ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کی برسی
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 فروری 2025ء) پیر دس فروری کے روز ایران کے سرکاری ٹی وی پر 1979ء کے اسلامی انقلاب کی برسی کے موقع پر حکومت کی جانب سے منعقد کیے گئے اجتماعات کی تصاویر نشر کی گئیں، جن میں شرکا کو قومی پرچم لہراتے دیکھا گیا۔
روایتی طور پر ایسے اجتماعات میں شرکا کی تعداد ہزاروں سے لے کر لاکھوں تک رہی ہے۔
تاہم جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی مطابق ملک میں آبادی کا ایک بڑا حصہ ان تقاریب سے لاتعلق بھی رہتا ہے۔ سن 1979ء کا انقلابفروری 1979ء میں ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایک بغاوت کے دوران بادشاہت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ اسی سال تہران میں ایرانی طلبہ نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ بھی کر لیا تھا، جس سے ایران اور امریکہ کے مابین سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے تھے۔
(جاری ہے)
تب ہی سے ایران کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدگی کا شکار رہے ہیں اور دونون ممالک کے مابین عسکری تناؤ میں متعدد بار خطرناک حد تک اضافہ بھی ہوا ہے۔ اس کی حالیہ مثال غزہ کی جنگ کے دوران گزشتہ سال بھی دیکھی گئی۔
جہاں تک ایران کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا سوال ہے تو ایران نے کئی دیگر مسلم اکثریتی ممالک کی طرح اسرائیل کے وجود کو تاحال باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا اور ایران اور اسرائیل کے مابین دوطرفہ سفارتی تعلقات بھی اب تک قائم نہیں ہو سکے۔
اس کے برعکس ان دونوں ممالک کے مابین عشروں سے کشیدگی پائی جاتی ہے اور دونوں ہی خطے میں ایک دوسرے کو اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتے ہیں۔علاوہ ازیں ایران کو شدید معاشی بحران کا سامنا بھی ہے، جس کی ایک وجہ اس کے جوہری پروگرام کے حوالے سے اس پر مغرب کی جانب سے عائد کردہ اقتصادی پابندیاں ہیں۔
تاہم امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد تہران کے ساتھ بات چیت کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
لیکن ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے، جن کا فیصلہ ملک کے اسٹریٹیجک معاملات میں حتمی ہوتا ہے، فی الحال امریکہ سے بات چیت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ان کے اس انکار کے بعد ایرانی کرنسی ریال کی قدر ریکارڈ حد تک گر چکی ہے۔
م ا / م م (ڈی پی اے، ڈی پی اے ای)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے مابین
پڑھیں:
امریکہ نے فیلڈ مارشل کی تعریفیں بہت کیں لیکن دفاعی معاہدہ ہندوستان کیساتھ کرلیا، پروفیسر ابراہیم
جماعت اسلامی کے صوبائی امیر کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا بالخصوص جنوبی پختونخوا شدید بد امنی کی لپیٹ میں ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر لوگ اغواء ہو رہے ہیں۔ کولیٹرل ڈیمیج کی صورت میں عام عوام اور بچوں کی جانیں جا رہی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا جنوبی پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ امریکہ نے فیلڈ مارشل کی بہت تعریفیں کیں لیکن اس دفاعی معاہدہ ہندوستان کے ساتھ ہوگیا۔ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان ٹیکنالوجی ٹرانسفر کا معاہدہ ہوا ہے لیکن امریکہ نے کبھی پاکستان کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کا معاہدہ نہیں کیا۔ چین پاکستان کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کر رہا ہے اور پاکستان چین کے تعاون سے جہاز وغیرہ بنا رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ صرف رئیر ارتھ کے لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تعریفیں کر رہا ہے۔ خیبر پختونخوا بالخصوص جنوبی پختونخوا شدید بد امنی کی لپیٹ میں ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر لوگ اغواء ہو رہے ہیں۔ کولیٹرل ڈیمیج کی صورت میں عام عوام اور بچوں کی جانیں جا رہی ہیں۔ صوبے کے عوام امن کے لیے ترس گئے ہیں۔ امن و امان کے قیام کے لیے سیکورٹی فورسز کو اندرونی سیکورٹی سے ہاتھ اٹھا کر تمام اختیارات پولیس کو دینے ہوں گے ورنہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ آج بھی جنرل مشرف کی پالیسی کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ بنوں کی بند سڑکیں کھولی جائیں، سڑکوں کی بندش سے عوام سخت تکلیف کا شکار ہیں۔ لاہور میں جماعت اسلامی کا اجتماع عام تاریخی ہوگا۔ اجتماع عام میں دنیا بھر سے اسلامی تحریکوں کے رہنما شریک ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوہاٹ میں جماعتِ اسلامی خیبر پختونخوا جنوبی کے صوبائی ذمہ داران کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا جنوبی کے سیکرٹری جنرل محمد ظہور خٹک سمیت دیگر صوبائی ذمہ داران موجود تھے۔ اجلاس میں مختلف امور سمیت اجتماع عام کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا اور رپورٹس پیش کی گئیں۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکہ پاکستان کو ٹیکنالوجی دیتا بھی تو اس کے ساتھ شرائط کی ایک فہرست بھی ہوتی ہے۔ امریکا کی شرط ہے کہ پاکستان ایف سولہ طیارہ بھارت کے خلاف استعمال نہیں کر سکتا، اگر بھارت کے خلاف استعمال نہیں کریں گے تو کیا افغانستان کے خلاف استعمال کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی پختونخوا میں پاک افغان سرحد پر خرلاچی، غلام خان اور انگور اڈہ گزر گاہیں بند ہیں۔ افغانیوں کو زبردستی واپس بھیجا جا رہا ہے۔ زبردستی نکالے جانے والے افغان شہریوں کا پاکستان کے بارے میں کیا تاثر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سرحد کے دونوں طرف متعدد قبائل آباد ہیں۔ ان کی آپس میں رشتے داریاں ہیں لیکن حکومت نے بیچ میں خاردار تاریں لگا دیں، سرحد بند کردی اور لوگوں کا آنا جانا مشکل بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا بنیادی کام دعوت اور تربیت کا ہے اور اس مقصد کے لیے جماعت اسلامی ہر جائز ذریعہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کارکنان دعوت الی اللہ کے کام اجتماع عام کے پیغام کو گھر گھر پہنچائیں۔