امریکا: حَیاء بمقابلہ فاحِشَہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
’’اور لوطؑ کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا، پھر یاد کرو جب اْس نے اپنی قوم سے کہا ’’کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو (فاحِشَہ) جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو‘‘۔ مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ’’نکالو اِن لوگوں کو اپنی بستیوں سے، بڑے پاکباز بنتے ہیں یہ‘‘۔ آخر ِکار ہم نے لوطؑ اور اس کے گھر والوں کو… بجز اس کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔ بچا کر نکال دیا اور اس قوم پر برسائی ایک بارش، پھر دیکھو کہ اْن مجرموں کا کیا انجام ہوا‘‘۔ (الاعراف: 80 تا 84)
ہم یہاں ایل جی بی ٹی ٹی آئی کیو (LGBTTIQ) یعنی جنسی منحرفین اور صنفی مرتدین کے عمل کے لیے عربی قرآن کی اصطلاح ’’فاحِشَہ‘‘ استعمال کر رہے ہیں۔ اور اس کے مقابلہ میں، اس کے رد میں جو لفظ استعمال کر رہے ہیں، وہ ہے ’’حیاء‘‘۔ فاحش لوگ اور با حیاء لوگوں کے درمیان ایک نئی کشمکش کا آغاز ہو چکا ہے۔
فاحِشہ کے پھیلاوْ کا اصل مقصد انسانی آبادی کا خاتمہ ہے۔ اس دنیا میں ایک شیطانی اور دجالی گروہ ایسا موجود ہے جو چاہتا ہے کہ دنیا کے انسان، آبادی کے لحاظ سے، سیاسی، معاشی، تعلیمی، اخلاقی اور روحانی لحاظ سے اور ہر لحاظ سے برباد ہو جائیں۔ انسان کائنات کا سب سے قیمتی نوع ہے۔ وہ اس کائنات کی سب سے بہترین مخلوق ہے، اور اسی قیمتی مخلوق کو شیطان ختم کرنا چاہتا ہے، اس کی ساخت کو بدل دینا چاہتا ہے۔ اس کی خدا داد صنف اور جنس کو ہی بدل دینا چاہتا ہے۔ ساری دنیا کی حکومتیں اور ریاستیں اس شیطانی قوت سے تعاون کر رہی ہیں۔
’’وہ اللہ کو چھوڑ کر دیویوں کو معبود بناتے ہیں۔ وہ اس باغی شیطان کو معبود بناتے ہیں جس کو اللہ نے لعنت زدہ کیا ہے۔ (وہ اس شیطان کی اطاعت کر رہے ہیں) جس نے اللہ سے کہا تھا کہ ’’ میں تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کر رہوں گا۔ میں انہیں بہکائوں گا ‘ میں انہیں آرزوئوں میں الجھائوں گا‘ میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے جانوروں کے کان پھاڑیں گے اور میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں ردوبدل کریں گے‘‘۔ (النساء: آیات 117 تا 119)
آبادی کو روکنے اور برتھ کنٹرول کا سب سے فعال ادارہ پلا ننڈ پیرنٹ ہوڈ (Planned Parenthood) ہے۔ یہ ادارہ امریکا میں 1914 میں قائم ہوا۔ جس کا مقصد اسقاط حمل، ضبط ولادت اور فاحشہ کلچر کا فروغ ہے تاکہ انسانی تولید کو کم سے کم کیا جا سکے۔ امریکا میں فاحش کی پہلی نیشنل آرگنائزیشن 1950 میں قائم ہوئی۔ 1980 کی دہائی میں فاحش لوگوں میں ایڈز کا مرض پھیلا۔ جس سے کچھ عرصہ کے لیے یہ لوگ پس منظر میں چلے گئے۔ لیکن بیسویں صدی کے اواخر میں ان کی سماجی قبولیت میں اضافہ ہونے لگا۔ 2011 میں امریکا کی فوجی پالیسی تبدیل ہوئی اور فاحش لوگوں کو فوج میں ملازمت کی کھلی اجازت مل گئی۔ امریکا کے سوشل کنزویٹیوز (social conservatives) نے فاحش قوت کو چند ریاستوں سے آگے نہیں بڑھنے نہیں دیا۔ لیکن فاحش قوتوں کو ایک بڑی کامیابی اس وقت ملی جب امریکا کی عدالت عظمیٰ نے 2015 میں پورے ملک میں ہم جنس شادی کو قانونی قرار دے دیا۔ 2024 کے گیلپ سروے کے مطابق امریکا کی فاحش کی آبادی 7.
یہ ہمیشہ سے اصول رہا ہے کہ منظم اقلیت ہی غالب ہوتی ہے۔ فاحش کی آرگنائزڈ کمیونٹی امریکا میں 75 سال سے زیادہ جدوجہد کر رہی ہے۔ اس نے اسکول اور تعلیم میں بہت کام کیا۔ اور ان کی ایک بڑی تعداد فزیکل اینڈ ہیلتھ ایجوکیشن کے ٹیچرز کی حیثیت سے پبلک ایجوکیشن سسٹم میں داخل ہوئی۔ امریکا کا تعلیمی نظام فاحشہ کلچر کو بچوں میں کافی کم عمری سے بے روک ٹوک پھیلا رہا ہے۔ جس سے بچوں کو بچانا آسان نہیں رہا۔ وہ والدین مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے اپنے معصوم پیارے بچوں کو پبلک اسکولز (سرکاری اسکولوں) سے ہٹا کر ان کے لیے متبادل تعلیم کا انتظام کیا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فاحِشہ کے خلاف یوروپ، اسکینڈے نیویا، اور شمالی امریکا میں سب سے زیادہ مزاحمت بھی یو ایس اے میں ہی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جینڈر کے حوالے سے صاف گوئی اور واضح پالیسی سے تمام مذہبی طبقہ اور روایتی خاندان میں امید کی ایک نئی کرن جاگی ہے۔ عیسائیوں کی ایک بڑی مذہبی آبادی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی بھرپور حمایت کی ہے۔ اس بار سینیٹ اور ہائوس آف ریپرنزیٹیٹیو دونوں میں ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کی اکثریت ہو چکی ہے۔ چنانچہ اب ان کے لیے مشکل نہیں کہ وہ یہ کام نہ کر سکیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے آتے ہی صدارتی آرڈر کے ذریعہ یہ اعلان کر دیا ہے کہ امریکی ریاست صرف دو صنف کو مانتی ہے، مرد اور عورت، امریکا کسی تیسری صنف کو قبول نہیں کرتا۔ امریکی صدر کے اس اعلان کے بعد کینیڈا اور ساری دنیا کی پرو لائف اور حیاء موومنٹ کو طاقت ملی ہے دنیا بھر کے وہ تمام لوگ جو امریکا ہی کو فالو کرتے ہیں وہاں بھی یہ طاقتیں مضبوط ہوں گی۔
ہماری دعاوْں میں ایک دعاء یہ شامل ہے کہ یا اللہ امریکا کی فوجی طاقت کو، امریکا کی سیاسی طاقت کو، امریکا کی معاشی قوت کو، امریکا کی علمی قوت کو اور امریکا کی تنظیمی صلاحیت کو، ساری دنیا میں اسلام کے غلبہ کے لیے استعمال کر لے۔ حرمین کے ہر سفر میں میں نے یہ دعاء مانگی۔ آپ بھی اس دعاء کواپنا معمول بنا لیں۔ لیکن دعاوْں کی مقبولیت مشروط ہے اس بات پر کہ ہم اس کے لیے کیا اور کیسی کوشش کرتے ہیں۔
سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم اپنے دل سے انسانوں کا اور کسی حکومت اور ریاست کا ڈر، خوف اور بھے اور ہر قسم کے دنیاوی لالچ کو نکال دیں، اور صرف اور صرف اللہ کا ڈر، اللہ کے تقویٰ کو اپنے اندر سمیٹیں، اور جنت کی خواہش اور اللہ سے بہترین حالت میں ملاقات کی تڑپ پیدا کریں۔ ہمیں اس ملک میں امر بالمعروف و نہی عنی المْنکر کا فریضہ انجام دینا ہے، بھلائی کا حکم دینا ہے، اور برائیوں سے روکنا ہے۔ ہمیں لوگوں کو بتانا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔ اس کے لیے ہمیں پرامن لیکن متحرک اور منظم جدوجہد کرنی ہوگی۔ ہم سب اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں۔ اپنے اندر صلاحیت بھی پیدا کریں اور صالحیت بھی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: امریکا میں میں انہیں امریکا کی چاہتا ہے اور اس کے لیے
پڑھیں:
تجدید وتجدّْ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-9
4
مفتی منیب الرحمن
اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔
معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔
ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔
قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔
اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔
ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔
(جاری)