راجہ عابد کو ڈرانے کی کوشش انتہائی شرمناک ہے، کاظم میثم
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
قائد حزب اختلاف جی بی اسمبلی محمد کاظم میثم نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ راجہ عابد کی گرفتاری نے ثابت کیا کہ ناقص نظام تعلیم اور آئندہ نسلوں کی تباہی حکمرانوں کا ایجنڈا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ قائد حزب اختلاف جی بی اسمبلی محمد کاظم میثم نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ راجہ عابد کی گرفتاری نے ثابت کیا کہ ناقص نظام تعلیم اور آئندہ نسلوں کی تباہی حکمرانوں کا ایجنڈا ہے۔ تعلیم اچھی ہو جائے اور شعور معاشرہ پر حامی ہو جائے تو ہر محلہ میں راجہ عابد پیدا ہو گا، جن پر جعلی نعروں اور مکاری سے حکومت ممکن نہیں ہو گی۔ طلباء کی تعلیم کے لیے راجہ عابد جس طرح سوز جگر رکھتا ہے انہیں داد دینی چاہیے لیکن ان کو ڈرانے کی کوشش انتہائی پست اور شرمناک رویہ ہے۔ راجہ عابد چلاس کا نوجوان قائد طلبا نہیں بلکہ پورے گلگت بلتستان کا ہے۔ انکے شعور، جرات و بہادری اور قائدانہ صلاحیت لائق تحسین ہے۔ انکو اپوزیشن چیمبر میں جلد بلا کر حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ گلگت بلتستان شعوری سفر پر ہے۔ یہ نوشتہ دیوار ہے کہ ظلم، فسطائیت، مکاری اور عیاری ریت کی دیوار ثابت ہو گی اور یہاں کی یوتھ اپنے حقوق چھین کے لے گی۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
غزہ: خوراک کے موجودہ ذخائر مکینوں کی بقاء کے لیے انتہائی ناکافی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 05 جون 2025ء) اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی پابندیوں کے باعث غزہ میں لوگوں کو بہت کم مقدار میں خوراک دستیاب ہے جو انسانی زندگی کی بقا کے لیے کافی نہیں۔
علاقے میں غذائی قلت کا خطرہ بدستور برقرار ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) نے بتایا ہے کہ اس وقت غزہ میں ہر شہری کو روزانہ اوسطاً 1,400 حرارے میسر ہیں جبکہ انسانی جسم کو کم از کم 2,300 حراروں کی ضرورت ہوتی ہے۔
Tweet URLاکتوبر 2023 اور دسمبر 2024 کے درمیانی عرصہ میں غزہ کے لوگوں کو روزانہ فی کس اوسطاً 1,510 حرارے دستیاب تھے جو مطلوبہ مقدار کا 72 فیصد ہیں۔
(جاری ہے)
'ایف اے او' نے کہا ہے کہ اس صورتحال سے بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی منظم اور بڑھتی ہوئی خلاف ورزی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے حسب ضرورت خوراک کی دستیابی کے حق، بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ممانعت اور مسلح تنازع میں شہریوں کو تحفظ دینے کے قوانین کی پامالی خاص طور پر تشویشناک ہے۔
متنوع خوراک سے محرومیادارے نے کہا ہے کہ ان حالات میں ایسے خاندانوں کو بھوک اور غذائیت کی کمی کے سنگین اثرات کا سامنا ہے جن کے پاس نہ تو نقدی ہے اور نہ ہی انہیں جسمانی طور پر فعال مردوں کا ساتھ میسر ہے۔ غزہ میں لوگوں کو درپیش بھوک کے بارے میں یہ تجزیہ گزشتہ مہینے غذائی تحفظ کے ماہرین کی جانب سے جاری کردہ انتباہ سے مطابقت رکھتا ہے جس کے مطابق علاقے کی پوری آبادی متنوع خوراک سے محروم ہو چکی ہے۔
'ایف اے او' نے کہا ہے کہ باقاعدہ امدادی اداروں کے زیرانتظام بڑے پیمانے پر خوراک اور دیگر امداد کی تقسیم کے بغیر انسانی حالات مزید بگڑ جائیں گے۔ اقوام متحدہ اور اس کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اسرائیل پر تواتر سے زور دیا ہے کہ وہ بڑی مقدار میں امداد پہنچانے کی اجازت دے اور اس حوالے سے عالمی عدالت انصاف کے احکامات پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔
نامعلوم امواتاس وقت غزہ کی آبادی 21 لاکھ ہے جو اکتوبر 2023 میں جنگ شروع ہونے سے پہلے 22 لاکھ 30 ہزار تھی۔ 'ایف اے او' نے فلسطینی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ 30 اپریل تک 52,400 فلسطینی ہلاک ہو چکے تھے جبکہ 11 ہزار لاپتہ ہیں جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
اگرچہ دوران جنگ غزہ میں 60 ہزار بچوں کی پیدائش ہوئی ہے تاہم نامعلوم تعداد میں لوگ فطری وجوہات یا بھوک، علاج میسر نہ آنے اور شدید زخمی ہونے کے باعث انتقال کر گئے ہیں۔
ادارے نے جون 2024 میں معروف طبی جریدے دی لینسیٹ میں شائع ہونے والے مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کے بالواسطہ اثرات کے نتیجے میں مزید ایک لاکھ 86 ہزار لوگوں کی موت واقع ہو سکتی ہے۔'ایف اے او' نے کہا ہے کہ غزہ میں روزانہ 2,297 ٹن یا 120 ٹرکوں کے برابر غذائی مدد درکار ہے تاکہ ہر فرد کو کم از کم 2,100 حرارے میسر آ سکیں۔ بدھ کو اقوام متحدہ کی ٹیموں نے کیریم شالوم کے سرحدی راستے سے 130 امدادی ٹرکوں تک رسائی کی درخواست کی تھی لیکن اسرائیلی حکام نے آٹے کے 50 ٹرک ہی علاقے میں لے جانے کی اجازت دی ہے۔