اسلام آباد:

جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے متنازع پیکا ایکٹ پر صحافیوں کی مکمل حمایت کا اعلان کردیا۔

اسلام آباد میں منعقدہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی جانب سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پیکا ایکٹ کے حوالے سے علی اعلان صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ یہ پیکا ایکٹ دراصل پھیکا ایکٹ ہے، ہم صحافیوں کے قدم بہ قدم چلیں گے۔ فضل الرحمان نے کہا کہ آمروں اور ڈکٹیٹروں نے ہمیشہ سب سے پہلے میڈیا کا گلہ گھوٹنے کی کوشش کی مگر اب جمہوری حکومتیں یہ کررہی ہیں۔

جے یو آئی سربراہ نے کہا کہ ہمیشہ یہ کہا ہے حکومت صحافیوں کیلئے ضابطہ اخلاق نا بنائیں بلکہ یہ کام انہیں دے دیں، یقین ہے صحافی خود اپنے لئے ضابطہ اخلاق بنائیں تو یہ سب سے بہتر ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہر ڈکٹیٹر نے آئین، جمہوریت، پارلیمنٹ پر شب خون مارا جبکہ چھبیسویں ترمیم کے نام پر آئین پر جو شب خون مارا گیا ہم نے اس کا مقابلہ کیا، عدلیہ کو اپنی لونڈی بنانے کی کوشش کی گئی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فضل الرحمان پیکا ایکٹ نے کہا کہ

پڑھیں:

فضل الرحمان کے بیٹے کے اغوا کی کوشش،کیا خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع نو گو ایریاز بن گئے؟

خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں نامعلوم مسلح افراد نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے بیٹے کو اغوا کرنے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیں:ڈی آئی خان: وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا رشتہ دار فائرنگ سے جاں بحق

اس واقعے کے بعد یہ سوال شدت سے اٹھنے لگا ہے کہ کیا صوبے کے جنوبی اضلاع سکیورٹی کے حوالے سے ’نو گو ایریا‘ بن چکے ہیں؟

اغوا کی کوشش کی تصدیق

جے یو آئی (ف) اور ڈی آئی خان پولیس دونوں نے واقعے کی تصدیق کر دی ہے۔ پارٹی رہنما اور مولانا فضل الرحمان کے بھائی سینیٹر مولانا عطا الرحمان نے سینیٹ کو بتایا کہ ان کے بھتیجے اور جے یو آئی (ف) کے رہنما اسجد محمود کو کس طرح اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔

پولیس کے مطابق واقعے کی رپورٹ سی ٹی ڈی نے درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے، تاہم تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔

نیشنل ہائی وے پر 50 مسلح افراد کی جانب سے قافلے پر حملہ

مولانا عطا الرحمان نے سینیٹ میں بتایا کہ چند روز قبل اسجد محمود ایک جنازے میں شرکت کے لیے ڈی آئی خان سے لکی مروت جا رہے تھے۔ اسی دوران نیشنل ہائی وے پر تقریباً 50 مسلح افراد نے ان کا قافلہ روک لیا۔

مولانا اعطا الرحمان

انہوں نے مزید بتایا کہ اسجد محمود عام انتخابات میں لکی مروت سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار شیر افضل مروت کے مدمقابل تھے، اور وہ پارٹی کے سرگرم کارکن بھی ہیں۔

مسلح تصادم کی صورتحال، لیکن بات چیت سے رہائی

مولانا اسجد کے ساتھ موجود محافظوں نے مزاحمت کی اور دونوں طرف سے ایک دوسرے پر بندوقیں تان لی گئیں، جس سے صورتحال کشیدہ ہو گئی۔

تاہم اسجد محمود کی طرف سے کی گئی بات چیت کے بعد شدت پسندوں کے کمانڈر نے انہیں جانے دیا۔

یہ بھی پڑھیں:ڈی آئی خان: نامعلوم افراد کی فائرنگ اور بم دھماکے کے نتیجے میں بلوچستان لیویز کے 4 اہلکار شہید

عطا الرحمان نے یہ وضاحت نہیں کی کہ گفتگو میں کیا بات ہوئی یا کس بنیاد پر رہائی ملی، لیکن بعد ازاں شدت پسندوں کی طرف سے موصول پیغام میں اسجد کو چھوڑنے کو ’غلطی‘ قرار دیا گیا۔

جے یو آئی کا تحفظ کا مطالبہ

عطا الرحمان نے سینیٹ میں زور دیا کہ جے یو آئی (ف) ہمیشہ ریاست پاکستان کے ساتھ کھڑی رہی ہے، لیکن اب ان کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے حکومت سے اپنے رہنماؤں کے لیے تحفظ کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ اگر ایسی کارروائیاں جاری رہیں تو جماعت خاموش نہیں رہے گی۔

ڈی آئی خان اور جنوبی اضلاع دہشتگردی کی لپیٹ میں

ڈی آئی خان، جو کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا آبائی ضلع بھی ہے، کافی عرصے سے دہشتگردی کا شکار ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق صوبے کے جنوبی اضلاع، جیسے ڈی آئی خان، لکی مروت، بنوں، ٹانک وغیرہ میں دہشتگردوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔

مولانا اسجد محمود

یہ علاقے اغوا، بھتہ خوری، اور حملوں جیسے جرائم کے لیے مشہور ہوتے جا رہے ہیں۔

ڈی آئی خان دہشتگردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کیوں؟

سینیئر صحافی رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق، ڈی آئی خان میں دہشت گردوں کی موجودگی 2004 سے ہے۔

ان کے مطابق ڈی آئی خان چار یا اس سے زائد اطراف سے جنوبی وزیرستان، بلوچستان اور پنجاب سے جڑا ہوا ہے، جس کی وجہ سے دہشتگردوں کے لیے یہاں سے فرار ہونا آسان ہے۔

یہ بھی پڑھیں:گورنر خیبرپختونخوا کا ڈی آئی خان اور سکھر ایئرپورٹس جیسے منصوبے جلد شروع کرنے کا مطالبہ

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈی آئی خان کے نواحی علاقے پسماندہ ہیں، جہاں شدت پسند گروپوں کے لیے کارروائیاں کرنا اور چھپنا آسان ہے۔

گنڈاپور گروپ کی سرگرمیاں کلاچی میں جاری ہیں اور وہ پورے ضلع میں متحرک ہے۔

گنڈاپور گروپ کی طاقت میں اضافہ کیسے ہوا؟

رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق، طالبان کی موجودگی اس علاقے میں پرانے وقتوں سے ہے، کیونکہ طالبان کے بانیوں میں کچھ افراد کا تعلق انہی علاقوں سے تھا۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد کئی طالبان جنگجو پاکستان آئے اور جنوبی اضلاع میں مقامی گروپوں سے مل گئے، جس سے ان گروہوں کی طاقت میں نمایاں اضافہ ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ 2 سال قبل لکی مروت میں سرگرم ٹیپو گروپ نے طالبان سے الحاق کیا، جس کے بعد اس کی طاقت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔

تشویشناک سیکیورٹی صورتحال

رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق، طالبان کی موجودگی کا اندازہ ان اضلاع میں دہشتگردی کے واقعات سے لگایا جا سکتا ہے، جو صوبے کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اغوا ڈی آئی خان گنڈاپور گروپ مولانا اسجد محمود مولانا عطا الرحمان مولانا فضل الرحمان

متعلقہ مضامین

  • فضل الرحمان کے بیٹے کے اغوا کی کوشش،کیا خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع نو گو ایریاز بن گئے؟
  • پیکا قانون پر صحافتی تنظیموں سے مشاورت کیلیے تیار ہیں،وفاقی وزیر اطلاعات
  • آزادی صحافت جمہوری نظام کی روح ہے، پیکا قانون مستند صحافیوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، وزیراطلاعات
  • وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ سے سی پی این ای وفد کی ملاقات، پیکا ایکٹ سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال
  • امریکا اس وقت جنگ بندی کی کوشش کرتا ہے جب اس کا حامی جنگ میں پِٹ رہا ہو، حافظ نعیم الرحمان
  • راولپنڈی میں ٹریفک وارڈن سے بدتمیزی ، پیکا ایکٹ کے تحت 10 سے 15 وکلا کے خلاف مقدمہ درج
  • راولپنڈی: پیکا ایکٹ کے تحت 10 سے 15 وکلا کے خلاف مقدمہ درج
  • ٹریفک وارڈن کو دھمکی،پیکا ایکٹ کے تحت وکلاء کیخلاف مقدمہ درج
  • درجن بھر وکلا کیخلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج، وجہ کیا بنی؟
  • راولپنڈی: پیکا ایکٹ کے تحت 10 سے 15 وکلاء کیخلاف مقدمہ درج