UrduPoint:
2025-09-18@17:15:04 GMT

ترک صدر کا دورہ پاکستان، تجارت اور عالمی امور پر گفتگو

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

ترک صدر کا دورہ پاکستان، تجارت اور عالمی امور پر گفتگو

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 فروری 2025ء) ترک صدر اپنے تین ایشیائی ممالک کے دورے کے دوران پاکستان میں ہیں۔ وہ اس دورے کے دوران ملائیشیا اور انڈونیشیا بھی جائیں گے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے ترک صدر کو مدعو کیا تھا۔

سفارت کار اعزاز چوہدری نے ترک صدر کے اس دورے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اعزاز چوہدری نے ڈی ڈبلیو بتایا، ''دونوں ممالک کے درمیان تاریخی طور پر باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات رہے ہیں، نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ عوامی سطح پر بھی۔ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے رہے ہیں، جیسے کہ پنجاب میں ویسٹ مینجمنٹ منصوبوں، سڑکوں اور نقل و حمل کے منصوبوں میں۔

(جاری ہے)

‘‘

بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ترک حکام کا پاکستان کا دورہ ہمیشہ خوش آئند ہوتا ہے۔

ان کے مطابق اس بار یہ دورہ نہ صرف دو طرفہ تجارت اور دفاعی معاہدوں کے لحاظ سے اہم ہے بلکہ بین الاقوامی سیاست پر تبادلہ خیال اور دونوں دوست ممالک کے درمیان ایک مشترکہ بین الاقوامی پالیسی کی تشکیل کے لیے بھی نہایت اہمیت رکھتا ہے۔

پاکستان اور ترکی دیرینہ دوست ہیں اور یہ دوستی صرف حکومتوں کے درمیان تعلقات تک محدود ہی نہیں بلکہ دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کے لیے گہری محبت اور احترام رکھتے ہیں۔

دونوں ممالک خاص طور پر تجارت، ٹرانسپورٹ، تعلیم اور دفاع کے شعبوں میں تعاون کر رہے ہیں۔ کتنے معاہدے ہوئے، پہلے دونوں ملک کن شعبوں میں تعاون کر رہے ہیں؟

ترک صدر اور پاکستان کے وزیرِاعظم نے ایک مشترکہ تقریب میں مختلف شعبوں میں چوبیس مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے، جن میں دونوں ممالک نے دو طرفہ تجارتی حجم کو پانچ ارب ڈالر تک پہنچانے کے لیے کوششیں جاری رکھنے کا عہد کیا۔

رجب طیب ایردوآن نے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ترک سرمایہ کاروں کو پاکستان میں مزید سرمایہ کاری کرنے اور نمایاں منصوبے ترتیب دینے کی ترغیب دی جائے گی۔ عسکری مذاکرات اور دفاعی صنعت میں تعاون نے ہماری تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو بے حد فروغ دیا ہے۔‘‘

پاکستان اور ترک کے درمیان سفارتی، ثقافتی اور دفاعی تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں۔

حالیہ برسوں میں دونوں ممالک نے دفاعی شعبے میں نمایاں تعاون بڑھایا ہے، جس میں پاکستان ترکی کے قومی بحری جہازوں کے منصوبے کے تحت جنگی بحری جہاز حاصل کرنے والا پہلا ملک بنا اور جدید بغیر پائلٹ کے فضائی جہاز بھی حاصل کیے۔

صدر ایردوان اس سے قبل فروری دو ہزار بیس میں پاکستان آئے تھے، جہاں دونوں ممالک نے تزویراتی شراکت داری کو مضبوط بنانے کے لیے کئی معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔

ان کا حالیہ دورہ اسی شراکت داری کے تسلسل کی ایک کڑی ہے، جس کا دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے عہد کر رکھا ہے۔

دفاعی تعاون پاکستان اور ترکی کے تعلقات کا ایک اہم ستون ہے۔ اسٹاک ہوم بین الاقوامی امن تحقیقاتی ادارے کی دو ہزار تئیس کی رپورٹ کے مطابق ترکی پاکستان کو اسلحہ فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، جو پاکستان کی مجموعی اسلحہ درآمدات کا گیارہ فیصد فراہم کرتا ہے۔

دونوں ممالک کے مابین دفاعی شراکت داری میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے، جہاں مشترکہ منصوبے جیسے کہ ملیجم جنگی بحری جہاز، ہوائی جہازوں کو جدید بنانا اور ڈرونز کے حصول نے دونوں ممالک کے عسکری تعلقات کو مزید مستحکم کیا ہے۔

عالمی چیلنجز کیا ہیں، جن پر دونوں ملکوں کو تشویش ہے؟

مقامی میڈیا کے مطابق تجارتی اور دفاعی شعبوں سے متعلق معاہدوں کے علاوہ ترک صدر نے وزیر اعظم پاکستان سے ان کے دفتر میں ملاقات کے دوران عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا، جن میں غزہ کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا۔

بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھنے والے حلقے ترک صدر کے اس دورے کو نہایت اہم قرار دے رہے ہیں، خاص طور پر امریکہ میں نئی حکومت کے قیام کے تناظر میں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی قیادت میں قائم ہونے والی نئی امریکی حکومت تمام خطوں کے ممالک کے لیے سخت پالیسی اپنا سکتی ہے اور اس کے ممکنہ اثرات کو کم کرنے کے لیے پیشگی حکمت عملی تیار کرنا ضروری ہے۔

سابق سفیر منصور احمد خان، جنہوں نے افغانستان اور آسٹریا میں بطور سفیر خدمات انجام دی ہیں اور ویانا میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے کے طور پر بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ترکی کے صدر کا یہ دورہ انتہائی اہم ہے کیونکہ عالمی نظام میں بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد بین الاقوامی سطح پر کئی ایسے معاملات سامنے آئیں گے، جن سے پاکستان اور ترکی کو متحد ہو کر نمٹنا ہو گا۔‘‘

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان اور ترک دونوں ممالک نے دونوں ممالک کے بین الاقوامی میں پاکستان اور دفاعی کے درمیان کے مطابق رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

وزیراعظم شہباز شریف سعودی عرب کا سرکاری دورہ مکمل کر کے لندن روانہ

وزیراعظم محمد شہباز شریف سعودی عرب کا سرکاری دورہ مکمل کرنے کے بعد ریاض سے لندن روانہ ہوگئے۔ ایئرپورٹ پر ریاض کے نائب گورنر عزت مآب محمد بن عبدالرحمٰن بن عبدالعزیز نے وزیراعظم کو رخصت کیا۔

 

وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی دعوت پر یہ دورہ کیا۔ دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے مختلف پہلوؤں اور باہمی تعاون کے فروغ پر بات چیت کی گئی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک تاریخی دفاعی معاہدہ طے پایا ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب نے کے درمیان ہونے والے اس  اہم ’تزویراتی باہمی دفاعی معاہدہ‘ کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان سلامتی تعاون کو مزید گہرا کرنا اور کسی بھی بیرونی جارحیت کے خلاف مشترکہ موقف اختیار کرنا ہے۔

اس معاہدے کی رو سے اگر کسی نے ایک ملک پر حملہ کیا تو اسے دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی دفاعی معاہدہ، بھارت کا ردعمل بھی سامنے آگیا

معاہدے میں فوجی شراکت، دفاعی صلاحیتوں کی ترقی اور ممکنہ دشمنوں کے خلاف مشترکہ ردعمل جیسے نکات شامل ہیں۔

یہ معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خطے میں کشیدگی بڑھ رہی ہے، خصوصاً قطر پر اسرائیلی فضائی حملوں اور فلسطین کی صورتحال کے بعد۔

The Crown Prince and Prime Minister of the Kingdom of Saudi Arabia H.R.H. Muhammad bin Salman bin Abdulaziz Al Saud and Prime Minister Muhammad Shehbaz Sharif exchange the documents of Strategic Mutual Defense Agreement (SMDA) in Riyadh.
#PakistanSaudiPartnership
(17 September… pic.twitter.com/unSTIgQx98

— Prime Minister's Office (@PakPMO) September 18, 2025

مبصرین کے مطابق سعودی عرب کی یہ پیش رفت اس کی عالمی سلامتی شراکت داریوں کو متنوع بنانے کی کوشش کا حصہ بھی ہے، کیونکہ امریکا کی بطور روایتی محافظ حیثیت پر اب کچھ حلقوں میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

اگرچہ معاہدے میں نیوکلیئر ہتھیاروں کا براہِ راست ذکر نہیں کیا گیا لیکن چونکہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، اس لیے اس تعاون کے دائرے میں ایسے امکانات پر بھی بات ہو سکتی ہے۔

بھارت نے اس معاہدے پر محتاط ردعمل دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ علاقائی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے، تاہم اس نے واضح کیا ہے کہ یہ معاہدہ سعودی عرب کے ساتھ اس کے تعلقات میں تبدیلی نہیں لائے گا۔

پاکستان نے اس معاہدے کو دیرینہ دفاعی شراکت داری کی توسیع قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کسی خاص واقعے کا فوری ردعمل نہیں بلکہ ایک پالیسی فریم ورک ہے۔

یہ بھی پڑھیں:‘سعودی ہمارے بھائی ہیں، ہمیشہ کے لیے بھائی’، ترجمان پاک فوج کا پاک سعودی تعلقات کو خراج تحسین

دوسری جانب سعودی عرب نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو بھی برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے تاکہ علاقائی توازن قائم رکھا جا سکے۔

مجموعی طور پر یہ معاہدہ نہ صرف پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو ایک نئی جہت دے رہا ہے بلکہ خطے کی سیاست اور طاقت کے توازن پر بھی گہرے اثرات ڈالنے کا امکان ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان سعودی عرب شہباز شریف لندن وزیراعظم

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ دفاعی معاہدہ دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات کی تاریخ میں اہم موڑ ہے،وزیر دفاع
  • ٹرمپ کا دورۂ لندن؛ برطانیہ اور امریکا کا کاروباری شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
  • ٹرمپ کا دورہ لندن؛ برطانیہ اور امریکا کا کاروباری شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
  • وزیراعظم شہباز شریف دورۂ سعودی عرب مکمل کر کے لندن روانہ
  • وزیراعظم شہباز شریف دورۂ سعودی عرب مکمل کرکے لندن روانہ ہوگئے
  • وزیراعظم شہباز شریف سعودی عرب کا سرکاری دورہ مکمل کر کے لندن روانہ
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات ، مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال سمیت اہم امور پر گفتگو
  • سپیکرقومی اسمبلی سے مالدیپ کی عوامی مجلس کے سپیکر کی ملاقات، دوطرفہ پارلیمانی تعلقات سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سرکاری دورے پر لندن پہنچ گئے، کن اہم امور پر گفتگو ہوگی؟
  • پاکستان اور ایران کا باہمی تجارتی حجم 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کے عزم کا اعادہ