بنگلادیشی عدالت نے شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت کا حکم دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, November 2025 GMT
ڈھاکا(انٹرنیشنل ڈیسک) بنگلادیش کی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل-1 نے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو انسانیت کیخلاف جرائم کیس میں مجرم قرار دیتے ہوئے سزا موت سنادی۔
بنگلادیش کی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل-1 نے معزول و مفرور وزیراعظم شیخ حسینہ اور ان کے دو اعلیٰ عہدیدار ساتھیوں کے خلاف گزشتہ سال جولائی کی بغاوت کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کے جرم میں یہ فیصلہ دیا ہے۔
مقدمے میں سابق وزیر داخلہ اسد الزماں خان کمال اور سابق انسپکٹر جنرل پولیس چودھری عبداللہ المامون کو بھی شریک جرم نامزد کیا گیا ہے۔
اسد الزماں تاحال مفرور ہیں جبکہ مامون زیر حراست ہیں اور اعتراف جرم کیا ہوا ہے۔ مامون ریاستی گواہ بھی بنے ہوئے ہیں۔ 2010 میں ٹریبونل کے قیام کے بعد سے وہ ریاستی گواہ بننے والے پہلے مجرم ہیں۔
کیس کا فیصلہ جسٹس محمد غلام مرتضیٰ کی سربراہی میں تین رکنی ٹریبونل نے 453 صفحات پر مشتمل فیصلے کا حصہ پڑھنے کے بعد دیا۔
اس سے قبل ٹربیونل نے 78 سالہ شیخ حسینہ واجد کو بھارت سے واپس آکر ٹرائل میں پیش ہونے کی ہدایت دی تھی جسکی خلاف ورزی کرتے ہوئے شیخ حسینہ نے ہدایت کو مسترد کردیا تھا۔
استغاثہ نے ٹربیونل سے تینوں مجرمان کے اثاثے ضبط کرنے اور متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
آمرانہ حکمرانی سے سزائے موت تک، شیخ حسینہ کا سیاسی سفر کیسا رہا؟
بنگلہ دیش کی برطرف سابق وزیراعظم شیخ حسینہ، جو کئی دہائیوں تک ملک کی سیاست پر چھائی رہیں، کو آج سزائے موت سنا دی گئی ہے۔
خود ان کی اپنی قائم کردہ خصوصی عدالت کے 3 رکنی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے فیصلہ دیتے ہوئے مظاہروں سے متعلقہ 2 الزامات کے تحت انہیں سزائے موت اور 3 الزامات کے تحت عمر قید کی سزا سنا دی۔
یہ بھی پڑھیے: انسانیت کیخلاف جرائم: بنگلہ دیشی عدالت نے حسینہ واجد کو سزائے موت سنا دی
شیخ حسینہ واجد نے 1996 سے 2001 تک اور پھر 2009 سے 2024 تک مسلسل 4 مرتبہ بطور وزیراعظم خدمات انجام دیں۔ ان کی 5ویں مدت، جو جنوری 2024 کے متنازع انتخابات کے بعد شروع ہوئی تھی، اُن کی حکومت کے خلاف شدید احتجاج کے باعث مختصر رہ گئی، اور بالآخر انہیں استعفیٰ دے کر ملک چھوڑنا پڑا۔
ابتدائی زندگیحسینہ واجد بنگلہ دیش کے بانی رہنما اور پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کے معمار شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی ہیں۔ 1947 میں پیدا ہونے والی حسینہ واجد 1960 کی دہائی کے اواخر میں جامعہ ڈھاکا میں تعلیم کے دوران وہ سیاست میں سرگرم رہیں اور اپنے والد کی جانب سے، ان کی پاکستانی حکومت کے ہاتھوں گرفتاری کے دوران، سیاسی رابطہ کار کے طور پر خدمات انجام دیتی رہیں۔
1971 میں جنگ کے دوران بغاوت میں حصہ لینے پر انہیں اور ان کے خاندان کو مختصر مدت کے لیے حراست میں بھی رکھا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: حسینہ واجد کیخلاف عدالت کا فیصلہ، سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم نے حامیوں کو کیا پیغام دیا؟
15 اگست 1975 کو، ان کے والد شیج مجیب، جو چند ماہ قبل بنگلہ دیش کے صدر بنے تھے، والدہ اور 3 بھائیوں کو چند فوجی افسران نے اُن کے گھر میں قتل کر دیا۔ اُس وقت حسینہ ملک سے باہر تھیں۔ وہ بعد میں 6 سال جلاوطنی میں رہیں، جس دوران انہیں عوامی لیگ کی قیادت کے لیے منتخب کیا گیا، جو وقت کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن چکی تھی۔
سیاست میں عروج1981 میں وطن واپسی پر وہ جمہوریت کی مضبوط وکیل بن کر ابھریں، جس کے باعث انہیں متعدد بار نظربند کیا گیا۔ وہ بالآخر پارلیمان میں قائدِ حزبِ اختلاف بنیں اور فوجی حکمرانی کے خلاف آواز اٹھائی۔ حسینہ کی جانب سے دیے گئے الٹی میٹم اور عوامی دباؤ نے دسمبر 1990 میں فوجی حکمران لیفٹنینٹ جنرل حسین محمد ارشاد کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔
اقتدار1991 میں 16 سال بعد ہونے والے پہلے آزادانہ عام انتخابات میں حسینہ اکثریت حاصل نہ کر سکیں اور حکومت خالدہ ضیا اور ان کی جماعت، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)، کو مل گئی۔ حسینہ نے انتخابی دھاندلی کا الزام عائد کیا اور عوامی لیگ سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمان کا بائیکاٹ کیا، جس سے ملک میں شدید سیاسی بحران پیدا ہوا۔
بالآخر خالدہ ضیا نے نگران حکومت کے مطالبے کے آگے سر جھکا دیا، جس کے بعد جون 1996 میں ہونے والے انتخابات میں حسینہ وزیراعظم منتخب ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیے: اگر پابندی نہیں ہٹی تو بنگلہ دیش میں الیکشن نہیں ہونے دیں گے، حسینہ واجد کے بیٹے کی دھمکی
اپنی پہلی مدت میں معاشی ترقی کے باوجود سیاسی ماحول شدید انتشار کا شکار رہا۔ 2001 میں وہ بنگلہ دیش کی پہلی وزیراعظم بنیں جنہوں نے 5 سالہ مدت مکمل کی، لیکن انتخابات میں انہیں شکست ہوئی، جسے انہوں نے دھاندلی قرار دیا، مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔
بعد کے برسوں میں سیاسی ماحول بدستور کشیدہ رہا۔ 2004 میں ایک جلسے میں ان پر دستی بم حملہ ہوا۔ 2007 میں ایمرجنسی کے دوران انہیں اور خالدہ ضیا دونوں کو کرپشن کے الزامات میں گرفتار کیا گیا۔ 2008 میں رہائی کے بعد انتخابات ہوئے جن میں عوامی لیگ نے بھاری اکثریت حاصل کی۔
وَن پارٹی حکمرانی
2009 میں وہ دوبارہ وزیراعظم بنیں۔ اسی مدت میں ان کے والد کے قاتلوں کو پھانسی دی گئی اور جنگی جرائم کے مقدمات کی پہلی خصوصی عدالت قائم ہوئی، جنہیں اپوزیشن نے سیاسی قرار دیا۔ واضح رہے کہ آج اسی عدالت نے انہیں موت کی سزا سنا دی ہے۔
2017 میں روہنگیا پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر آمد پر بنگلہ دیش نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد فراہم کی، جسے عالمی سطح پر سراہا گیا۔ دوسری جانب اپوزیشن پر کریک ڈاؤن، گرفتاریوں، اظہارِ رائے کی پابندی اور جماعتِ اسلامی پر پابندی جیسے اقدامات پر سخت تنقید ہوئی۔ 2014 کے انتخابات بی این پی نے بائیکاٹ کیے جبکہ 2018 میں اسے بدترین شکست ہوئی، جسے حسینہ نے بی این پی کی کمزور قیادت کا نتیجہ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیے: شیخ حسینہ کے خلاف متوقع فیصلے سے قبل ڈھاکا سمیت 3 اضلاع میں فوجی دستے تعینات
جنوری 2024 کے انتخابات سے قبل اپوزیشن نے دعویٰ کیا کہ ان کے 20 ہزار سے زائد کارکن گرفتار کیے گئے۔ بی این پی نے نگران حکومت کے مطالبے کی عدم منظوری پر انتخابات کا بائیکاٹ کیا، لیکن حسینہ نے انتخابات کو آزاد و منصفانہ قرار دیا اور عوامی لیگ نے 222 نشستیں جیت لیں، جس سے مبصرین نے ان کے دور کو عملی طور پر ‘ایک جماعتی نظام’ قرار دیا۔
زوالسیاسی بے چینی کا آغاز گزشتہ سال طلبا کے اُن مظاہروں سے ہوا جن میں سول سروس ملازمتوں کے انتخابی معیار میں اصلاحات، کوٹہ نظام کے خاتمے اور مکمل میرٹ پر مبنی نظام کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اگرچہ ان مطالبات کو بعد کی ہفتوں میں بڑی حد تک تسلیم کر لیا گیا، لیکن یہ احتجاج حکومت مخالف تحریک میں بدل گئے، جس کے نتیجے میں اگست کے اوائل تک حسینہ کے استعفے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔
5 اگست کو بنگلہ دیش کے فوجی سربراہ نے حسینہ کے استعفے کی تصدیق کی اور اعلان کیا کہ جلد ہی عبوری حکومت تشکیل دی جائے گی۔ 5 بار وزیراعظم رہنے والی حسینہ واجد پرتشدد مظاہروں کے درمیان ایک ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر ملک سے فرار ہوکر بھارت چلی گئیں۔
یہ بھی پڑھیے: شیخ حسینہ کو اپنے ہی قائم کردہ عدالت نے سزائے موت سنا دی
ان پر مظاہروں سے طاقت کے ذریعے نمٹنے اور مظاہرین کی ہلاکت سے متعلق مقدمات بنائے گئے۔ آج 3 رکنی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے انہیں 5 الزامات میں سزائے موت اور عمر قید کی سزا سنا دی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ حسینہ واجد کو ڈھاکا میں 6 مظاہرین اور اشولیا میں 6 طلبا کے قتل میں ملوث پایا گیا، ان جرائم پر انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔
اس کے علاوہ مظاہرین پر مہلک ہتھیاروں جیسے ڈرونز اور ہیلی کاپٹرز کے استعمال کی اجازت دینے اور اشتعال انگیز بیانات دینے پر انہیں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ ان کے وکیل نے ان تمام الزامات کے رد کردیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
1971 کی جنگ shaikh hasina wajid Shaikh Mujee ur Rehman بنگلہ دیش ڈھاکا شیخ حسینہ واجد شیخ مجیب الرحمان