آسٹریلیا میں ڈاکٹر اور نرس کے شرم ناک بیان پر وزیرِاعظم بھی برہم
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
آسٹریلیا اور ایک ڈاکٹر اور نرس کی وڈیو نے ہنگامہ برپا کردیا ہے۔ مسلم ڈاکٹر اور نرس نے کہا ہے کہ وہ یہودی مریضوں کا علاج نہیں کریں گے۔ وزیرِاعظم انتھونی البانیز نے اس وڈیو کا نوٹس لیتے ہوئے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم اپنے ملک میں کیسے کیسے لوگوں کو آنے دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ وہ یہودی مریضوں کو قتل کرچکا ہے جبکہ نرس کہتی ہے کہ وہ یہودی مریضوں کی نگہداشت نہیں کرے گی۔ دونوں ہیلتھ ورکرز کا تعلق نیو ساؤتھ ویلز سے ہے۔ وزیرِاعظم انتھونی البانیز کا کہنا ہے کہ طب جیسے اہم شعبے میں کسی بھی انسان سے اُس کے مذہب، رنگ، نسل، ثقافت یا زبان کی بنیاد پر نفرت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ طب کے شعبے میں ہر پروفیشنل کو غیر معمولی ذمہ داریاں نبھانا پڑتی ہیں۔
وڈیو کے وائرل ہوتے ہی ہر طرف سے شدید نکتہ چینی کی جانے لگی۔ سوشل میڈیا پر اس وڈیو میں دکھائی دینے والے ڈاکٹر اور نرس پر زبردست لعن طعن کی جارہی ہے۔ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اِن دونوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے۔
نرس نے بھی کہا کہ وہ کسی بھی یہودی مریض کا علاج کرنے کے بجائے اُسے قتل کرنا پسند کرے گی۔ ڈاکٹر نے دعوٰی کیا کہ اُس نے کئی یہودی مریضوں کو جہنم رسید کیا ہے۔ اس خطرناک بیان کے بعد آسٹریلیا میں تہلکہ مچ گیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر اور نرس یہودی مریضوں
پڑھیں:
حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ کے جنازے میں شرکت پر پابندی، کشمیری سیاستدان برہم
محبوبہ مفتی نے سخت ردعمل ظاہر کرتے کہا کہ سیاسی قیادت کو نظر بند کرنے کا فیصلہ جموں و کشمیر کی سخت اور غیر جمہوری حقیقت کو عیاں کرتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی کئی سیاسی لیڈروں نے انہیں خانہ نظربند کر کے آزادی پسند لیڈر اور حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ کے جنازے میں شرکت سے روکنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انتظامیہ کے اس اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے سخت ردعمل ظاہر کرتے کہا کہ سیاسی قیادت کو نظر بند کرنے کا فیصلہ "جموں و کشمیر کی سخت اور غیر جمہوری حقیقت" کو عیاں کرتا ہے۔ انہوں نے سماجی رابطہ گاہ ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ صرف اس لئے گھروں میں نظر بند کیا گیا کہ ہم سوپور جا کر پروفیسر عبدالغنی بٹ کے انتقال پر تعزیت نہ کر سکیں۔ محبوبہ مفتی نے بی جے پی پر یہ بھی الزام عائد کیا کہ وہ دکھ اور بے چینی کو سیاسی مفاد کے لئے ہتھیار بنا رہی ہے۔
پروفیسر بٹ کے قدیم ساتھی اور پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد لون نے بھی الزام عائد کیا کہ انہیں سوپور جانے سے روکنے کے لیے گھر میں نظر بند کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا اس کی کوئی ضرورت تھی، پروفیسر صاحب ایک پُرامن شخصیت کے مالک تھے اور برسوں سے عملی سیاست سے الگ ہو چکے تھے، ان کو آخری الوداع کہنا سب کا حق تھا۔ ادھر میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق، جو ان کے دیرینہ ساتھی رہے ہیں، نے الزام عائد کیا کہ حکام نے جنازہ جلد بازی میں کرایا اور انہیں بٹ کی تجہیز و تکفین میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔
انہوں نے ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ ناقابلِ بیان دکھ ہے کہ حکام نے پروفیسر صاحب کے جنازے کو عجلت میں نمٹا دیا۔ انہون نے کہا "مجھے گھر میں بند رکھا گیا اور آخری سفر میں شریک ہونے کے حق سے محروم کر دیا گیا، ان کے ساتھ میری رفاقت اور رہنمائی کا رشتہ 35 سال پر محیط تھا، اتنے لوگوں نے ان کا آخری دیدار کرنے کی خواہش کی تھی، مگر ہمیں اس حق سے بھی محروم رکھنا ظلم ہے"۔