اسلام آباد ہائیکورٹ کا گٹھ جوڑ عمران خان اور بشری بی بی کی اپیل کیلئے بنایا گیا، سینیٹر علی ظفر
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ کا گٹھ جوڑ عمران خان اور بشری بی بی کی اپیل کیلئے بنایا گیا، سینیٹر علی ظفر WhatsAppFacebookTwitter 0 14 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس )پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما سینیٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا گٹھ جوڑ عمران خان اور بشری بی بی کی اپیل کیلئے بنایا گیا ہے، حکومت نے عدلیہ کی ساکھ اور خودمختاری کو نقصان پہنچایا ہے، حکومت نے آزادی اظہارِ رائے پر پابندی عائد کردی۔سینیٹ اجلاس سے خطاب میں سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ قوم پس رہی ہے، لوگ ناراض ہیں، ان کی منتخب حکومت ان کی مرضی کے مطابق نہیں بنائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ جب آپ لوگوں کو آزادی رائے کا حق نہیں دیں گے تو لوگ احتجاج پر مجبور ہونگے، اسلام آباد میں ججز کی سینیارٹی کے معاملے میں سیاست کی بو آ رہی ہے۔علی ظفر نے کہا کہ حکومت نے پیکا ایکٹ کے نام سے بم پھینکا ہے، اگر کوئی اختلاف کرے گا تو اسے جیلوں میں بھیجا جائے گا، پیکا کی بنیاد رکھ کر آپ نفرتوں کے سودے کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ قوم سے احتجاج کا حق چھین لیا گیا، شکر ہے کہ سینیٹ نے قرار داد پاس کر دی کہ احتجاج کا حق ہونا چاہیے جبکہ قوم کے پاس آخری حق آزادی اظہارِ رائے کا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پیکا ایکٹ کو سینسر شپ ٹول کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، بانی پی ٹی آئی کا نام اور تصویر میڈیا پر نہیں چلائی جا سکتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگ اپنی رائے کا اظہار کرسکتے تھے، سوشل میڈیا کے مسائل ہیں، جھوٹی خبر بھی شائع ہوتی ہے جبکہ جھوٹی خبر کو ہم نے کنٹرول اور ریگولیٹ کرنا ہے۔بیرسٹر علی ظفرکا مزید کہنا تھا پہلے قانون سازی کی گئی اور پھر کہا گیا کہ آئیں بات کرلیں، پہلے بحث کی جاتی ہے، پھر قانون سازی کی جاتی ہے۔
اب یہ کہنا کہ قانون بن گیا ہے اگر کوئی ترمیم کرنا ہے تو آئیں بات کر لیں، نیت کو صاف ظاہر کرتا ہے، 26 ویں ترمیم کی خرابیوں کا پہلے ہی تذکرہ کر چکا ہوں۔علی ظفر نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، یکم فروری کو نوٹیفکیشن جاری ہوا کہ آرٹیکل 200 کے تحت 3 ججز کو اسلام آباد ہائیکورٹ تعینات کر دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ 3 ججز نے اس پر اعتراض کیا کہ انہیں شک تھا کہ یہ ان کی سینیارٹی پر اثر انداز ہو گا، سینیارٹی کے لحاظ سے بننے والے روسٹر کی وجہ سے عجیب و غریب مسئلہ سامنے آیا۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: اسلام آباد ہائیکورٹ سینیٹر علی ظفر علی ظفر نے کہا نے کہا کہ
پڑھیں:
ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں،ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ کے صنم جاوید کی بریت فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل پرریمارکس
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ میں9مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل جسٹس ہاشم کاکڑنے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں،ہائیکورٹ کوکوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہو رہی تووہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے،ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق 9مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی،جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی،وکیل پنجاب حکومت نے کہاکہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی،ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو بری کردیا،جسٹس ہاشم نے کہاکہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہو چکی ہیں کہ 4ماہ میں فیصلہ کیا جائے،جسٹس ہاشم کاکڑ نے وکیل پنجاب حکومت سے استفسار کیاکہ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتےہیں؟وکیل پنجاب حکومت نےکہا کہ ہائیکورٹ نے اختیارات سے تجاوز کیا،جسٹس ہاشم کاکڑنے کہاکہ اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں،ہائیکورٹ کوکوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہو رہی تووہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے،ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،وکیل پنجاب حکومت نے کہاکہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی،جسٹس صلاح الدین نے کہاکہ کرمنل ریویژن میں ہائیکورٹ سوموٹواستعمال کرسکتی ہے، جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہاکہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے،کیا پتہ کل آپ میرا یا کسی کا نام بھی 9مئی مقدمات میں شامل کردیں۔
کومل میر نے فواد خان کو اپنا کرش قرار دیدیا
جسٹس ہاشم کاکڑنے کہاکہ آپ کو بھی معلوم ہے شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے؟اس کیس میں جو کچھ ہے ہم نہ ہی بولیں توٹھیک ہوگا، عدالت نے سماعت غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہاکہ ہائیکورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا،ہائیکورٹ جج نے اپنا فیصلہ غصے میں لکھا،ہم اس کیس کو نمٹا دیتے ہیں۔
مزید :