Daily Ausaf:
2025-11-04@06:18:19 GMT

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماںہونا

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

(گزشتہ سےپیوستہ)
مکتی باہنی کے سابق کمانڈر نےکہا کہ بھارت میں ایک نیا انقلاب برپا ہو گا،جس کے نتیجے میں نئی ریاستیں بنیں گی۔ہم 98فیصد مسلمان ہیں جوبھارت سے لڑیں گے۔ بھارت تقسیم ہو جائے گا کیونکہ اس کا 48فیصدعلاقہ اس کاحصہ نہیں ہے۔ میزورام اورتریپورہ متحدہ پاکستان کے دور میں بنگلہ دیش کا حصہ تھے۔ جموں وکشمیر اور خالصتان بھارت کا حصہ نہیں ہیں یہ ضرورآزاد ہوں گے۔ انہوں نے واضح کیاکہ بت پرست ہندوستانیوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے تمام لوگ ایک جیسے جذبات رکھتے ہیں۔‘‘
بنگلہ دیش پر قبضے کی بھارتی سازش کا ادراک صرف زین العابدین کو ہی پریشان کئے ہوئے نہیں ہے ، بلکہ وہ پوری نسل اپنے کئے پر پشیمان ہے، جو جرات مند ہیں وہ اظہا رکے ساتھ ساتھ ازالے کی بھی سعی کر رہے ہیں ، ان میں ایک نام میجر عبدالجلیل کا بھی ہے ، جسے مکنی باہنی کا ہیرو قرار دیا جاتا تھا ، لیکن بنگلہ دیش کے بارے میں بھارتی پالیسیوں نے بہت پہلے اس کی سوچ کو بدل ڈالا وہ پاکستان پلٹا اور اپنی زندگی کا آخری عرصہ اس نے اسی پاکستان میں میں پشیمانی، بے بسی اور بیماری میں گزارا جس کی تباہی کے لئے وہ بھارت کے ہاتھوں استعمال ہوتا رہا ۔‎عبدالجلیل 1971 میں پاکستانی فوج میں میجر کے عہدے پر فائز تھا۔ اپریل 1971 میں ایسٹ بنگال رجمنٹ کے دیگر بنگالی افسروں کی طرح وہ بھی باغی ہو کر مکتی باہنی سے جا ملااور اس نے باقاعدہ منصوبہ بندی کی، باغی سپاہیوں اور مکتی ہاہنی کے دہشت گردوں کو اکٹھا کر کے پاکستانی فوج کے خلاف گوریلا جنگ کا محاذ کھول دیا۔بنگلہ دیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمان نے اپنے ہاتھوں سے میجر عبدالجلیل کے سینے پر ملک کا سب سے بڑا بہادری کا اعزاز ’بیر اتم‘ سجایا۔ مگر اس کی بھارت نواز پالیسیوں سے نالاں ‎کرنل شریف دالم کی طرح عبدالجلیل نے بھی یہ اعزاز واپس کر دیا۔ پشیمانی اور ازالہ کی سوچ نے صرف انہیں دو افسروں کو متاثر نہیں کیا بلکہ بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کرنے والے میجر جنرل ضیالرحمٰن،طالب علم راہنماعبدالرب اور سراج العالم خان سمیت ایک بڑی تعداد تھی ۔ میجر جلیل باہمت تھا ، اس نے 1981 میں صدارتی الیکشن لڑ اتاکہ غلطیوں کا ازالہ کر سکے لیکن ناکام ہوا ، اپنے خواب ٹوٹنے پر اسے پھر اپنا دیس پاکستان ہی یاد آیا ، اسے اس پاک سر زمین نے ہی پناہ دی جسے پامال کرنے میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ، بالآخر مایوسی اور کسمپرسی کے عالم میں وہ نومبر 1989 میں اسلام آباد میں فوت ہوا ۔میجر جلیل کے ایک راز دان دوست کا دعویٰ ہے کہ ’’ آخری ایام میں اس کے انداز اور اظہار سے عیاں تھا کہ وہ مکتی باہنی کے ہاتھوں اپنے مخالفین جن میں جماعت اسلامی کے رضاکار اور پاکستان کے حامی بہاری کمیونٹی کے لوگ شامل تھے، کے خلاف تشدد اور بے رحمی پر دکھ اور کرب میں مبتلا تھا۔
بعض پاکستانی ففتھ کالمسٹ جنہیں بھارتی قیادت نے اپنی کتابوں میں اپنا دوست و آلہ کار لکھا اور حسینہ واجد نے انہیں بنگلہ دیش کی آزادی میں کردار پر ایوارڈ تک دئے ، ان کی مدد سے سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ایک منظم مہم چلائی گئی جس میں قتل و غارت اور آبرو ریزی سمیت دیگر جنگی جرائم کو افواج پاکستان کے ساتھ منسوب کر دیا گیا حالانکہ بعد ازاں خود بھارتی اور بنگلہ دیشی ارباب دانش نے ثابت کیا کہ یہ سب خود مکتی باہنی کے اندر چھپے نام نہاد مسلمانوں اور ہندوئوں نے کیا تھا۔ مکتی باہنی کے دہشت گردوں کی مشرقی پاکستان میں جنگی جرائم اور قتل و غارت گری میں ملوث ہونے کی سب سے بڑی گواہی آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والی بھارتی نژاد مشہور مصنفہ سر میلا بوس کی کتاب Dead Reckoning ہے ، جس میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ’’ اگر مشرقی پاکستان کے سانحے کا بغیر کسی وابستگی کے تفصیلی جائزہ لیا جائے تو کئی ایسے حقائق سامنے آئیں گے جن سے مکتی باہنی کا مکروہ چہرہ سب کے سامنے نمایاں ہو جائے گا۔‘‘ شرمیلا نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی حکومت اور اس کے طفیلئے 25مارچ 1971کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں مارے گئے افراد کی تعداد ہزاروں میں بتاتے ہیں ، جبکہ یہ تعداد انتہائی کم تھی جسے پروپیگنڈے کے زور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ، جس طرح مارے جانے والے لوگوں کی تعداد کو لاکھوں میں ظاہر کیا جا رہا ہے، حالانکہ اصل تعداد اس کے 5فیصد سے بھی کم ہے ۔ اب یہاں پی ٹی ایم اور مہرنگ وغیرہ اور ان کے ہمنوائوں کی ہفوات،ہزاروں لاپتہ افراد کے پروپیگنڈے اور انتشاریوں کا 26 نومبر کو اسلام آباد میں سینکڑوں افراد کے مارے جانے کے دعووں کو اس سے ملا کر دیکھیں تو سمجھ آجاتی ہے کہ سازش وہی پرانی ہے ، بس کردار بدلے ہیں ۔
پاکستان کی نوجوان نسل کو بھی اس حقیقت کے بارے میں جاننا نہایت ضروری ہے۔ عام طور پر غلط تاثر دیا جاتا ہے اور بہت سے پاکستانی بھی اس پر یقین رکھتے ہیں کہ شاید پاکستان کی فوج نے بنگالیوں پر ظلم کیااور یہ کہ اگر 1971میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو میں اتفاق ہو جاتا اور یکم مارچ 1971کے روز اسمبلی کا سیشن ہو جاتا تو پاکستان کبھی دولخت نہ ہوتا،لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔تاریخ کے مطالعہ اور مختلف مصنفوں کی تحریروں سے اس بات کے ٹھوس ثبوت ملتے ہیں کہ بھارت تو بہت عرصے سے 1971کی جنگ کی تیاری کر رہا تھا، اس نے سالوں سے مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کروانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔سوال یہ ہے کہ بھارت نے یہ منصوبہ کب بنایا تھا؟ جب خانہ جنگی شروع ہوئی تو کس کس نے کیا کردار ادا کیا؟اس کی تمام تفصیل بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ایک سابق افسر ’’آر کے یادیو ‘‘کی 2014میں لکھی ایک کتاب Mission R&AW میں دستیاب ہے کہ کس طرح سے 1962 میں مجیب نے بھارتی حکومت سے علیحدگی کے لئے رابطہ کیا اورپھر کس طرح سے یہ پوری سازش را نے پروان چڑھائی ،صرف اس ایک پر ہی کیا موقوف، بھارت ، بنگلہ دیش اور مغربی محققین کی دسیوں کتابیں ہیں جو بھارت کے خلاف ثبوتوں سے بھری پڑی ہیں ۔
پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں اور پروپیگنڈے کی جنگ پر لکھی کتب کا خلاصہ بھی بیان کیا جائے تو اس کے لئے ایک کالم بہت کم ہے ، پوری کتاب درکار ہے ، چند کتابیں جو اس عنوان پر ریفرنس کا درجہ رکھتی ہیں ،جن کا مطالعہ یہ ثابت کرنے کو کافی ہے کہ موجودہ دور میں پاکستان کے خلاف زبان دراز کرنے والے انتشاریوں کی ڈوریاں کہاں سے ہلتی ہیں ؟ وہ کس کے لئے استعمال ہو رہے ہیں؟ اور ان کے مقاصد کیا ہیں؟ لازم ہے کہ نوجوان نسل کو یہ سب پڑھایا اور سمجھا یا جائے ، خصوصا ً بلوچستان اور فاٹا کے نوجوانوں کو، تاکہ جان سکیں کہ بھیڑ کے روپ میں ان سے ہمدردی جتانے والے بھیڑیئے کس کے وفادار ہیں اوران سے کیا سلوک کرنا چاہتے ہیں ۔ اس حوالہ سے معتبر اور خود سازش کا حصہ رہنے والے کرداروں کی لکھی کتابوں میں سے جو کتابیں اہم ہیں ، ان میں درج ذیل شامل ہیں ۔ امریکی مصنف جیری باس کی کتاب BLOOD TELEGRAM ، بھارتی مصنف سری ناتھ راگھوان کی کتاب The 1971، شرمیلا بوس نے کتاب Dead Rekoning ، 1962 میں ڈھاکہ میں تعینات ایک بھارتی سفارت کارایس بینر جی کی لندن سےشائع ہونے والی کتاب india , Mujibur Rahman ,Bangladesh Libration and Pakistan ، 1971 میں ڈھاکہ میں رپورٹنگ کرنے والے امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائم کے رپورٹرولیم ڈرومونڈ نے کا 2013میں شائع ہونےو الا ایک آرٹیکل بعنوان Missing Millions ، بنگالی سکالر ڈاکٹر عبدالمومن چوہدری کی کتابBehind the myth of three million اور ان سب پر بھاری میجر شریف الدین دالیم کی کتا ب Bangladesh Untoled Facts جس کا اردو ترجمہ’’ پاکستان سے بنگلہ دیش تک ان کہی داستان ‘‘ کے نام سے بھی دستیاب ہے ۔ انتشاری و فسادی پروپیگنڈے کا شکار نوجوانوں کو اقبال ؒ کا یہ پیغام نہیں بھولنا چاہئے :
ہے یاد مجھے نکتۂ سلمان خوش آہنگ
دنیا نہیں مردان جفاکش کے لیے تنگ
چیتے کا جگر چاہیے شاہیں کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنی دانش و فرہنگ
کر بلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے طاؤس فقط رنگ

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مشرقی پاکستان مکتی باہنی کے پاکستان میں پاکستان کے بنگلہ دیش کہ بھارت کے خلاف کی کتاب کے لئے اور ان

پڑھیں:

بھارت میں گرفتار ہونے والے سارے جاسوس پاکستانی چاکلیٹ کیوں کھاتے ہیں؟

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ اور وزیرِ مملکت برائے داخلہ امور طلال چوہدری نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ کس طرح غلطی سے بھارتی سمندری حدود میں داخل ہونے والے اعجاز ملاح کو بھارتی خفیہ ادارے نے پکڑ کر پاکستان میں جاسوسی کے اہداف دیے۔

وفاقی وزرا کے مطابق اعجاز ملاح کو پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیز نے گرفتار کرکے جب اس سے پوچھ گچھ کی تو انکشاف ہوا کہ وہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی وردیاں اپنے بھارتی ہینڈلر کے سپرد کرنے والا تھا اور اِس کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی، جن میں سب سے اہم زونگ کمپنی کے سم کارڈ تھے۔

یہ بھی پڑھیں: آپریشن سندور میں رسوائی کے بعد بھارت کی ایک اور سازش ناکام، جاسوسی کرنے والا ملاح گرفتار، اعتراف جرم کرلیا

وفاقی وزیر کے مطابق یہ اشیا حوالے کرنے کا مقصد پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی ملوث کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے کرنسی نوٹ، پاکستان کے سیگریٹ اور پاکستانی کی ماچسیں بھی حوالے کی جانی تھیں۔

اس ساری واردات کا مقصد بظاہر اِتنا خوفناک معلوم نہیں ہوتا لیکن دیکھا جائے تو ماضی میں بھارت نے مختلف واقعات میں پاکستان کی دراندازی ثابت کرنے کے لیے ایسی ہی چیزوں کا سہارا لیا۔

بھارتی حکومت کسی کو پاکستانی ایجنٹ ثابت کرنے کے لیے کبھی تو یہ کہتی ہے کہ فلاں سے پاکستانی کرنسی برآمد ہوئی، فلاں سے پاکستانی چاکلیٹ ریپر، پاکستانی بسکٹ یا پاکستانی سیگریٹ برآمد ہوئے۔ یہ بھارتی حکومت کی پرانی حکمتِ عملی ہے اور خاص کر ایک ایسے ماحول اور معاشرے میں جہاں فوجی کارروائیوں پر سوال اُٹھانا ملک دشمنی سمجھا جاتا ہو، ایسی چیزوں کو قبولیتِ عام ملتی ہے۔

بھارت نے پاکستانی مصنوعات کی بنیاد پر کب کب پاکستانی پر دراندازی کے الزامات لگائے؟

بھارت یہ طریقہ واردات 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بھی استعمال کر چکا ہے جب یہ دعوے کیے گئے کہ پاکستانی اہلکار بھارتی علاقے میں گھس کر جاسوسی کر رہے تھے اور ثبوت کے طور پر اکثر پاکستانی سیگریٹس، مصالحے، بسکٹ اور چائے کے پیکٹس دکھائے جاتے تھے۔

1999 کی کارگل جنگ میں بھارتی میڈیا نے متعدد جگہوں پر دعویٰ کیاکہ پاکستانی فوجی بھارتی علاقوں میں گھسے ہوئے تھے۔ ثبوت کے طور پر وہی پاکستانی بسکٹ، چائے کے ریپر اور اردو میں لکھے ہوئے ادویات کے لیبل پیش کیے گئے۔ بھارتی دفاعی ماہرین نے بعد میں تسلیم بھی کیا کہ یہ غیر سنجیدہ اور کمزور شواہد تھے۔

2008 میں بھارتی فوج کی پریس کانفرنسوں میں کئی بار پاکستانی بسکٹ، کڑک چائے کے ریپر یا سگریٹ پیک دکھائے گئے اور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ بھارت میں دراندازی کے لیے لوگ پاکستان سے آئے تھے۔

2013 میں دہلی پولیس نے ایک نوجوان کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا جس کے پاس سے پاکستانی 100 روپے کا نوٹ اور راولپنڈی کی بنی ہوئی چاکلیٹ برآمد ہوئی۔ بعد میں پتا چلا گرفتار شدہ نوجوان ذہنی مریض تھا۔

2016 اڑی حملہ میں بھارتی حکومت نے دعوٰی کیاکہ مارے گئے حملہ آوروں کی پاس سے پاکستانی چاکلیٹس اور بسکٹ برآمد ہوئے ہیں، اس بات کو خود بھارتی میڈیا نے بعد میں مزاحیہ الزام قرار دیا۔

2017 میں بھارت نے دعوٰی کیاکہ پاکستان کا جاسوسی نیٹ ورک پکڑا گیا ہے، اور ثبوت کے طور پر پان پراڈکٹس اور چاکلیٹ ریپر پیش کیے گئے۔

2019 پلوامہ واقعے میں پاکستانی دراندازی شامل کرنے لیے پاکستانی بسکٹ اور چائے کے خالی پیکٹ ثبوت کے طور پر پیش کیے گئے۔

2021 میں بھارتی حکومت نے ایک مقامی چراوہے کو اِس بنیاد پر جاسوس قرار دے دیا کہ اس کے پاس پاکستانی بسکٹ اور اوڑھنے والی چادر تھی، بعد میں وہ شخص بھارتی شہری ہی نکلا۔

21 اگست 2022 کو بھارتی فوج نے الزام لگایا کہ اس نے جموں و کشمیر کے راجوری ضلع میں لائن آف کنٹرول پر دراندازی کی کوشش ناکام بنائی ہے اور مبینہ طور پر گرفتار پاکستانی عسکریت پسند سے پاکستانی کرنسی برآمد ہوئی ہے۔ بھارتی فوج نے اسے پاکستان کی حمایت سے دراندازی کا ثبوت قرار دیا۔

22 اپریل 2025 کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشتگردوں نے سیاحوں پر حملہ کیا، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ بھارتی فورسز نے 28 جولائی 2025 کو آپریشن مہادیو میں 3 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔

بھارتی حکومت کے مطابق ان دہشتگردوں سے مبینہ طور پر پاکستان کی بنی ہوئی چاکلیٹس کی ریپنگز برآمد ہوئیں جو کراچی میں کینڈی لینڈ اور چاکو میکس کی بنی ہوئی تھیں۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ یہ ثبوت پاکستان سے دراندازی کا اشارہ دیتے ہیں، اور دہشتگرد پاکستانی شہری تھے۔

جاسوسوں کی گرفتاری کی اب کئی خبریں سننے کو ملیں گی، بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون

دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کا نیٹ ورک اِس وقت بہت زیادہ وسیع ہوگیا ہے۔ یہ نیٹ ورک آج گلف ممالک، کینیڈا، امریکا اور یورپ تک پھیلا ہوا ہے۔

انہوں نے کہاکہ کلبھوشن یادیو ایک ثبوت ہے کہ کس طرح سے اس نے اپنی شناخت چھپا کر ایران میں کاروبار بنایا اور پاکستان میں جاسوسی کے لیے آتا جاتا رہا۔

بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے بتایا کہ غریب مچھیروں کو پکڑ کر اُن کو بلیک میل کرکے اُن سے پاکستان کی جاسوسی کروانا بھارتی خفیہ اداروں کا پرانا وطیرہ ہے، اور موٹر لانچز ہی کے ذریعے سے زیادہ تر پیسوں کی غیر قانونی ترسیل، جیسا کہ حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستانی خفیہ ادارے بہت متحرک ہیں، اب اِس طرح کی بہت سی خبریں دیکھنے سننے کو ملیں گی۔ اس سے قبل کراچی، لاہور اور اِسلام آباد سے اِس طرح کے کئی جاسوس پکڑے جا چُکے ہیں۔

بھارت جامع مسائل کے حل کی طرف قدم نہیں اٹھاتا، ایئر مارشل (ر) اعجاز ملک

ایئر مارشل (ر) اعجاز ملک نے گزشتہ ماہ میڈیا کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان اور ہمسایہ بھارت کے تعلقات کبھی بہتر نہیں ہو سکتے کیونکہ بھارت پاکستان کے ساتھ جامع مسائل حل کرنے کی طرف قدم نہیں اٹھاتا۔

انہوں نے کہاکہ ان تنازعات میں کشمیر، انڈس واٹر ٹریٹی اور بھارتی ریاستی سرپرستی میں سرحد پار دہشتگردی شامل ہیں۔ ہماری مسلح افواج ہمیشہ قومی خودمختاری اور پاکستان کی سالمیت کا دفاع کرتی ہیں اور ہر چیلنج کے سامنے کھڑی ہے۔

بھارت نے ’را‘ کی فنڈنگ بڑھا کر دائرہ کار وسیع کردیا، دھیرج پرمیشا

برطانوی یونیورسٹی آف ہِل میں کریمنالوجی کے پروفیسر بھارتی نژاد دھیرج پرمیشا نے بھارتی اخبار کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور مشیر قومی سلامتی اجیت دوول نے بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کو فنڈنگ بڑھا کر اُس کے دائرہ کار میں اِضافہ کر دیا ہے جو اِس سے پہلے کانگریس کے دور میں نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان بھارت کشیدگی: ہندوستان کو کیا کیا نقصانات اٹھانے پڑ سکتے ہیں؟

’بھارت کے پاس اِس طرح سے وسیع نیٹ ورک 1980 کی دہائی میں تھا۔ خفیہ نیٹ ورک کی وسعت کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کے اہداف بڑھ گئے ہیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews بھارتی جاسوسی پاک بھارت جنگ پاکستان بھارت تعلقات خفیہ ادارے متحرک گرفتاریاں معرکہ حق وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کے خلاف بھارتی کارروائی بے نقاب
  • بھارتی خفیہ ایجنسی کیلئے جاسوسی کے الزام میں گرفتار مچھیرے کے اہم انکشافات
  • بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش
  • تاجکستان سے بھارتی فوج کی بے دخلی، آینی ایئربیس کا قبضہ کھونے پر بھارت میں ہنگامہ کیوں؟
  • بھارت میں گرفتار ہونے والے سارے جاسوس پاکستانی چاکلیٹ کیوں کھاتے ہیں؟
  • امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ
  • ’را‘ ایجنٹ کی گرفتاری: بھارت کی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم ناکام
  • دو ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد، بھارتی حکومت کو سانپ سونگھ گیا
  • بھارت نے اعجاز ملاح کو کونسا ٹاسک دے کر پاکستان بھیجا؟ وزیر اطلاعات کا اہم بیان
  • خطے میں کسی نے بدمعاشی ثابت کی تو پاکستان بھرپور جواب دے گا: ملک احمد خان