بلوچستان میں دورانِ زچگی خواتین کے انتقال کر جانے کی شرح سب سے زیادہ، جب کہ صوبے میں بلوچستان میں 30 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار۔

محکمہ صحت بلوچستان کی جانب سے انکشاف کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں دوران زچگی خواتین کے انتقال کی شرح ملک بھر میں کسی بھی صوبے سے زیادہ ہے۔ جب کہ صوبے میں بلوچستان میں 30 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔

آج بروز بدھ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں محکمہ صحت کی جانب سے اراکین اسمبلی کو بریفنگ کی دی گئی، صوبائی وزیر صحت بلوچستان بخت محمد کاکڑ اور سیکریٹری صحت مجیب الرحمان پانیزئی کی جانب سے اراکین کو آگاہ کیا گیا کہ بلوچستان میں 30 فیصد بچے خوراک کی کمی کاشکار ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت غریب عوام کو علاج کی مفت سہولیات کی فراہمی کے لئے اقدامات کررہی ہیں تاہم وسائل، ڈاکٹروں اور افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔

آدھا بجٹ تنخواہوں میں

وزیر صحت بلوچستان بخت محمد کاکڑ کے مطابق صحت کے لیے مختص 87 ارب روپے کے بجٹ کا آدھا حصہ تنخواہوں پر لگ جاتا ہے۔

سیکریٹری صحت مجیب الرحمان پانیزئی نے بتایا کہ بلوچستان میں زچگی کے دوران ماؤں کی شرح اموات باقی تمام صوبوں سے زیادہ ہے جسے کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ صوبے کے 30فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔

انہوں نے اراکین کو بتایا کہ سرکاری ہسپتالوں میں 13 ہزار آسامیاں خالی ہیں 2030 تک 8ہزار نرسوں کی ضرورت ہے۔ سول ہسپتال کوئٹہ میں ایک ہزار نرسوں کی ضرورت ہے۔

7 سے 8 سالوں میں کوئی نئے میڈیکل آلات نہیں خریدے گئے

 سیکریٹری صحت مجیب الرحمان نے بتایا کہ پچھلے 7 سے 8 سالوں میں کوئی نئے میڈیکل آلات نہیں خریدے گئے، اس خلا کو پر کیا جا رہا ہے۔ ہسپتالوں کو اربوں روپے کی مشینری درکار ہے۔

بریفنگ کے بعد اراکین اسمبلی نے وزیر صحت بخت کاکڑ اور سیکرٹری صحت مجیب الرحمن سے محکمے سے متعلق فردا ًفردا ًسوالات کیے اور اپنے حلقوں سے متعلق تجاویز پیش کیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بخت محمد کاکڑ بلوچستان زچگی غذائی قلت محکمہ صحت.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بخت محمد کاکڑ بلوچستان زچگی غذائی قلت بلوچستان میں صحت بلوچستان غذائی قلت بتایا کہ فیصد بچے کا شکار کی شرح

پڑھیں:

غذائی درآمدات میں کمی یا اضافہ؟

مالی سال 2024 اور 2025 کے 9 ماہ گزر گئے، جولائی تا مارچ 2025ء کے غذائی یعنی فوڈ گروپ کے اعداد و شمار انتہائی خوش کن نظر آ رہے تھے۔ جب یہ بتایا جا رہا تھا کہ 2023-24 کے 9 ماہ کے مقابلے میں رواں مالی سال کے 9 ماہ میں فوڈ گروپ کی درآمدات میں2.74 فی صد کمی ہوئی ہے۔ درآمدات میں کمی کا ہونا وہ بھی فوڈ گروپ کی درآمدات جس میں دالیں، گندم، جب کہ غذائی اشیا میں چائے، سویابین آئل اور دیگر اشیائے خوراک شامل ہوتی ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 9 ماہ کے دوران 6 ارب 11 کروڑ 80لاکھ 13 ہزار ڈالرز کی فوڈ گروپ کی درآمد ہوئی اور اس کے مقابل جولائی 2023 تا تاریخ 2024 کی فوڈ گروپ کی کل درآمد 6 ارب 29 کروڑ 4 لاکھ67 ہزار ڈالر کے ساتھ2.74 فی صد کی کمی کا ڈنکا بجا دیا گیا جب کہ یہ حقیقت بھی ہے لیکن ذرا رکیے! سال گزشتہ کی درآمدی گندم نکال کر حساب کتاب چیک کرتے ہیں تو کہانی بالکل الٹ ہو کر رہ جاتی ہے۔

پچھلے مالی سال کے 9 ماہ میں پاکستان کے ساڑھے چونتیس لاکھ میٹرک ٹن گندم کی درآمد پر ایک ارب 51 لاکھ ڈالرز خرچ ہوئے تھے، اگر گندم نکال دی جائے تو 6 ارب کی غذائی درآمدات کو5 ارب سمجھنا چاہیے اور چونکہ اس مرتبہ گندم کی مد میں 35 ہزار ڈالر درج ہے، اس لحاظ سے یہ تقریباً 15 فی صد سے زیادہ غذائی درآمدات کا اضافہ بنتا ہے۔

اس سے زیادہ مسئلہ اس بات کا ہے کہ رواں مالی سال میں گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کا دالوں کی درآمد سے موازنہ کرتے ہیں تو 19 کروڑ ڈالرز کی زائد دالیں درآمد ہو کر رہیں۔ آہستہ آہستہ ایسا معلوم دے رہا ہے کہ پاکستان دالیں امپورٹ کرنے والے ملکوں کی فہرست میں اپنا نام بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ اس طرح دالیں مہنگی ہوتی چلی جائیں گی اور کچھ عرصے میں غریب کی دسترس سے باہر ہوکر رہیں گی۔

جلد ہی گوشت بھی اشرافیہ میں سے کچھ لوگوں کی دسترس سے باہر ہونے کو ہے لہٰذا مہنگی دالوں کے گُن گائے جائیں گے اور اشرافیہ کے کچھ افراد گائے کے گوشت کو بھی خیرباد کہہ دیں گے اور وہ دال مہنگی ہو کر رہ جائے گی جو کبھی غریبوں کی پہچان تھی، اب وہ اشرافیہ کی شان بن جائے گی۔ پھر یہ نہیں کہا جائے گا کہ ’’دال میں کچھ کالا ہے‘‘ بلکہ دال اب بہت سے کالے دھن والوں کا کھاجا ہوکر رہ جائے گی۔اس مرتبہ غذا کی درآمدات میں دراصل اضافہ ہوا یا کمی ہوئی ہے۔

ان سب کو سمجھنے کے لیے دال، گندم اور غذائی درآمدات کو گڈمڈ کرنا پڑے گا۔ یعنی بات سیدھی سمجھنی ہو تو کچھ اس طرح ہے کہ گزشتہ مالی سال کے 9 ماہ کی ایک ارب ڈالر کی درآمدی گندم اور اس مرتبہ دالوں کی درآمد پر تقریباً 19 کروڑ ڈالر کی زائد درآمد کو ملا لیں یا سال گزشتہ کے اسی مدت سے گھٹا لیں تو دراصل تقریباً سوا ارب ڈالر کی اس مرتبہ غذائی درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ اس کے علاوہ کئی غذائی درآمدات میں جن کو پچھلے سیزن میں کم درآمد کیا گیا اس لیے ایک محتاط اندازہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اب یہ سوا ارب ڈالر5 ارب ڈالر کا 25 فی صد تو بنتا ہے اس طرح گندم نکالیں دال جمع کریں تو یہ سب کچھ جب گڈمڈ ہوکر رہ جائے گا تو ایسے میں معیشت کی کمزوری ظاہر ہوکر رہے گی۔ اتنی درآمدات کے باعث درآمدی ملک بن گئے ہیں کہ کیا اب بھی ایسا معلوم دیتا ہے کہ خودکفالت کی منزل پا لیں گے یہ نعرہ بھی درآمدی نعرہ بن گیا ہے۔

حکومت سستی دال فراہم کرنے کے لیے کاشتکاروں، زمین اور مقامی دالوں کا رشتہ مضبوط کرے تاکہ سستی دال اور مقامی دال پیدا ہو، اسی سے ہم سالانہ ایک سے سوا ارب ڈالر بچا سکتے ہیں۔ چینی بھی برآمد کر رہے ہیں اور اب گندم بھی برآمد کی جائے تاکہ ملک گندم کے برآمدی ممالک میں اپنی شناخت بنا سکے۔حکومت کے پالیسی ساز غذائی درآمدات کے بل کو بار بار چیک کریں، کیونکہ جب کھانے پینے کی چیزیں ایسے ملک میں باہر سے آ رہی ہیں جو ان تمام غذائی درآمدات کو سوائے چند ایک کو چھوڑ کر مثلاً چائے یا پام آئل وغیرہ کے دیگر کئی غذائی درآمدات اس لیے کی جاتی ہیں کہ ملکی پیداوار کی نسبت کھپت زیادہ ہے۔

اب زائد کھپت کہہ دینا اور اس کے لیے زائد پیداوار کے حصول کی کسی قسم کی کوشش نہ کرنا، اب اس پالیسی کے برعکس کام کرنے کے لیے ماہرین، پالیسی ساز اب طے کر لیں کہ ملک کو خودکفالت کی طرف لے جانے کے لیے پہلے غذائی درآمدات پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی،کیونکہ ابتدائی طور پر آسانی کے ساتھ ایک تا ڈیڑھ ارب ڈالرز کی کفایت کی جا سکتی ہے۔

صرف پچھلے 10 سال کا سوچ کر آیندہ 5 سال کی زرعی منصوبہ بندی کر لیتے ہیں تو یہ 10 تا 12 ارب ڈالر کی بچت، غذائی درآمدی بل میں کر سکتے ہیں اور آیندہ 5 برس اگر خودکفالت حاصل کرتے ہوئے کچھ اشیا خوراک برآمد کرلیتے ہیں تو یہی 10 سے 12 ارب ڈالرکی بچت ملک کو خودکفالت کی منزل کی جانب رواں دواں کر سکتی ہے اور یوں غذائی برآمدات کو دو سے تین گنا زیادہ بڑھا سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سورج آگ برسانے کو تیار، کراچی سمیت سندھ کے کئی شہروں میں ہیٹ ویو الرٹ
  • سورج آگ برسانے کو تیار؛ کراچی سمیت سندھ کے کئی شہروں میں  ہیٹ ویو الرٹ
  • پاکستان دنیا کا 5 واں سب سے زیادہ آب و ہوا کا شکار ملک قرار
  • غذائی درآمدات میں کمی یا اضافہ؟
  • بلوچستان، موسم گرم، تیز ہوائیں چلنے کی پیشنگوئی
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کی عمرانی ہاؤس آمد ، سردار غلام رسول عمرانی کے چچا کے انتقال پر تعزیت و فاتحہ خوانی کی
  • 48 فیصد نوجوانوں نے سوشل میڈیا کو ذہنی صحت کیلئے نقصان دہ قرار دیدیا
  • موسمیاتی تبدیلی بھی صنفی تشدد میں اضافہ کی وجہ، یو این رپورٹ
  • چین کی بجلی پیدا کرنے کی نصب شدہ صلاحیت میں 14.6 فیصد اضافہ
  • 2010ءسے 2020ء کے دوران پاکستان میں 430 زلزلے آئے: شیری رحمان