Jang News:
2025-04-25@08:13:10 GMT

پی ٹی آئی سے نکالے جانے پر شیر افضل مروت کا طویل بیان آ گیا

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

پی ٹی آئی سے نکالے جانے پر شیر افضل مروت کا طویل بیان آ گیا

---فائل فوٹو 

پاکستان تحریکِ انصاف سے نکالے جانے پر ممبر قومی اسمبلی، ایم این اے شیر افضل مروت کی جانب سے ردِعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ 2 روز قبل بانیٔ پاکستان تحریکِ انصاف کی ہدایت پر شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔

اب شیر افضل مروت نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس (سابقہ توئٹر) پر ایک طویل نوٹ لکھ کر اپنے ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔

اسکرین شاٹ

شیر افضل مروت نے لکھا ہے کہ میں ہمشہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ وفادار رہا اور اپنے اصولی مؤقف پر قائم رہوں گا، مجھے حالیہ فیصلے سے بہت دکھ ہوا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بانئ پی ٹی آئی سے یہ فیصلہ ان افراد نے دلوایا جنہوں نے مجھے کبھی پارٹی میں قبول ہی نہیں کیا تھا تاہم میں نے کبھی ذاتی تنازعات میں الجھنے کی کوشش نہیں کی اور پارٹی کے اندر کسی گروہ کے بجائے ہمیشہ عمران خان کے وژن کے ساتھ کھڑا رہا۔

عمران خان نے شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکال دیا

بانیٔ پی ٹی آئی عمران خان نے شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکال دیا۔

پی ٹی آئی سے نکالے گئے شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ میں خان صاحب (عمران خان) کو درپیش مشکلات بشمول معلومات کی محدود رسائی اور ان لوگوں کی موجودگی کہ جن کے اقدامات پارٹی کے لیے مفید نہیں، کا اعتراف کرتا ہوں، میں اپنی پوزیشن قومی میڈیا پر آج رات واضح کروں گا اور مجھے یقین ہے کہ پی ٹی آئی کے ورکرز جو انصاف کے لیے میرے ساتھ کھڑے ہو کر لڑے وہ صحیح چیز کے لیے آئندہ بھی کھڑے رہیں گے۔

شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ اگر پارٹی نے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی نہیں کی تو میں اسے عزت سے قبول کروں گا لیکن کبھی بھی رعایت نہیں مانگوں گا تاہم مشکل حالات میں متحد کھڑے رہنے والے پی ٹی آئی لیڈرز اور ورکرز سے یہ ضرور کہوں گا کہ ناانصافی کے خلاف آواز ضرور اٹھائیں۔

پی ٹی آئی میں کوئی اختلافات نہیں: شیر افضل مروت

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں کوئی اختلافات نہیں۔

انہوں نے اپنے ایکس پیغام میں مزید لکھا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کو جمہوریت، شفافیت اور انصاف کے اصولوں کو تھامے رکھنا چاہیے، حقیقی وفاداری کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اندھی تابعداری کی جائے بلکہ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہماری جدوجہد صحیح راستے پر گامزن رہے۔

شیر افضل مروت کا آخر میں یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان میرے لیڈر ہیں اور رہیں گے، میری جدوجہد ذاتی مفادات کے لیے نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی سالمیت کے لیے ہے اور اس وِژن کے لیے ہے جو ہم سب کا مشترکہ ہے۔

دوسری جانب ذرائع کے مطابق شیر افضل مروت کو پارٹی پالیسیوں کی مسلسل خلاف ورزی کرنے پر پی ٹی آئی سے نکالا گیا ہے اور انہیں قومی اسمبلی کی رکنیت چھوڑنے کا بھی کہا جائے گا۔

’شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالنے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی جائے‘

تحریکِ انصاف کے رہنما شوکت یوسفزئی نے کہا کہ شیر افضل کو پارٹی سے نکالنے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی جائے۔

پشاور سے ایک بیان میں شوکت یوسف زئی نے کہا ہے کہ شیر افضل مروت ایک نڈر اور مشکل وقت کا ساتھی ہے، انہیں پارٹی سے نکالنے کے فیصلے نے کارکنوں کو مایوس کیا ہے، اس سے پہلے اتنا سخت فیصلہ کسی کے خلاف نہیں ہوا۔

بانی پی ٹی آئی سے ملاقات میں شیر افضل مروت سے متعلق اپنی رائے دوں گا: جنید اکبر

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) خیبر پختون خوا کے صدر جنید اکبر نے کہا ہے کہ میں بانئ پی ٹی آئی سے ملاقات کروں گا، شیر افضل مروت سے متعلق اپنی رائے دوں گا۔

پی ٹی آئی سے کس نے نکالا؟ شیر افضل مروت نے خود ہی بتا دیا

رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ مجھے پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ بانئ پی ٹی آئی کا اپنا فیصلہ نہیں۔


شوکت یوسفزئی نے یہ بھی کہا کہ شیر افضل مروت کو بھی ایک موقع ضرور دینا چاہیے۔

شہریار آفریدی کا ردِ عمل

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رکنِ قومی اسمبلی شہریار آفریدی نے شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالے جانے پر کہا ہے کہ میرے سامنے بانئ پی ٹی آئی نے شیر افضل مروت کو ہٹانے کی کوئی بات نہیں کی، شیر افضل کی پارٹی کے لیے خدمات ہیں، ان کے لیے بانی سے بات کریں گے۔

شہریار آفریدی کا کہنا ہے کہ 26 نومبر کو جو ہوا پوری قوم نے دیکھا، ہمارے لیڈر نے قانون کی بالادستی کی بات کی، ہم آئین و قانون کے لیے کھڑے رہیں گے۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: شیر افضل مروت کو پارٹی سے نے شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالنے قومی اسمبلی پی ٹی آئی سے بانئ پی ٹی پی ٹی ا ئی سے نکالے نہیں کی کے لیے

پڑھیں:

مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا

تحریک انصاف کو ایک اور سیاسی دھچکا ملا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت جے یو آئی (ف) نے فی الحال تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی قسم کا سیاسی اتحاد نہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کا گرینڈ اپوزیشن الائنس بنانے کا خواب بھی ٹوٹ گیا۔ اگر دیکھا جائے تو مولانا کے انکار نے تحریک انصاف کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس سے تحریک انصاف کے سیاسی وزن میں کمی ہوگی۔ اور ان کی سیاسی تنہائی میں اضافہ ہوگا۔

تحریک انصاف کے سیاسی نقصان پر بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے اس پہلو پر غور کریں کہ اگر گرینڈا پوزیشن الائنس بن جاتا؟ تحریک انصاف اور جے یو آئی (ف) کا سیاسی اتحاد بن جاتا تو کیا ہوتا؟ یہ پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی ہوتی۔ پی ٹی آئی کے سیاسی وزن میں بہت اضافہ ہوتا۔ حکومت کے مقابلہ میں اپوزیشن مضبوط ہوتی۔ میں ابھی احتجاجی سیاست کی بات نہیں کر رہا۔ یہ اتحا د نہ بننے سے تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اپوزیشن تقسیم رہے گی۔

آپ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلا س کی مثال سامنے رکھ لیں۔ مولانا اجلا س میں پہنچ گئے۔ حکومت کے مطابق اپوزیشن کی نمائندگی موجود تھی۔ تحریک انصاف کے بائیکاٹ کا وہ اثر نہیں تھا۔ جو مشترکہ بائیکاٹ کا ہو سکتا تھا۔ اسی طرح 26ویں آئینی ترمیم کی ساکھ بھی تب بہتر ہوئی جب اس کو اپوزیشن نے بھی ووٹ ڈالے۔ چاہے مولانا نے ہی ڈالے۔ اس لیے میری رائے میں مولانا کے اتحاد نہ کرنے کے فیصلے کا تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو بھی کافی نقصان ہوگا۔

وہ بھی کمزور ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تو پہلے ہی کئی دن سے اس اتحاد کے نہ بننے کا اعلان کر رہے ہیں۔ وہ بار بار بیان دے رہے تھے کہ اگر مولانا نے اتحاد نہیں کرنا تو نہ کریں، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے بیانات بنتے اتحاد کو بھی توڑ دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف کے اندر ایک دھڑا جہاں یہ اتحاد بنانے کی کوشش کر رہا تھا، وہاں تحریک انصاف کا ہی ایک اور دھڑا روز اس اتحاد کو بننے سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اگر اسد قیصر اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے تھے تو گنڈا پور اور عمر ایوب اس کے حق میں نہیں تھے۔

جے یو آئی (ف) کے رہنما کامران مرتضیٰ کا بہت سادہ موقف سامنے آیا ہے۔ان کے مطابق اسد قیصر جو اس اتحاد کے لیے تحریک انصاف کی طرف سے فوکل پرسن مقرر ہو ئے تھے، وہ لندن چلے گئے اور سیاسی طو رپر بھی خاموش ہو گئے۔ جب اعظم سواتی نے اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کے بیانات دیے تو کامران مرتضیٰ نے فوری بیان دیا کہ تحریک انصاف سے یہ بات طے ہوئی ہے کہ دونوں جماعتوں میں سے کوئی اکیلا اسٹبلشمنٹ سے بات نہیں کرے گا۔ جب بھی بات کی جائے مشترکہ بات کی جائے گی، آپ دیکھیں ابھی باقاعدہ اتحاد بنا ہی نہیں ہے اور تحریک انصاف کی طرف سے طے شدہ اصولوں سے انحراف شروع ہو گیا۔

جے یو آئی (ف) کے بیانات کہتے رہے اسد قیصر وضاحت کریں۔ ہم صرف ان کی وضاحت قبول کریں گے۔ کامران مرتضیٰ بیان دیتے رہے کہ وضاحت دیں ۔ لیکن اسد قیصر چپ رہے۔ ہ لندن سے واپس بھی نہیں آئے۔ ان کے علاوہ کسی نے (جے یو آئی ف )سے ملاقات کی کوشش بھی نہیں کی۔ ایسے میں آپ دیکھیں جے یو آئی (ف) کے پاس کیا آپشن رہ جاتے ہیں۔ وہ ایسے میں اتحاد نہ بنانے کا اعلان کرنے کے سوا کیا فیصلہ کر سکتے تھے۔

تحریک انصاف کا وہ دھڑا جو اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت چاہتا ہے۔ وہ اس اتحاد کی راہ میں رکاوٹ نظر آرہا تھا۔ وہ دھڑا جو کے پی میں حکومت میں ہے، وہ اس اتحادکے حق میں نظر نہیں آرہا تھا۔ عمر ایوب بھی زیادہ پرجوش نہیں تھے۔ یہ سب سامنے نظر آرہا تھا۔

یہ اتحاد نہ بننے سے تحریک انصاف کا سڑکیں گرم کرنے کا خواب بھی چکنا چورہو گیا ہے۔ تحریک انصاف اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اب اس میں سڑکیں گرم کرنے طاقت نہیں رہی ہے۔ پنجاب میں مزاحمتی طاقت ختم ہو گئی ہے۔

کے پی میں تقسیم بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لیے اگر مولانا ساتھ مل جاتے اور احتجاجی تحریک شروع کی جاتی تواس میں زیادہ طاقت ہوتی۔ مولانا کا ورکر زیادہ طاقتور ہے۔ مولانا کی احتجاجی سیاست کی طاقت آج بھی تحریک انصاف سے زیادہ ہے۔ لیکن یہ بھی تو تسلیم کریں کہ مولانا نے اگر اپنا ورکر باہر نکالنا ہے تو تحریک انصاف سے کچھ طے ہونا ہے۔ جے یو آئی کا ورکرکوئی کرائے کا ورکر تو نہیں جو تحریک انصاف کو کرائے پر دے دیا جائے۔

میں سمجھتا ہوں شاید اسٹبلشمنٹ مولانا کو تو اس اتحاد بنانے سے نہیں روک سکتی تھی لیکن اس لیے تحریک انصاف ہی کو استعمال کر کے اس اتحاد کو بننے سے روکا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے اس اتحاد کے خدو خال بھی واضح نہیں کیے تھے۔

تحریک انصاف نے اگر قائد حزب اختلاف کے عہدے اپنے پاس رکھنے تھے تو کم از کم اتحاد کی سربراہی کی پیشکش مولانا کو کی جانی چاہیے تھی۔ کیا تحریک انصاف چاہتی تھی کہ وہ اپوزیشن کو ملنے والے تمام عہدے بھی اپنے پاس رکھے اور مولانا سڑکیں بھی گرم کر دیں۔ مجھے لگتا ہے کہ تحریک انصاف میں لوگوں کو یہ خوف پڑ گیا کہ اگر مولانا آگئے تو ان کا عہدہ چلا جائے گا۔ کے پی خوف میں آگئے کہ مولانا کی جماعت کو اقتدار میں حصہ دینا ہوگا۔ قومی اسمبلی سینیٹ میں تحریک انصاف کی قیادت اپنے خوف میں پڑ گئی۔ اس لیے تحریک انصاف نے یہ اتحاد نہ بننے کی راہ خود ہموار کی۔

ایک اور بات جو جے یو آئی (ف) کے لیے شدید تشویش کی بات تھی کہ بانی تحریک انصاف نے ابھی تک اس اتحاد کو بنانے اور مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ ان کی پالیسی اور سوچ واضح نہیں تھی۔

بانی تحریک انصاف مولانا کے بارے میں خاموش ہیں۔ وہ نہ حق میں بات کر رہے ہیں نہ خلاف بیان کر رہے ہیں۔ جے یو آئی چاہتی تھی کہ کم از کم اس اتحاد کو بنانے کے لیے بانی کا خط ہی آجائے کہ وہ مولانا کو اتحاد بنانے کی دعوت دیں۔ اس بات کی کیا گارنٹی تھی کل بانی تحریک انصاف کہہ دیں کہ میں نے تو اس اتحاد کی منظوری نہیں دی تھی۔ میں نہیں مانتا۔ ایسا کئی مواقع پر ہو بھی چکا ہے۔ لیکن تحریک انصاف بانی تحریک انصاف کا خط لانے میں بھی ناکام رہی۔ اسد قیصر باہر تھے۔ خط آیا نہیں، کوئی ملنے کو تیار نہیں تھا، پھر اتحاد کیسے بنتا۔

متعلقہ مضامین

  • عمران نیازی میری مقبولیت سے خوف زدہ ، شیرافضل مروت
  • شیر افضل مروت نے مشکل وقت میں پاٹی کو سہارا دیا، اس کو نکال دیا گیا، معظم بٹ
  • نئی نہروں کے معاملے پر  وزیر اعظم بے بس ہیں تو اقتدار چھوڑ دیں، ندیم افضل چن
  • شکر ہے شیر افضل مروت سے جان چھوٹ گئی، عمران خان کا اظہار تشکر
  • مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا
  • بانی پی ٹی آئی کی شیر افضل مروت کے بیانات پر وقاص اکرم کو سخت جواب دینے کی ہدایت
  • عمران خان کے شیر افضل مروت سے متعلق سخت ریمارکس، وکلا سے ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
  • اسلام آباد، ڈپٹی سپیکر جی بی اسمبلی سعدیہ دانش اور جمیل احمد کی ندیم افضل چن سے ملاقات
  • عمران خان کو معدنی وسائل ایکٹ پر تحفظات، وزیراعلیٰ گنڈا پور کو طلب کرلیا
  • ''شکر ہے شیر افضل مروت سے جان چھوٹی،، عمران خان کی وکلا سے ملاقات کی اندرونی کہانی