کسی کا کوئی خط نہیں ملا، آرمی چیف نے صحافیوں کو حقیقت بتا دی
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
سٹی42: چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے بتایا ہے کہ انہیں کسی کا کوئی خط نہیں ملا۔
وزیراعظم ہاؤس میں ترکیہ کے صدر طیب رجب اردوان کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے میں صحافیو ں کو جنرل عاصم منیر سے براہ راست باتیں کرنے کا موقع مل گیا۔ دوسری باتوں کے ساتھ ایک صحافی نے آرمی کے چیف سے اڈیالہ جیل میں 190 ملین پاؤنڈ کیس میں قید کی سزا کاٹ رہے، پی ٹی آئی کے بانی کے مبینہ خطوط کے متعلق سوال کر دیا۔ اس سوال کے جواب میں آرمی چیف نے مختصر جواب دیا، "مجھے کسی کا کوئی خط نہیں ملا، اگر کوئی خط ملا تو وزیراعظم کو بھجوادوں گا۔"
لاہور کے دو ایس ایچ اوز معطل
اس مختصر جواب سے آرمی چیف نے ایک بار پھر اپنا مؤقف دہرایا کہ ان کا اور آرمی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، ااور یہ کہ آرمی کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوششیں کی گئیں تو وہ ایسے معاملہ کو وزیراعظم کو بھیج دیں گے۔
دیگر سوالات کے جواب میں آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان میں ترقی ہورہی ہے، پاکستان آگے بڑھ رہا ہے اور پاکستان کو آگے بڑھنا ہے۔
بانی کی جانب سے آرمی کے چیف جنرل عاصم منیر کو خط لکھنے کا پہلا دعویٰ میڈیا میں بہت زیادہ ڈسکس کئے جانے کے بعد آڑمی کے ذرائع نے بتایا تھا کہ چیف آف آڑمی سٹاف کو بانی کا کوئی خط نہیں ملا۔ اس کے باوجود بانی اور ان کے متعلقین کی طرف سے دوسرا اور گزشتہ روز "تیسراخط" لکھے جانے کے دعوے کئے جاتے رہے۔ آرمی چیف نے آج ایک ہی جملے سے ان تمام دعووں کی تردید کر دی۔
گاڑیوں کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اڈیالہ جیل میں قید کی سزا کاٹ رہے سابق وزیراعظم آرمی چیف کے نام خطوط کی خبریں پھیلا کر میڈیا میں جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جو انہین مل جاتی ہے۔ خط کسی کو ملیں یا نہ ملیں اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
گزشتہ روز میڈیا میں بانی کے وکیل کا یہ دعویٰ نمایاں خبر کی حیثیت سے شائع ہوا کہ بانی نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو "تیسرا خط" لکھ ڈالا ہے۔ ہر خط کا مواد جو بانی کے متعلقین بتاتے ہیں عموماً الزامات پر مبنی ہوتا ہے جنہیں بانی اور ان کے متعلقین کسی عدالت میں ثابت نہیں کر سکے۔ الزامات کے اس سلسلے کی ابتدا اس وقت ہوئی تھی جب 2022 میں قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت نے اس وقت وزیراعظم عمران خان پر عدم اعتماد کی قرارداد منظور کر دی تھی۔ بانی نے اس قرارداد کو ووٹ کرنے والوں کو انٹیلی جنس ایجنسی کا دباؤ قرار دیا تھا اور اپنی حکومت کے آئین میں مقرر طریقہ کار سے خاتمہ کے جمہوری عمل کو کبھی امریکہ اور کبھی آرمی کی سازش قرار دیا تھا۔ ان ہی الزامات کو اب وہ نام نہاد خطوط کے نام سے دوبارہ اور سہ بارہ دہراتے رہتے ہیں۔
ایل این جی کی قیمتوں میں اضافہ
اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں بانی کے نیم سیاسی وکیل فیصل چوہدری نے دعویٰ کیا تھاکہ عمران خان نے آرمی چیف کو تیسرا خط لکھا ہے جس میں "الیکشن فراڈ کے ذریعے اقلیت کو اکثریت پر ترجیح دینے " کا معاملہ اٹھایا ہے۔
بانی کے ان الزامات کو "خبر" قرار دے کر سینکڑوں مرتبہ شائع کر چکے میڈیا ہاؤسز سے وابستہ صحافیوں کو آخر کار پیکا قانون کا سامنا ہے اور وہ اس قانون میں جھوٹے پروپیگنڈا کا راستہ روکنے کی کوشش کو "آزادیِ صحافت کی جنگ" بنا چکے ہیں۔
مفرور مچھلی کو پکڑنے پر 12 ہزار روپے، کمپنی کی لوگوں کو دلچسپ پیشکش
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی سابق وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو خط لکھے تھے جن میں پالیسیاں تبدیل کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
اس پر سکیورٹی ذرائع نے کہا تھاکہ آرمی چیف کو عمران خان کا کوئی خط موصول نہیں ہوا، ایسے کسی خط کو پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔
Waseem Azmet.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: کا کوئی خط نہیں ملا ا رمی چیف نے بانی کے
پڑھیں:
پاکستان کرکٹ زندہ باد
کراچی:’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔
اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔
اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔
تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟
بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔
اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔
ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔
البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟
ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔
اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔
یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟
مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔
پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔
لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔
یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟
پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔
خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔
میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟
ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟
ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)