Nai Baat:
2025-11-03@07:22:37 GMT

فضائی آلودگی، تجاوزات اور بورڈ توڑ مہم

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

فضائی آلودگی، تجاوزات اور بورڈ توڑ مہم

پاکستان میں فنانشل اینڈ سوشل ریسرچ کے ایک بڑے ادارے اپسوس کے سربراہ بابر ستار صاحب سے کچھ عرصہ قبل ملاقات نہایت دلچسپ اور معلومات افزا تھی۔ جدید دور میں لوگوں کا پراڈکٹس سے لے کر حکومتوں سے متعلق سوچنے سمجھنے اور رد عمل ظاہر کرنے کا کیا طریقہ کار ہے، اس کو سمجھنے اور جاننے کے لئے ریسرچ کے ایسے ادارے بخوبی کام کر رہے ہیں۔ مختصرمگرجامع ملاقات میں بہت سے موضوعات سمیت فضائی آلودگی خصوصاً سموگ سے متعلق گفتگو کے دوران بابر ستار صاحب کی جانب سے تجاوزات کو بھی آلودگی کی وجہ قرار دینا دلچسپی سے خالی نہ تھا۔ سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سڑکوں پرپٹرول سے چلنے والی وہیکلز ناقص فیول اور کمزور انجن کی وجہ سے آلودگی میں 70 فیصدکی حصہ دارہیں۔ مزید انڈسٹریل دھواں 63 فیصد،جلا کر فضلہ تلف کرنے سے 37 فیصد، اینٹوں کے بھٹوں سے 31 فیصد، فصلیں جلانے سے 30 فیصد، 11 فیصد کنسٹرکشن کے پھیلا¶ اور14 فیصد دیگر وجوہات شامل ہیں۔ اس میں سب سے بڑی وجہ گاڑیوں سے نکلنے والا زہریلادھواں ہے۔ اس کو ٹھیک کرنے کے دو طریقے ہیں۔ گاڑیوں میں ڈالا جانے والا فیول اپ گریڈ کیا جائے۔ گاڑیوں کومخصوص مدت کے بعد سڑکوں پرچلنے کی اجازت نہ دی جائے اوران کی فٹنس کے قوانین پر سختی سے عمل درآمدکرایاجائے۔ دوسرا تجاوزات کا خاتمہ، جو آج کا موضوع بھی ہے۔ تجاوزات پورے پاکستان کامسئلہ ہے۔ بلکہ مسئلے سے زیادہ ایک رویہ ہے۔ ہمارامزاج ہے کہ ہمیں قانون شکنی پسند ہے۔ اسی سروے کے مطابق 44 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ لوگوں کاعدم تعاون اور قانون پر عملدرآمد نہ کرنا صاف ماحول کے لئے رکاوٹ ہے۔ گذشتہ چندبرسوں سے اکتوبر اور نومبر پنجاب میں خصوصاً لاہور اور دیگربڑے شہروں میں سموگ سے نظام زندگی درہم برہم ہو جاتا ہے۔ بچوں کی تعلیم، دفتر یا شاپنگ کے لئے آنا جانا یا سماجی تقریبات میں شرکت کا عمل سکڑ کر رہ جاتا ہے۔ صحت کے مسائل الگ سے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ویسے تو 10 میں سے 8 پاکستانی فضائی آلودگی کے سبب سانس سے جڑی کسی نہ کسی بیماری کا سامنا کرتے ہیں۔ لیکن اس برس پنجاب کے شہروں لاہور، ملتان، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور راولپنڈی میں 100 فیصد لوگوں کواس کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں 68 فیصد لوگوں کو کھانسی، 66 فیصد لوگوں کو فلو، 37 فیصد لوگوں کو سانس لینے میں دشواری، 29فیصد لوگوں کو آنکھوں میں جلن، 4 فیصد کو بخار اور 9 فیصد کو دیگر بیماریوں کی شکایت رہی۔ ان دو مہینوں میں خوب شور مچتا ہے، ٹی وی شوز کئے جاتے ہیں، سوشل میڈیا پر حکومت کوذمہ دار ٹھرایا جاتا ہے۔ دسمبر میں موسم قدرے صاف اور بعد میں بہتر ہو جاتا ہے۔ حکومت بھی دبا¶ سے نکل آتی ہے عوام بھی بھول جاتے ہیں کہ کوئی جان لیوا مسئلہ در پیش آیا تھا۔ لیکن اس بار پنجاب حکومت نے تجاوزات کے خاتمے کے لئے باقاعدہ کمر کس لی ہے۔ پنجاب میں پیرا (پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی) نے باقاعدہ کام شروع کردیا ہے۔اس کی سربراہی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز خود کر رہی ہیں۔اس اتھارٹی کا ایک مقصد شہروں کی گلیوں،بازاروں اور سڑکوں پر ٹریفک کے بہا¶ میں بہتری اور پیدل چلنے والوں کے لئے آسانی پیدا کرنا ہے۔ لاہور کے بڑے بازاروں میں دکانوں کے آگے اس قدرانکروچمنٹ ہو چکی تھی کہ پیدل آدمی کا گزرنا محال تھا۔ لیکن اس وقت اندرون لاہور کے بازاروں کی صورتحال بتدریج بہتر ہو رہی ہے۔آپ ہال روڈ، بیڈن روڈ،برانڈرتھ روڈ سے باآسانی اپنی گاڑی پر گزر سکتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کے ڈیٹا کے مطابق پنجاب کی کل وہیکلز کا 32فیصد صرف لاہورمیں موجود ہے۔ ٹریفک کے بہا¶ کو کنٹرول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ قوانین پرہرصورت عملدرآمدکرایاجائے۔ انکروچمنٹ اور ٹریفک کنٹرول نہ ہونے کے باعث سست رفتارگاڑیاں اپنا سفر دوگنے وقت میں طے کرتی ہیں اور فضا میں زیادہ کاربن چھوڑکر آلودگی کا سبب بن رہی ہیں۔ اس سلسلے میں لاہور کی سب سے مصروف فیروز پور روڈ پر موٹرسائیکل والوں کے لئے الگ لین بنا دی گئی ہے جبکہ تین اور چار پہیے والی سواریوں کے لئے الگ سڑک مختص ہے تاکہ ٹریفک کا بہا¶ بنا رہے۔ دیکھا جائے تو یہ ایک مثبت قدم ہے جسے کچھ لوگ سوشل میڈیا پر غلط اندازمیں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سپیڈ لمٹ کی پابندی نہ کرنے اور غلط اوورٹیکنگ کی وجہ سے اِکا دُکا لوگوں کو حادثات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن جتنی جلدی نیا ڈسپلن قبول کر لیں گے صورتحال مثبت ہوجائے گی۔ اسی ذیل میں پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی نے مارکیٹوں اور گلیوں میں دکانوں پر آویزاں بورڈز پربھی آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ اتھارٹی اس ضمن میں لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں دکانوں پر لگے بورڈز کو گراکر ایک ہی ڈیزائن، سائز اور ایک جیسی لکھائی کے بورڈ لگوا کر یونیفارمیٹی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ شاید سنگل شاپ اونرکے لئے یہ صورتحال اتنی پریشان کن نہ ہو۔ لیکن ٹیئر ون ریٹل سیکٹر(برانڈز) کےلئے یہ صورتحال نہایت مشکل اور پریشانی کا باعث بن چکی ہے۔ ہر برانڈ کا سائن بورڈ ایک الگ پہچان اور نمائندگی رکھتا ہے۔کسی بھی کسٹمرکے لئے ایک مارکیٹ میں اپنے مطلوبہ برانڈ کو اس کے سائن بورڈ کے ذریعے پہچاننا آسان جبکہ ایک جیسے بورڈزمیں تلاش کرنا دشوار ہے۔
دوسرالاکھوں روپے کی مالیت کے بورڈز کو توڑنے کا عمل ٹیکس کمپلائینٹ بزنسز کے کئے نہایت تکلیف کا باعث ہے۔ چھوٹے شہروں میں برانڈز شاپ کے آگے لگی ٹف ٹائلزکو انکروچمنٹ کے نام پر بلڈوز کرنے کے بعد خالی چھوڑ دینے کی شکایات الگ ہیں۔ یا تو حکومت اس کو پہلے سے بہتر کرے ورنہ انھیں بلڈوزکرنے سے گریز کرے۔ یہ فیصلہ اور ذمہ داری، پیرا اور مقامی ڈپٹی کمشنر کی ہے کہ وہ شہر کی خوبصورتی کو کیسے برقرار رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں آرگنائزڈ ریٹیل کی نمائندہ تنظیم چین اسٹور ایسوسی ایشن حکومت کی معاونت کے لئے تیار ہے۔ چین اسٹورایسوسی ایشن کے چیئرمین اسفندیار فرخ کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر متوازی طور پر ماحول دوست پالیسیزکے نفاذ اورکاروبار کے فروغ کے لئے تیار ہیں۔ جبکہ اس تنظیم میں شامل برانڈز پہلے ہی ماحول دوست اقدامات کررہے ہیں جیسا کہ پلاسٹک کی جگہ کپڑے یا کاغذکے بیگز، ایفیشنٹ انرجی لائٹس اور سولرانرجی کااستعمال۔ پنجاب حکومت کی تازہ مہم میں تماتر کمپلائنسز کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے نئے بورڈز تیار کئے جا سکتے ہیں۔ اسلئے پنجاب حکومت کو چاہئے کہ ٹیئر ون(برانڈز) کے بورڈ توڑنے سے قبل مشاورتی عمل مکمل کر لے تاکہ کاروبار دوست پالیسیوں کا تسلسل قائم رہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: جاتا ہے کے لئے

پڑھیں:

فضائی آلودگی کا وبال، لاہور دنیا کے آلودہ شہروں میں پھر سرفہرست

سٹی42: باغوں کا شہر  لاہور  فضائی آلودگی کے شدید نرغے میں آ گیا ہے۔ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور نے پہلے نمبر کا مقام حاصل کر لیا ہے اور ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) کی مجموعی شرح 339 ریکارڈ کی گئی ہے۔
سی ای آر پی آفس میں آلودگی کی شرح 623، سول سیکرٹریٹ میں 610، اقبال ٹاؤن 607 جبکہ ساندہ روڈ پر 486 ریکارڈ کی گئی۔برکی روڈ پر آلودگی کی سطح 478، سید مراتب علی روڈ پر 471، پیراگون میں 455 اور جی سی یونیورسٹی کے اطراف 447 ریکارڈ ہوئی۔

بھارتی نژاد دنیا کی معروف کمپنی کو اربوں کا چونا لگا کر فرار

محکمہ موسمیات کے مطابق شہر کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک جانے کا امکان ہے جبکہ آئندہ 24 گھنٹوں میں بارش کا کوئی امکان نہیں ہے۔شہر میں 3 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل رہی ہیں اور ہوا میں نمی کا تناسب 85 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔

دوسری جانب موسمی تبدیلی اور بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے باعث سانس اور جلد کے امراض میں خطرناک حد تک اضافہ ہونے لگا ہے۔ معروف ماہرِ طب پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو چکا ہے، جس کے باعث شہریوں کی صحت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان فیصلہ کن ٹی ٹونٹی میچ آج ہوگا  

پروفیسر جاوید اکرم نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ بزرگ افراد اور بچے فضائی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جبکہ پہلے سے بیمار افراد کے لیے یہ آلودگی انتہائی مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔

  ان کا کہنا تھا کہ شہری کھلی فضا میں نکلتے وقت لازمی ماسک استعمال کریں اور آلودگی کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے پانی کا زیادہ استعمال کریں۔پروفیسر جاوید اکرم نے مشورہ دیا کہ بوڑھے اور بیمار افراد کو نمونیا سے بچاؤ کی ویکسین ضرور لگوانی چاہیے تاکہ موسمی بیماریوں کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔

نئے بھرتی کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر ہونے پر بھی پنشن نہیں ملے گی

متعلقہ مضامین

  • لاہور میں فضائی معیار کی شرح 500 تک پہنچ گئی
  • لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں فضائی آلودگی کی شدت برقرار
  • لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں فضائی آلودگی کی شدت آج بھی زیادہ
  • ماہرین نے فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی کا حل بتا دیا
  • فضائی آلودگی کا وبال، لاہور دنیا کے آلودہ شہروں میں پھر سرفہرست
  • بھارتی آلودہ ہواؤں سے پنجاب میں فضائی آلودگی بڑھ گئی، شہریوں کو بلاضرورت گھر سے باہر نہ نکلنے کی ہدایت
  • پنجاب بدستور بد ترین اسموگ کی لپیٹ میں، فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی۔
  • بھارت سے آنے والی آلودہ ہواؤں نے پنجاب کا فضائی معیار خطرناک حد تک گرا دیا
  • پنجاب کے وسطی علاقوں میں فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی
  •  فضائی آلودگی کا وبال، گوجرانوالہ دنیا کے آلودہ شہروں میں پھر سرفہرست