اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر نے ترکیہ کے صدر طیب اردگان کے دورہ پاکستان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دورے سے دونوں برادر ممالک کے درمیان باہمی تعاون اور تعلقات کو مزید فروغ ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اور پاکستان کے درمیان گہرے تاریخی، ثقافتی اور برادرانہ تعلقات ہیں جو وقت کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے ہیں۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ صدر طیب اردگان کے دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کے مابین معاشی ، تجارتی اورسفارتی تعلقات کو مزید فروغ ملے گا اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے اہم معاہدے اور مفاہمت کی یادداشتوں ہر دستخط کیے گئے ہیں۔

سیدال خان ناصر نے مزید کہا کہ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان دفاعی، اقتصادی، ثقافتی اور تعلیمی شعبوں میں تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں جنہیں اس دورے کے دوران مزید مستحکم کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان پارلیمانی سطح پر تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے بھی اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے صدر مملکت اصف علی زرداری اور وزیراعظم میاں شہباز شریف کو حالیہ سفارتی کامیابیوں پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ان کی مدبرانہ قیادت اور بہترین سفارتکاری کے باعث پاکستان عالمی سطح پر اپنے مقام کو مزید مضبوط کر رہا ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ موجودہ قیادت کی بصیرت اور متحرک خارجہ پالیسی سے پاکستان بین الاقوامی سطح پر مزید کامیابیاں حاصل کرے گا۔

سیدال خان ناصر نے کہا کہ ترکیہ کے صدر طیب اردگان کا دورہ پاکستان دونوں ممالک کے عوام کے درمیان محبت اور بھائی چارے کو مزید تقویت دے گا اور خطے میں امن و استحکام کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ڈپٹی چیئرمین سینیٹ صدر طیب اردگان دونوں ممالک کے دورہ پاکستان کے درمیان نے کہا کہ انہوں نے ترکیہ کے کو مزید

پڑھیں:

کیا پاک افغان تعلقات میں تجارت کے ذریعے بہتری آئے گی؟

19 اپریل کو پاک افغان مذاکرات کے دوران زیادہ تر گفتگو دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے معاملات میں بہتری اور افغان مہاجرین کی واپسی سے متعلق رہی۔ پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیرِخارجہ اسحاق ڈار نے افغان قائم مقام وزیرخارجہ امیرخان متقی کے ساتھ اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں یہی بات کی کہ 2 سال سے زائد عرصے سے دونوں مُلکوں کے درمیان تجارتی معاملات پر بات چیت نہیں ہو سکی جس سے دونوں ممالک مواقع کھو رہے ہیں۔

افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاک افغان تعلقات میں جو بہتری متوقع تھی وہ تو نہ آ سکی بلکہ 15 اگست 2021 کے بعد سے پاکستان کے اندر دہشتگردی کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہوا جس میں زیادہ تر واقعات میں تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کے شواہد، پاکستان نہ صرف افغان عبوری حکومت بلکہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر شیئر کرتا رہا۔

پھر ستمبر 2024 میں تمام افغان غیر قانونی افغان مہاجرین کو اپنے وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن یہ فیصلہ افغان عبوری حکومت کو پسند نہیں آیا۔ اِس پر اُنہوں نے اپنی ناراضی کا برملا اظہار بھی کیا۔

19 اپریل کو نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ  اسحاق ڈار کا دورہ  کابل اس سارے عرصے میں دونوں مُلکوں کے درمیان اعلٰی سطحی مذاکرات کا پہلا موقع تھا جس کو تمام سفارتی اور سکیورٹی ماہرین کی جانب سے نہ صرف خوش آئند قرار دیا گیا بلکہ معاملات کی درستی کے لیے اُٹھایا گیا قدم قرار دیا گیا۔

اسحاق ڈار کے دورے سے ایک روز قبل افغان وزیر تجارت نورالدین عزیزی نے پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان سے افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے سلسلے میں بات چیت کی۔ افغان مہاجرین کے اس مسئلے پر دونوں مُلکوں کے درمیان کابل میں بھی بات چیت ہوئی اور آج افغان مہاجرین کے مسائل کے حل کے لیے ایک ہاٹ لائن قائم کر دی گئی۔

اسحاق ڈار کے دورے کی سب سے اہم بات دونوں مُلکوں کے درمیان ازبکستان، افغانستان پاکستان 647 کلومیٹر ریلوے ٹریک تعمیر کا اعلان تھا، ساتھ ہی ساتھ پاکستان افغانستان اور چین سہ فریقی فورم کو فعال کرنے کا اعلان بھی ہوا اور 30 جون تک پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ تجارتی معاہدے کی تجدید کی بات بھی کی گئی۔ جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک تجارتی روابط میں بہتری چاہتے ہیں۔

ایمبیسیڈر عبدالباسط

پاکستان کے سابق سینئر سفارتکار عبدالباسط نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان مذاکرات کی شروعات حوصلہ افزا ہے۔ ایک سوال کہ آیا ان مذاکرات سے پاکستان کو درپیش دہشتگردی کا معاملہ ختم ہو پائے گا؟ کے جواب میں ایمبیسیڈر عبدالباسط نے کہا کہ اُن کے خیال میں افغان طالبان ٹی ٹی پی کو تو کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن اِسلامک سٹیٹ آف خُراسان بدستور ایک خطرہ رہے گا۔

سلمان بشیر

سابق سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی ایک معاملہ ہے جبکہ نائب وزیراعظم نے وہاں مختلف دیگر موضوعات و مسائل پر بھی گفتگو کی ہے۔

پاک افغان مذاکرات میں ٹرانزٹ ٹریڈ سے متعلق بات چیت ہوئی۔

افغان اُمور کے بعض ماہرین کی رائے ہے کہ پاک افغان تعلقات میں تلخی کا بڑا سبب دونوں مُلکوں کے تجارتی تعلقات ہیں۔ افغانستان میں کوئی صنعت نہیں اور تجارت ہی اُن کا ذریعہ معاش ہے جس کا زیادہ تر انحصار پاکستان پر ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے افغانستان نے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے سے اپنی تجارت کو فروغ دینے کی کوشش کی لیکن ایک تو یہ کہ ایران کے ساتھ افغانستان کا صرف ایک بارڈر ملتا ہے جس سے افغانستان کے تجارتی سامان کو بندرگاہ تک پہنچنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ جبکہ پاکستان کے ساتھ افغانستان کے طورخم، خرلاچی، غلام خان، انگور اڈہ اور چمن سمیت زیادہ گزرگاہیں ہیں۔ افغان تجارت کے لیے پاکستان موزوں ترین مُلک ہے۔

افغان اُمور پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی فخر کاکاخیل کے مطابق جب پاکستان، افغانستان کے ساتھ اپنے بارڈرز کو بند کرتا ہے تو وہاں کاروبار کا شدید نقصان ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں میں غم و غصّہ بڑھتا ہے۔

نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار کے دورۂ کابل کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا فوکس تجارت ہی رہی۔ افغان اُمور کےماہرین کا خیال ہے کہ تجارت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر کر سکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • ہمارے نظریاتی اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن پاکستان کی سالمیت سب سے مقدم ہے، سینیٹر ایمل ولی خان
  • امریکا نے پاک بھارت صورتحال پر گہری نظر رکھنے کا اعلان کر دیا
  • اقوام عالم کے درمیان تعاون، باہمی احترام کے فروغ کیلئے پرعزم ہیں: یوسف رضا گیلانی
  • پاکستان بھارت کے کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دے گا: خواجہ آصف
  • پاکستان اور بھارت کے درمیان کون کون سے معاہدے موجود ہیں؟
  • پاک ترکیہ اقتصادی و اسٹرٹیجک تعاون
  • ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ چین کا پیغام
  • کیا پاک افغان تعلقات میں تجارت کے ذریعے بہتری آئے گی؟
  • دفاعی شعبے میں مشترکہ منصوبے شروع کرنا چاہتے ہیں، اردگان: دہشت گردی کیخلاف تعاون پر شکریہ، شہباز شریف
  • وزیراعظم کا دورہ ترکیہ, صدر اردوان سے اہم ملاقات متوقع