بنگلہ دیش کی برطرف سابق وزیراعظم شیخ حسینہ، جو کئی دہائیوں تک ملک کی سیاست پر چھائی رہیں، کو آج سزائے موت سنا دی گئی ہے۔

خود ان کی اپنی قائم کردہ خصوصی عدالت کے 3 رکنی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے فیصلہ دیتے ہوئے مظاہروں سے متعلقہ 2 الزامات کے تحت انہیں سزائے موت اور 3 الزامات کے تحت عمر قید کی سزا سنا دی۔

یہ بھی پڑھیے: انسانیت کیخلاف جرائم: بنگلہ دیشی عدالت نے حسینہ واجد کو سزائے موت سنا دی

شیخ حسینہ واجد نے 1996 سے 2001 تک اور پھر 2009 سے 2024 تک مسلسل 4 مرتبہ بطور وزیراعظم خدمات انجام دیں۔ ان کی 5ویں مدت، جو جنوری 2024 کے متنازع انتخابات کے بعد شروع ہوئی تھی، اُن کی حکومت کے خلاف شدید احتجاج کے باعث مختصر رہ گئی، اور بالآخر انہیں استعفیٰ دے کر ملک چھوڑنا پڑا۔

ابتدائی زندگی

حسینہ واجد بنگلہ دیش کے بانی رہنما اور پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کے معمار شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی ہیں۔ 1947 میں پیدا ہونے والی حسینہ واجد 1960 کی دہائی کے اواخر میں جامعہ ڈھاکا میں تعلیم کے دوران وہ سیاست میں سرگرم رہیں اور اپنے والد کی جانب سے، ان کی پاکستانی حکومت کے ہاتھوں گرفتاری کے دوران، سیاسی رابطہ کار کے طور پر خدمات انجام دیتی رہیں۔

 1971 میں جنگ کے دوران بغاوت میں حصہ لینے پر انہیں اور ان کے خاندان کو مختصر مدت کے لیے حراست میں بھی رکھا گیا۔

یہ بھی پڑھیے: حسینہ واجد کیخلاف عدالت کا فیصلہ، سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم نے حامیوں کو کیا پیغام دیا؟

15 اگست 1975 کو، ان کے والد شیج مجیب، جو چند ماہ قبل بنگلہ دیش کے صدر بنے تھے، والدہ اور 3 بھائیوں کو چند فوجی افسران نے اُن کے گھر میں قتل کر دیا۔ اُس وقت حسینہ ملک سے باہر تھیں۔ وہ بعد میں 6 سال جلاوطنی میں رہیں، جس دوران انہیں عوامی لیگ کی قیادت کے لیے منتخب کیا گیا، جو وقت کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن چکی تھی۔

سیاست میں عروج

1981 میں وطن واپسی پر وہ جمہوریت کی مضبوط وکیل بن کر ابھریں، جس کے باعث انہیں متعدد بار نظربند کیا گیا۔ وہ بالآخر پارلیمان میں قائدِ حزبِ اختلاف بنیں اور فوجی حکمرانی کے خلاف آواز اٹھائی۔ حسینہ کی جانب سے دیے گئے الٹی میٹم اور عوامی دباؤ نے دسمبر 1990 میں فوجی حکمران لیفٹنینٹ جنرل حسین محمد ارشاد کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔

اقتدار

1991 میں 16 سال بعد ہونے والے پہلے آزادانہ عام انتخابات میں حسینہ اکثریت حاصل نہ کر سکیں اور حکومت خالدہ ضیا اور ان کی جماعت، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)، کو مل گئی۔ حسینہ نے انتخابی دھاندلی کا الزام عائد کیا اور عوامی لیگ سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمان کا بائیکاٹ کیا، جس سے ملک میں شدید سیاسی بحران پیدا ہوا۔

بالآخر خالدہ ضیا نے نگران حکومت کے مطالبے کے آگے سر جھکا دیا، جس کے بعد جون 1996 میں ہونے والے انتخابات میں حسینہ وزیراعظم منتخب ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیے: اگر پابندی نہیں ہٹی تو بنگلہ دیش میں الیکشن نہیں ہونے دیں گے، حسینہ واجد کے بیٹے کی دھمکی

اپنی پہلی مدت میں معاشی ترقی کے باوجود سیاسی ماحول شدید انتشار کا شکار رہا۔ 2001 میں وہ بنگلہ دیش کی پہلی وزیراعظم بنیں جنہوں نے 5 سالہ مدت مکمل کی، لیکن انتخابات میں انہیں شکست ہوئی، جسے انہوں نے دھاندلی قرار دیا، مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔

بعد کے برسوں میں سیاسی ماحول بدستور کشیدہ رہا۔ 2004 میں ایک جلسے میں ان پر دستی بم حملہ ہوا۔ 2007 میں ایمرجنسی کے دوران انہیں اور خالدہ ضیا دونوں کو کرپشن کے الزامات میں گرفتار کیا گیا۔ 2008 میں رہائی کے بعد انتخابات ہوئے جن میں عوامی لیگ نے بھاری اکثریت حاصل کی۔

وَن پارٹی حکمرانی

2009 میں وہ دوبارہ وزیراعظم بنیں۔ اسی مدت میں ان کے والد کے قاتلوں کو پھانسی دی گئی اور جنگی جرائم کے مقدمات کی پہلی خصوصی عدالت قائم ہوئی، جنہیں اپوزیشن نے سیاسی قرار دیا۔ واضح رہے کہ آج اسی عدالت نے انہیں موت کی سزا سنا دی ہے۔

2017 میں روہنگیا پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر آمد پر بنگلہ دیش نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد فراہم کی، جسے عالمی سطح پر سراہا گیا۔ دوسری جانب اپوزیشن پر کریک ڈاؤن، گرفتاریوں، اظہارِ رائے کی پابندی اور جماعتِ اسلامی پر پابندی جیسے اقدامات پر سخت تنقید ہوئی۔ 2014 کے انتخابات بی این پی نے بائیکاٹ کیے جبکہ 2018 میں اسے بدترین شکست ہوئی، جسے حسینہ نے بی این پی کی کمزور قیادت کا نتیجہ قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیے: شیخ حسینہ کے خلاف متوقع فیصلے سے قبل ڈھاکا سمیت 3 اضلاع میں فوجی دستے تعینات

جنوری 2024 کے انتخابات سے قبل اپوزیشن نے دعویٰ کیا کہ ان کے 20 ہزار سے زائد کارکن گرفتار کیے گئے۔ بی این پی نے نگران حکومت کے مطالبے کی عدم منظوری پر انتخابات کا بائیکاٹ کیا، لیکن حسینہ نے انتخابات کو آزاد و منصفانہ قرار دیا اور عوامی لیگ نے 222 نشستیں جیت لیں، جس سے مبصرین نے ان کے دور کو عملی طور پر ‘ایک جماعتی نظام’ قرار دیا۔

زوال

سیاسی بے چینی کا آغاز گزشتہ سال طلبا کے اُن مظاہروں سے ہوا جن میں سول سروس ملازمتوں کے انتخابی معیار میں اصلاحات، کوٹہ نظام کے خاتمے اور مکمل میرٹ پر مبنی نظام کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اگرچہ ان مطالبات کو بعد کی ہفتوں میں بڑی حد تک تسلیم کر لیا گیا، لیکن یہ احتجاج حکومت مخالف تحریک میں بدل گئے، جس کے نتیجے میں اگست کے اوائل تک حسینہ کے استعفے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔

5 اگست کو بنگلہ دیش کے فوجی سربراہ نے حسینہ کے استعفے کی تصدیق کی اور اعلان کیا کہ جلد ہی عبوری حکومت تشکیل دی جائے گی۔ 5 بار وزیراعظم رہنے والی حسینہ واجد پرتشدد مظاہروں کے درمیان ایک ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر ملک سے فرار ہوکر بھارت چلی گئیں۔

یہ بھی پڑھیے: شیخ حسینہ کو اپنے ہی قائم کردہ عدالت نے سزائے موت سنا دی

ان پر مظاہروں سے طاقت کے ذریعے نمٹنے اور مظاہرین کی ہلاکت سے متعلق مقدمات بنائے گئے۔ آج 3 رکنی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے انہیں 5 الزامات میں سزائے موت اور عمر قید کی سزا سنا دی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ حسینہ واجد کو ڈھاکا میں 6 مظاہرین اور اشولیا میں 6 طلبا کے قتل میں ملوث پایا گیا، ان جرائم پر انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔

اس کے علاوہ مظاہرین پر مہلک ہتھیاروں جیسے ڈرونز اور ہیلی کاپٹرز کے استعمال کی اجازت دینے اور اشتعال انگیز بیانات دینے پر انہیں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ ان کے وکیل نے ان تمام الزامات کے رد کردیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

1971 کی جنگ shaikh hasina wajid Shaikh Mujee ur Rehman بنگلہ دیش ڈھاکا شیخ حسینہ واجد شیخ مجیب الرحمان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: 1971 کی جنگ بنگلہ دیش ڈھاکا شیخ حسینہ واجد شیخ مجیب الرحمان کی سزا سنا دی حسینہ واجد بنگلہ دیش سزائے موت عوامی لیگ بی این پی قرار دیا حکومت کے کے دوران کیا گیا

پڑھیں:

بنگلادیشی عدالت نے شیخ حسینہ کو انسانیت کیخلاف جرائم کا مجرم قرار دیدیا، سزائے موت کا حکم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بنگلا دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو انسانیت کے خلاف جرائم میں مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنادی ہے۔ جسٹس محمد غلام مرتضیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے مقدمات کا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ شیخ حسینہ واجد پر عائد الزامات ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ثابت ہو گئے ہیں۔

ٹربیونل نے 453 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا، جس میں یہ قرار دیا گیا کہ سابق وزیراعظم کو انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کا مرتکب ہونے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ فیصلے کے وقت ملک بھر میں سکیورٹی ہائی الرٹ رہی جبکہ ان کے گھر کے باہر کارکنوں اور طلبہ کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا۔

عدالت کے مطابق ایک لیک آڈیو کال میں یہ بات سامنے آئی کہ شیخ حسینہ واجد نے احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف سخت اقدامات اور ان کے قتل کے احکامات دیے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ انہوں نے طلبہ کے مطالبات سننے کے بجائے صورتحال کو مزید بگاڑنے والے اقدامات کیے اور طاقت کے استعمال سے تحریک کو دبانے کی کوشش کی۔

عدالت نے مزید کہا کہ شیخ حسینہ واجد اور سابق وزیر داخلہ اسد الزماں خان کمال متعدد بار نوٹسز بھیجے جانے کے باوجود پیش نہ ہوئے اور دونوں تاحال مفرور ہیں، جو عدالت کے نزدیک ان کے جرم کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔ مقدمے میں واحد ملزم المامون عدالت میں موجود تھا، جس نے جولائی میں سماعت کے دوران اعتراف جرم بھی کیا تھا۔

فیصلے میں یہ بھی بیان کیا گیا کہ شیخ حسینہ حفاظتی اقدامات کرنے میں ناکام رہیں اور ایک الزام کے تحت ڈرون، ہیلی کاپٹر اور مہلک ہتھیاروں کے استعمال کی ہدایات انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا۔

ویب ڈیسک مقصود بھٹی

متعلقہ مضامین

  • ’شیخ حسینہ کو نہیں بھارتی بالادستی کو سزائے موت سنائی گئی‘، بالآخر تاریخ کا فیصلہ سامنے آگیا
  • حسینہ واجد کی سزا پر عالمی ماہر کا تبصرہ، بنگلہ دیش میں سیاسی اثرات کا امکان
  • سزائے موت سنائے جانے کے بعد بھارت شیخ حسینہ واجد کو بھارت کے حوالے کرنے کا پابند
  • سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت کا حکم، ’اپنے کیے کی سزا مل گئی‘
  • بنگلادیشی عدالت نے شیخ حسینہ کو انسانیت کیخلاف جرائم کا مجرم قرار دیدیا، سزائے موت کا حکم
  • بنگلہ دیش کی عدالت نے معزول وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت سنا دی
  • بنگلادیشی عدالت نے شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت کا حکم دے دیا
  • شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت دی جائے، بنگلہ دیش کی خصوصی کرائم ٹریبونل نے فیصلہ سنا دیا
  • اگر پابندی نہیں ہٹی تو بنگلہ دیش میں الیکشن نہیں ہونے دیں گے، حسینہ واجد کے بیٹے کی دھمکی