بنگلہ دیش: نصابی کتب میں تاریخ دوبارہ لکھنے کا عمل
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 فروری 2025ء) بنگلہ دیش میں ہائی اسکول کی طالبہ لائبہ کو اب ملکی تاریخ کے وہ واقعات پڑھائے جا رہے ہیں، جو پہلے درسی کتب میں موجود نہیں تھے۔ گزشتہ سال بنگلہ دیشی طلبہ کی قیادت میں آنے والے انقلاب نے آہنی ہاتھوں سے حکومت کرنے والی شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ان کی اس کی بے دخلی نے بنگلہ دیش کو کچھ ایسا کرنے پر اُکسایا ہے، جیسا ماضی میں بھی ہو چکا ہے یعنی اپنی تاریخ کی کتابوں میں رد وبدل کرتے ہوئے انہیں دوبارہ لکھنا۔
نصابی کتب میں رد وبدل کرنے کی روایتلائبہ کی والدہ ثریا اختر جہاں کا اس تناظر میں کہنا تھا، ''تاریخ کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنے کی روایت کو کسی نہ کسی وقت رک جانا چاہیے اور ایسا جتنا جلدی ہو، اتنا ہی بہتر ہے۔
(جاری ہے)
‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''اقتدار سنبھالنے والی نئی حکومت کو نصابی کتابوں کو تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔
‘‘بنگلہ دیشی اسکولوں کے نصاب میں بنیادی تبدیلیاں معمول کی بات ہیں، جہاں پاکستان کے خلاف سن 1971 کی جنگ آزادی کی تباہ کن سیاسی تقسیم بدستور برقرار ہے۔
نصابی کتب میں کیا کچھ بدلا گیا ہے؟اس سال تک، نصابی کتابوں میں ملک کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمان کو پاکستان سے آزادی کی جدوجہد کی قیادت کرنے پر خصوصی عزت و تکریم دی جاتی تھی۔
مجیب الرحمان سن 1975 میں ایک فوجی بغاوت میں مارے گئے تھے۔ وہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے والد تھے۔ لیکن اب ان کی بیٹی کی ''بے عزتی‘‘ اور جلاوطنی نے ان کے قد کو بھی گھٹا دیا ہے۔نصاب میں اصلاحات کی ذمہ دار قومی ایجنسی کے سربراہ اے کے ایم ریاض الحسن کا شیخ حسینہ کے دور کے بارے میں کہنا ہے، ''کتابیں ایک طرح کے سیاسی منشور میں تبدیل ہو گئی تھیں۔
‘‘وہ مزید کہتے ہیں، ''یہ نصابی کتب سیکھنے کے مقاصد کو پورا نہیں کرتی تھیں۔ ہم نے انہیں دوبارہ ٹریک پر لانے کی کوشش کی ہے۔‘‘
بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کے قتل سے متعلق ناول پر پابندی
تاریخ کی نئی کتابوں میں مجیب الرحمان کی لکھی ہوئی درجنوں نظموں، تقاریر، مضامین اور ان کی بیٹی شیخ حسینہ کی تصاویر کے ساتھ حذف کر دیا گیا ہے۔
اس کی بجائے اب ان سینکڑوں افراد کے واقعات بیان کیے گئے ہیں، جو گزشتہ برس کے احتجاجی مظاہروں میں ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ سابق آرمی چیف ضیاء الرحمان کا ذکر بھی شامل کیا گیا ہے۔ ان کا مجیب الرحمان سے کوئی تعلق نہیں لیکن سن 1971 کی جنگ کے دوران بنگلہ دیش کی آزادی کا پہلا عوامی اعلان جاری کرنے کا سہرا انہیں ہی دیا جاتا ہے۔دلوں کی دھڑکنیں تیز کرتے ہوئے اسلامی رومانوی ناول
ضیاء کو شیخ حسینہ کے دور میں نصابی کتب سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ انہوں نے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی بنیاد رکھی تھی، جو ان کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت تھی۔
نصابی کتب کے صفحات پر ان کی واپسی، ان کی تخلیق کردہ سیاسی قوت کے دوبارہ سر اٹھانے کا طرف اشارہ کرتی ہے، جو اگلے سال متوقع انتخابات جیتنے کی بھرپور پوزیشن میں ہے۔کہا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے وقت ملک کی دانشور اشرافیہ کا صفایا کر دیا گیا تھا۔ قبل ازیں نصابی کتب میں لکھا ہوا تھا کہ مرکزی جماعت اسلامی نے اس وقت ملک کی آزادی کی مخالفت کی تھی اور اس نے پاکستانی افواج کے ساتھ مل کر ان ہلاکتوں کو منظم کرنے میں مدد دی تھی۔
نظر ثانی شدہ نصابی کتابوں میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ ملیشیا گروپ قتل کے ذمہ دار تھے اور اس بات کا ذکر حذف کر دیا گیا ہے کہ یہ ملیشیا مبینہ طور پر جماعت اسلامی چلا رہی تھی۔
ناقدین کی طرف سے اعتراضاتڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر مجیب الرحمان کے مطابق بظاہر جان بوجھ کر تفصیلات کو مبہم کرنے کی کوشش نے ان تبدیلیوں کے پیچھے وجوہات کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا، ''اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ عبوری حکومت چاہتی ہے کہ طلبہ اصل تاریخ سیکھیں؟‘‘ان تبدیلیوں کے بارے می ٹیکسٹ بک کمیشن کے سربراہ حسن کہتے ہیں کہ وہ ملک کے نوجوانوں کو ''نفرت کے نہ ختم ہونے والے چکر میں‘‘ نہیں پھنسانا چاہتے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''کسی نہ کسی وقت تو ہمیں مفاہمت شروع کرنا ہو گی۔ کیا ہمیں اپنی نصابی کتابوں کو نفرت سے بھر دینا چاہیے، یہ کتنا معقول ہوگا؟‘‘
ا ا/ا ب ا (اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نصابی کتب میں مجیب الرحمان نصابی کتابوں کتابوں میں بنگلہ دیش کہنا تھا گیا ہے
پڑھیں:
بھارت کے فالس فلیگ آپریشنز کی تاریخ طویل: پاکستان کو بدنام کرنے کی سازشیں بے نقاب
بھارت کی جانب سے فالس فلیگ آپریشنز کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے بارہا جھوٹے الزامات کے ذریعے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کی۔
ایسے کئی واقعات تب پیش آئے جب بھارت کو اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانی تھی یا اہم سفارتی لمحات درپیش تھے۔
جنوری 1971 میں انڈین ایئرلائنز کا ایک طیارہ اغواء کر کے لاہور لے جایا گیا تو بھارت نے فوراً پاکستان پر الزام لگا کر اس کی مشرقی پاکستان کے لیے فضائی پروازوں پر پابندی عائد کر دی۔
اسی طرح 20 مارچ 2000 کو امریکی صدر بل کلنٹن کے بھارتی دورے کے دوران مقبوضہ کشمیر میں 36 سکھوں کا قتل عام ہوا، جس پر ابتدا میں الزام پاکستان پر عائد کیا گیا، تاہم بعد میں شواہد سے ثابت ہوا کہ یہ واقعہ بھارتی فورسز کی کارستانی تھی، جس کا مقصد کلنٹن کے دورے کے دوران پاکستان کو بدنام کرنا تھا۔
بعد ازاں 13 دسمبر 2001 کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا، جس کا الزام بغیر کسی واضح ثبوت کے پاکستان پر لگا۔ اس واقعے کو بھی بھارت نے سرحد پر فوجی نقل و حرکت اور جنگی ماحول پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔
علاوہ ازیں فروری 2007 میں سمجھوتا ایکسپریس میں بم دھماکوں کے نتیجے میں 68 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی۔ اس کا الزام بھی پاکستان پر لگا لیکن بعد میں بھارتی ہندو شدت پسند تنظیموں کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے۔ اس حملے کا مقصد پاکستان اور بھارت کے درمیان امن عمل کو سبوتاژ کرنا تھا۔
ممبئی میں 2008 کے حملے فوراً پاکستان کے سر تھوپ دیے گئے، تاہم تحقیقات میں تضادات اور اے ٹی ایس کے سربراہ ہیمنت کرکرے کی مشکوک ہلاکت نے حملے کے اصل محرکات واضح کردیے۔
دسمبر 2015 میں مودی کے اچانک پاکستان دورے کے بعد جنوری 2016 میں پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملہ کیا گیا اور بھارت نے ایک بار پھر بغیر ٹھوس شواہد کے پاکستان پر الزام عائد کیا جبکہ تحقیقات سےیہ واقعہ سفارتی روابط کو سبوتاژ کرنے کی سازش ثابت ہوا۔
فروری 2019 میں پلواما میں خودکش دھماکے میں 40 بھارتی اہلکار مارے گئے۔ یہ واقعہ ایسے وقت پر پیش آیا جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کے دورے پر آنے والے تھے اور بھارت نے فوری طور پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا۔ بعد ازاں تحقیقات نے بھارت کے اس پروپیگنڈے کو بھی جھوٹا ثابت کیا۔
جنوری 2023 میں پاکستانی انٹیلیجنس نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ضلع پونچھ میں ایک جعلی کارروائی کا منصوبہ بے نقاب کیا، جسے بھارت یومِ جمہوریہ کے موقع پر انجام دینا چاہتا تھا تاکہ پاکستان پر جھوٹے دہشتگردی کے الزامات لگا سکے۔
یہ تمام واقعات ایک منظم اور مسلسل طرزعمل کی نشان دہی کرتے ہیں، جس میں بھارت نے اہم سفارتی مواقع پر پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے لیے جھوٹی کارروائیوں کا سہارا لیا۔
ان اقدامات سے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہوئے بلکہ خطے کے امن کو بھی شدید خطرات لاحق ہوئے۔