا بڑی عجیب سی حالت ہوگی اور آج ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ ہم جو ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کے دعوے توکرتے ہیں۔
کیا اس سنگ میل کے راہی بن بھی سکتے ہیں یا نہیں؟کہا جاتا ہے صنعتیں جو فضلہ پیدا کرتی ہیں اسے براہ راست سمندر میں بہا دینے اور کچرے کو ٹھکانے لگانے کا مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث میٹھے پانی میں اس کا بہاؤ جو نہ صرف میٹھے بلکہ کھارے پانی کو بھی آلودگی کے زہر سے برباد کرتا جاتا ہے۔
مختلف کیمیکلز کی موجودگی پانی میں موجود آبی حیات کے لیے بھی سخت خطرناک ہے۔ دنیا میں صاف پانی کی مقدار صرف تین فی صد ہے جب کہ باقی کھارا پانی ہے۔ لیکن ہم اپنی غیر ذمے داری سے صاف میٹھے پانی کو آلودگی کے زہر سے برباد کرنے پر تلے ہیں۔
آبادی کے حوالے سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک پاکستان آبی آلودگی کا بری طرح نشانہ بن رہا ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے علاقوں میں پینے کے لیے پانی کی شفافیت مفقود ہے۔ عالمی بینک کے لیے ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں شہری آبادی اور صنعتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے شہری آبادی میں پانچ فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے جس سے آبی وسائل پرگہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ذخائر کم ہونے کے ساتھ پانی آلودہ بھی ہو رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق گندے پانی کی نکاسی اور فضلے کی صفائی کا مسئلہ نہایت اہم ہے کیونکہ شہر میں صنعتی گندے پانی کی ٹریٹمنٹ کے لیے پلانٹس ضرورت سے بہت کم ہیں، جس کے باعث گندا پانی پینے کے پانی میں مل رہا ہے۔
رپورٹ میں آئرن، زنک اور سنکھیا جیسے مضر صحت عناصر پینے کے پانی میں شامل ہیں۔ ’’پاکستانز واٹرز اکانومی رننگ ڈرائی‘‘ نامی رپورٹ میں پاکستان میں وجوہات اور دیگر مسائل بڑی تفصیل سے تحریر ہے، پر برسوں پہلے اس رپورٹ پر کسی حد تک کام کیا گیا۔پلاسٹک کا کچرا ہو یا صنعتوں کا گندا فضلہ، آبی آلودگی ایک بڑا خطرہ بن کر براہ راست پاکستان کے عوام کی صحت پر اثرانداز ہے، کیا عوام اور حکومتی ادارے مل کر اس کی آگاہی اور خاتمے کے لیے کام کر سکتی ہیں، ترقی کی راہ میں اس بڑی رکاوٹ کو دورکرنا آج کی اہم ضرورت ہے، ورنہ کل ہم سے شکوہ کرے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پلاسٹک کی پانی میں پینے کے ترقی کی جاتا ہے پانی کی کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
بھارت کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کا فیصلہ واپس لے، بلاول
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں بھارت کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کا فیصلہ واپس لے۔ پاک بھارت حالیہ تنازع کے بعد دنیا آج پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہے۔
برطانوی تھنک ٹینک آئی آئی ایس ایس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں بھارت کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کا فیصلہ واپس لے اور حالیہ تنازع کے بعد بھارت کے ساتھ غیر مشروط مگر جامع مذاکرات چاہتے ہیں۔ مودی پاکستان کے عوام کا دشمن ہے اور پانی کی بندش اس کا ثبوت ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ بھارت کی پانی بند کرنے کی دھمکی کی مذمت ہونی چاہیئے۔ اور پانی بند کیا تو اس کو اعلان جنگ سمجھیں گے۔ پاک بھارت حالیہ تنازع کے بعد دنیا آج پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم نے دہشتگردی کے خلاف مربوط اقدامات اٹھائے ہیں۔ اور بھارت کو سمجھنا ہو گا کہ دہشتگردی بھارت کا نیشنل سیکیورٹی فیلیئر ہے۔ بھارت اپنے لوگوں کو بھی پہلگام واقعے میں ملوث افراد کے نام نہیں بتا سکا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت دہشت گردوں کے پاکستان سے آنے کے ثبوت دیتی تو ہم ایکشن لیتے۔ لیکن بھارت آج تک یہ بھی نہیں بتا سکا کہ بھارت نے پاکستان کے اندر کون سے دہشت گرد مارے۔ بھارت نے پاکستان کے اندر بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا۔ جبکہ بھارت نے من موہن سنگھ کے دور میں بلوچستان کی اندر دہشتگردوں کی معاونت کا اعتراف کیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ انڈین آرمی افسر کلبھوشن یادیو کو بلوچستان کے اندر سے گرفتار کیا۔ جبکہ بھارت کینیڈا اور امریکہ کے اندر بھی دہشتگردی میں ملوث ہے۔ ہم بھارت کے اقدامات کو چیلنج کر رہے ہیں۔ اور بھارت نے اگر پاکستان کا پانی بند کیا تو دنیا نوٹس لے گی۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی جارحیت اور روئیے کی وجہ سے خطے میں ایٹمی جنگ کا خطرہ بڑھا۔ اور اگر برطانیہ اپنے جیٹ طیارے دے تو ان کا بھی بہترین استعمال کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب نے امن کے لیے کردار ادا کیا۔ جبکہ ترکیے اور آذربائیجان نے اصولی بنیادوں پر پاکستان کی حمایت کی۔ بھارت ترکیے اور آذربائیجان کو سچ کا ساتھ دینے پر بائیکاٹ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ امن پاکستان اور بھارت دونوں کے مفاد میں ہے۔ اور بھارتی میڈیا نے دوران جنگ جو کردار ادا کیا اس پر ان کے میڈیا کا کچھ حصہ خود شرمندہ ہے۔ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کشمیر پر بات کر رہے ہیں تو یہ پاکستان بھارت کا اندرونی مسئلہ کیسے ہوا۔ اور اگر بھارت کے ساتھ بات چیت ہوئی تو کشمیر، پانی اور دہشتگردی ضرور شامل ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم دہشتگردی کے خلاف بھارت کے لیے نہیں اپنی بقا کے لیے لڑ رہے ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے اسکول کے بچوں پر حملہ کیا۔ اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت اقوام متحدہ کو دیئے ہیں۔ ہم نے دہشتگردوں کے بارے میں معلومات بھارت کے ساتھ شیئر کیں۔ لیکن بھارت نے کبھی ایسا نہیں کیا۔