پنجاب نے سرسبز مستقبل کے لیے موسمیاتی سمارٹ زراعت کو اپنالیا. ویلتھ پاک
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
فیصل آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔13 فروری ۔2025 )پنجاب موسمیاتی سمارٹ زراعت کو اپنا رہا ہے حکومتی اقدامات، کسانوں کی تربیت اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے فصلوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کر رہا ہے زرعی سائنسدان ڈاکٹر خان نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے موسمیاتی سمارٹ زراعت آگے بڑھنے کا راستہ ہے.
(جاری ہے)
انہوں نے زراعت کے شعبے میں دوبارہ تخلیق کرنے والے زرعی طریقوں کو فروغ دینے کٹائی کے بعد ہونے والے نقصانات کو کم کرنے پروسیسنگ کے طریقہ کار کو بہتر بنانے اور ویلیو ایڈڈ مشینری کو زراعت کے شعبے میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ان حکمت عملیوں کو متعارف کروا کرہم مصنوعات کے معیار کو نمایاں طور پر بڑھا سکتے ہیںجو بالآخر مارکیٹ ویلیو میں اضافہ کرے گا اور کسانوں کو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر بہتر منافع کمانے کے قابل بنائے گا اس کے علاوہ پاکستان کے زرعی شعبے کی ترقی اور کسانوں کی مالی حالت کو مستحکم کرنے کے لیے منڈیوں تک بہتر رسائی بھی بہت ضروری ہے.
انہوںنے کہا کہ یہ بات قابل تعریف ہے کہ پنجاب حکومت نے زراعت کے اہم مسائل کو تسلیم کرتے ہوئے متعدد منصوبے متعارف کروائے ہیں اور امید ظاہر کی ہے کہ ان اقدامات کے مستقبل قریب میں مثبت نتائج سامنے آئیں گے محکمہ زراعت کے افسر حمید نے بتایا کہ پنجاب حکومت 40,000 ایکڑ پر اعلی کارکردگی والے آبپاشی کے نظام کو نصب کر کے موسمیاتی سمارٹ پیداوار کی حوصلہ افزائی کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے. انہوں نے کہا کہ یہ عمل فصل کی پیداوار کو بہتر بنائے گا اور پانی کی کھپت کو کم کرے گا پانی زراعت کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے اور اس کی قلت روز بروز بڑھتی جارہی ہے انہوں نے کہا کہ حکومت کے لوگ پانی کی دستیابی کے چیلنجز سے بھی بخوبی واقف ہیں اور اس قیمتی قدرتی اثاثے کو بچانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اسی طرح انہوں نے کہا کہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور فوسل ایندھن پر انحصار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی ہے اس منصوبے کے ایک حصے کے طور پر انہوں نے کہا کہ 20,000ایکڑ پر شمسی توانائی سے چلنے والے اعلی کارکردگی والے آبپاشی کے نظام نصب کیے جا رہے ہیں. ڈاکٹر خان نے کہا کہ کسانوں کے مہنگائی کی وجہ سے اخراجات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال کسانوں کی موثر تربیت اور سستی قیمتوں پر زرعی مواد کی دستیابی کا تقاضا کرتی ہے سرکاری یونیورسٹی میں ماحولیات کے شعبے کے استاد ڈاکٹر محمد نے کہا کہ آبپاشی کے لیے شمسی نظام کی تنصیب پنجاب میں پائیدار کاشتکاری کے طریقوں کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگی. انہوں نے وضاحت کی کہ اس اقدام سے کسانوں کے جیواشم ایندھن پر انحصار کافی حد تک کم ہو جائے گا بالآخر ان کے بڑھے ہوئے بجلی کے بلوں میں کمی آئے گی کسانوں کا منافع کم ہو رہا ہے جبکہ ان کے آپریشنل اخراجات ان کے مالیات پر دباﺅڈال رہے ہیں اس عنصر کی وجہ سے وہ پریشان ہیں اور اپنی طویل مدتی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے اخراجات کو کم کرنے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں. انہوں نے کہا کہ کاربن کا اخراج توانائی کے روایتی ذرائع سے وابستہ ہے اور کسان ماحول کو صاف کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کسانوں کو ان شمسی توانائی سے چلنے والے نظاموں کو برقرار رکھنے اور استعمال کرنے کے لیے مالی مدد اور جامع تربیت کی ضرورت ہے ملک کے خطرناک حد تک آلودہ ماحول کے بعد روایتی توانائی کے ذرائع سے قابل تجدید توانائی کی طرف یہ تبدیلی بہت اہم ہے انہوں نے کہا کہ تمام پاکستانیوں کے لیے صاف ہوا اور پانی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے ماحولیاتی اثرات کو صاف کرنے کی ضرورت ہے.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ موسمیاتی سمارٹ زراعت کے رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
اے آئی نے ویب سائٹس کا مستقبل تاریک کردیا، حل کیا ہے؟
کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ گوگل پر کچھ تلاش کرنے کے بعد اب وہ نیلے رنگ کے پرانے لنکس نظر نہیں آتے؟ ان کی جگہ اب اکثر ایک ‘AI-generated’ جواب دکھائی دیتا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق گوگل اسے ‘AI Overviews’ کہتا ہے اور یہ تبدیلی خاموشی سے پوری انٹرنیٹ دنیا کو ہلا کر رکھ سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مصنوعی ذہانت اور ملازمتوں کا مستقبل: خطرہ، تبدیلی یا موقع؟
ایک نئی تحقیق کے ذریعے پتا چلا ہے کہ جب لوگوں کو گوگل پر اے آئی جواب ملتا ہے تو وہ اکثر مزید کسی لنک پر کلک ہی نہیں کرتے۔ 26 فیصد لوگ تو بس وہیں سے براؤزر بند کر دیتے ہیں۔
ویب سائٹس کو شدید نقصانگوگل پر ہر سال 5 کھرب بار سرچ کیا جاتا ہے۔ یہ زیادہ تر ویب سائٹس کے لیے سب سے بڑا ذریعہ ہوتا ہے جس سے انہیں وزیٹرز اور اشتہارات سے آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ مگر اب جب اے آئی خود ہی خلاصہ بتا دیتا ہے تو لوگ اصل ویب سائٹس پر جا ہی نہیں رہے۔
مارکیٹنگ ایجنسی Amsive کی ماہر لیلی رے کہتی ہیں کہAI Overviews نے ویب سائٹس کی ٹریفک کو 20، 30، حتیٰ کہ 40 فیصد تک کم کر دیا ہے۔ اس سے کئی لوگوں نے معیاری مواد بنانا ہی چھوڑ دیا ہے کیونکہ فائدہ ہی نہیں رہا۔
’ ٹریفک میں کوئی کمی نہیں آئی‘گوگل اس تنقید کو ماننے کو تیار نہیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ اربوں کلکس ویب سائٹس کی طرف بھیجتی ہے اور مجموعی ٹریفک میں کوئی بڑی کمی نہیں آئی۔ گوگل کا کہنا ہے کہ یہ تحقیقات ناکافی اور غیر متوازن ڈیٹا پر مبنی ہیں۔
مزید پڑھیے: کیا یہ واقعی خاتون ہیں؟ ووگ میں اے آئی ماڈل کی موجودگی نے معیار حسن پر سوالات اٹھا دیے
مگر Pew Research اور کئی آزاد ادارے کہتے ہیں کہ ان کا ڈیٹا مضبوط ہے اور حقیقت میں AI Overviews کی وجہ سے ویب سائٹس کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گوگل کی اپنی اے آئی ’جیمنائی‘ بھی تسلیم کرتی ہے کہ AI Overviews ویب سائٹس کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
کیا ہم خود ایسا چاہتے ہیں؟گوگل کا کہنا ہے کہ لوگ اب AI تجربات کو پسند کر رہے ہیں کیونکہ یہ تیز، آسان اور براہِ راست جواب دیتے ہیں۔ مگر ماہرین کہتے ہیں کہ اس آسانی کی قیمت بہت زیادہ ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ہم اصل ویب سائٹس سے دور ہو رہے ہیں، غلط معلومات کے خطرات بڑھ رہے ہیں اور ہمارا انتخاب کا حق کم ہو رہا ہے۔
لیلی رے نے کہا کہ گوگل AI کے ذریعے وہی مواد دکھا رہا ہے جو دوسروں نے بنایا ہے مگر فائدہ خود اٹھا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہ اکہ اصل مواد بنانے والوں کو کچھ نہیں ملتا اور قاری کو صحیح فیصلہ کرنے کا موقع بھی نہیں ملتا۔
مزید پڑھیں: علاقائی لہجوں کی نقل کرنے والا اے آئی وائس ٹول متعارف، زبانیں خطرے میں کیوں؟
یہ صرف ایک ٹیکنالوجی اپڈیٹ نہیں بلکہ پورے انٹرنیٹ کے مستقبل کا سوال ہے۔ اگر ہم نے ویب سائٹس پر جانا چھوڑ دیا تو ممکن ہے وہ دن بھی آئے جب وہ سائٹس ہی ختم ہو جائیں اور اس وقت ہمیں احساس ہو گا کہ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ ہم نے غلط لنک پر کلک کیا بلکہ یہ تھا کہ ہم نے کلک کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔
کچھ ادارے 80 فیصد تک ٹریفک کھو رہے ہیں، رائٹرزدریں اثنا رائٹرز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے گوگل کی جانب سے متعارف کرائے گئے AI Overviews نہ صرف انٹرنیٹ صارفین کے رویے کو بدل رہے ہیں بلکہ خبری ویب سائٹس اور میڈیا اداروں کے لیے ایک بڑے خطرے کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ایک تازہ تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ اے آئی خلاصے کی موجودگی میں ویب سائٹس کو ملنے والی کلکس کی شرح میں 80 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔
گوگل کا یہ نیا فیچر صارفین کو تلاش کا خلاصہ ایک بلاک کی شکل میں فراہم کرتا ہے جس سے انہیں اکثر مکمل معلومات مل جاتی ہے، بغیر اس کے کہ وہ اصل ویب سائٹ پر جائیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سرچ رزلٹ میں شامل لنکس مزید نیچے چلے جاتے ہیں اور کم صارفین کی نظر میں آتے ہیں۔
تحقیقی ادارے Authoritas کی نئی رپورٹ کے مطابق اگر کوئی ویب سائٹ پہلے کسی خاص سرچ پر گوگل میں پہلے نمبر پر آتی تھی تو اب AI Overview کی موجودگی میں اسی سوال پر اسے تقریباً 79 فیصد تک ٹریفک کا نقصان ہو سکتا ہے۔
میڈیا ادارے جو پہلے ہی گوگل پر انحصار کرتے تھے اب اس کو اپنی بقا کے لیے وجودی خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو اعلیٰ معیار کا صحافتی مواد بنانے کی معاشی بنیاد ہی ختم ہو جائے گی۔
مسئلے کا ممکنہ حلکچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اے آئی کے اس دور میں ویب سائٹس کو صرف گوگل سرچ پر انحصار کرنے کے بجائے ایسا منفرد اور گہرا مواد تیار کرنا ہوگا جو مشینی خلاصے میں پورا بیان نہ ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیے: ریڈیو اسٹیشن کی اے آئی ہوسٹ، سامعین کیسے سمجھے میزبان اصلی نہیں؟
اس کی مثال ماہرین کچھ اس طرح دیتے ہیں کہ ذاتی تجربات، تفصیلی تجزیے، اصل تحقیق اور ایسی باتیں جو صرف آپ کے پاس ہوں ویسا مواد تیار کریں کیونکہ AI زیادہ تر عام، بار بار دہرایا گیا مواد دکھاتا ہے اس لیے انسانی نقطۂ نظر اور اصل تجربہ آج زیادہ اہم ہو گیا ہے۔
ساتھ ہی ویب سائٹس کو اپنا مستقل ناظرین بنانا ہوگا جیسے کہ ای میل نیوزلیٹرز، سوشل میڈیا کمیونٹیز، یا یوٹیوب و پوڈکاسٹس۔ جب لوگ براہِ راست آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو گوگل یا AI کی مہربانی کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے علاوہ، ویڈیوز، انٹرایکٹو گائیڈز یا سوال و جواب جیسے فارمیٹس اپنائیں جو AI آسانی سے کاپی یا خلاصہ نہیں کر سکتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اے آئی اور ویب سائٹس کا مستقبل مصنوعی ذہانت ویب سائٹس خطرے میں