پاکستان کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں 2 درجے تنزلی، 180 ممالک میں سے 135 پر آگیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) 2024 میں پاکستان کی رینکنگ 2 درجے تنزلی سے 180 ممالک میں سے 135 پر آگئی، جو 2023 میں 133 ویں درجے پر رہی تھی۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق سی پی آئی ممالک میں پبلک سیکٹر میں بدعنوانی کی سطح کے لحاظ سے صفر (انتہائی بدعنوان) سے 100 (انتہائی شفاف) کے پیمانے پر درجہ بندی کرتا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان (ٹی آئی پی) کے مطابق سی پی آئی رپورٹ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل برلن (دارالحکومت جرمنی) سے ہر سال جاری کرتی ہے، ٹی آئی پی کا ڈیٹا اکٹھا کرنے یا ملک کے اسکور کو جانچنے میں کوئی کردار نہیں۔
پاکستان کا اسکور بھی 2 پوائنٹس کم ہو کر 2023 کے 29 کے مقابلے میں 2024 میں 27 رہ گیا۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک دستاویز کے مطابق جس میں پاکستان کی سی پی آئی کی درجہ بندی اور 1996 سے 2024 تک کے اسکورز کو درج کیا گیا، اس کے مطابق گزشتہ 10 سالوں میں ملک کا سکور 27 سے 33 پوائنٹس کے درمیان رہا، (زیادہ اسکور کا مطلب کم بدعنوانی ہے)۔
2012 میں 10 سے 100 کے اسکورنگ اسکیل پر تبدیل ہونے کے بعد سے پاکستان کا اسکور 2018 میں 27 سے بڑھ کر 33 ہو گیا لیکن مسلسل گھٹتے ہوئے گزشتہ برس 27 پر آگیا۔
ٹی آئی پی کے چیئرپرسن ریٹائرڈ جسٹس ضیا پرویز کے مطابق عمان، چین، ترکیہ اور منگولیا کے علاوہ خطے کے تمام ممالک کے اسکور میں کمی ہوئی۔
سی پی آئی کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر بدعنوانی کی سطح خطرناک حد تک بلند رہی، ان کو کم کرنے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں، جس نے پوری دنیا میں بدعنوانی کی سنگین سطحوں کو بے نقاب کیا، دو تہائی سے زیادہ ممالک کا اسکور 100 میں سے 50 سے نیچے ہے۔
تقریباً 6 ارب 80 کروڑ افراد ایسے ممالک میں رہتے ہیں، جہاں کرپشن پرسیپشن انڈیکس اسکور 50 سے کم ہے، ان ممالک میں دنیا کی 8 ارب آبادی کے 85 فیصد افراد رہتے ہیں۔
مسلسل 7 برس سے ڈنمارک کا اسکور سب سے زیادہ (90) رہا، اس کے علاوہ فن لینڈ (88) اور سنگاپور (84) کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے کم کرپشن والے ملک رہے۔
کرپشن انڈیکس میں جن ممالک کا اسکور سب سے کم رہا، ان میں زیادہ تر ممالک تنازعات سے متاثرہ ہیں، جیسے جنوبی سوڈان (8)، صومالیہ (9)، وینزویلا (10)، شام (12)، لیبیا (13)، اریٹیریا (13)، یمن (13) اور استوائی گنی (13)۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سب سے زیادہ اسکور کرنے والا خطہ مغربی یورپ اور یوروپی یونین رہا، لیکن اس کے اسکور میں ’مسلسل دوسرے سال مجموعی طور پر کمی واقع ہوئی ہے، کیونکہ متعدد رہنما مشترکہ مفادات کے بجائے کاروباری مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں اور قوانین کا نفاذ اکثر ناقص طور پر کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سی پی ا ئی ممالک میں کے مطابق کے اسکور کا اسکور
پڑھیں:
پاکستان میں شعبہ صحت کا بحران:ساڑھے 7 لاکھ افراد کیلیے صرف ایک ڈاکٹر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:پاکستان میں صحتِ عامہ کی صورت حال بدستور تشویش ناک ہے، جہاں ہر 7لاکھ 50 ہزار شہریوں کے لیے محض ایک ڈاکٹر میسر ہے۔
یہ حیران کن انکشاف وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سالانہ اقتصادی سروے برائے مالی سال 2024-25 میں کیا گیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ صحت پر حکومتی توجہ نہایت محدود اور وسائل غیر تسلی بخش ہیں۔
سروے رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں صحت کے شعبے پر رواں مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 925 ارب روپے خرچ کیے گئے، جو جی ڈی پی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتے۔ ماہرین صحت کے مطابق یہ شرح نہ صرف عالمی معیار سے بہت کم ہے بلکہ ملک کی بڑھتی آبادی، موسمیاتی اثرات اور وبائی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اخراجات انتہائی ناکافی قرار دیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی 24 کروڑ سے زائد آبادی کے مقابلے میں صرف 3 لاکھ 19 ہزار رجسٹرڈ ڈاکٹرز دستیاب ہیں۔ اگرچہ گزشتہ ایک سال میں ڈاکٹروں کی تعداد میں 20 ہزار سے زائد کا اضافہ ہوا، مگر یہ اضافہ بھی آبادی کے تناسب سے نہایت کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق دانتوں کے امراض کے لیے مختص ماہرین یعنی ڈینٹسٹ کی مجموعی تعداد 39 ہزار 88 ہے، جو ملک کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔
دیگر طبی عملے کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ نرسز کی کل تعداد ایک لاکھ 38 ہزار، دائیوں کی تعداد 46 ہزار 801 اور لیڈی ہیلتھ ورکرز صرف 29 ہزار ہیں۔ دیہی علاقوں خاص طور پر سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں بھی اس عملے کی شدید قلت محسوس کی جا رہی ہے، جس کے باعث زچگی، بچوں کی پیدائش اور عام بیماریوں کا بروقت علاج مشکل ہو چکا ہے۔
طبی انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے بھی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ ملک میں اسپتالوں کی تعداد صرف 1696 ہے جب کہ بنیادی ہیلتھ یونٹس 5434 بتائے گئے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں ان سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث لاکھوں افراد کو علاج کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے، جہاں نہ صرف اخراجات زیادہ ہیں بلکہ رسائی بھی ایک مسئلہ ہے۔
ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کی شرح اموات اب بھی بلند سطح پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر 1000 بچوں میں سے 50 شیرخوار سالانہ طور پر جان کی بازی ہار جاتے ہیں، جو عالمی سطح پر انتہائی تشویش ناک شرح سمجھی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں خوراک کی کمی، ناقص ویکسینیشن نظام اور بروقت طبی امداد کی عدم دستیابی شامل ہیں۔
اگرچہ رپورٹ میں اوسط عمر میں بہتری کا عندیہ دیا گیا ہے ، جو اب 67 سال 6 ماہ تک پہنچ چکی ہے ، لیکن ماہرین صحت کے مطابق یہ بہتری صرف شہری علاقوں تک محدود ہے، جب کہ دیہی علاقوں میں صورت حال اب بھی بدتر ہے۔ صحت کے شعبے میں پائیدار اصلاحات، فنڈز کا شفاف استعمال اور طبی عملے کی بھرتی جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔
اقتصادی سروے کے ان اعداد و شمار نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں صحت کا شعبہ مسلسل نظراندازکیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت اور پالیسی سازوں نے سنجیدہ اور بروقت اقدامات نہ کیے تو ملک کو مستقبل میں مزید بڑے صحت کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔