پوری دنیا کی نظریں بشمول پاکستان اس وقت امریکہ پر گڑی ہیں، کم و بیش ہر ملک کی خارجہ پالیسی ”سپر پاور“ کے صدر کی حرکات و سکنات پر منحصر ہے، بالخصوص جنوبی ایشیا کئی کروٹیں دیکھنے کو بے تاب ہے، ایک طرف امریکہ نے COMCASA, LEMOA اور QUAD جیسے معاہدے کر کے بھارت سے روابط استوار کیے ہیں تو دوسری جانب ISIS سر اٹھانے لگی ہے، طالبان جہاں افغان سرزمین اپنے قابو میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہیں ہلکی آنچ پر داعش کی موجودگی ایک د±کھتی رگ ہے، پھر پاکستان جو”دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ“میں امریکہ کا پارٹنر رہا اور اب چین سے اقتصادی روابط بڑھا رہا ہے تو دنیا کا سٹیج آنے والے وقتوں میں کافی دلچسپ جوڑ توڑ دیکھنے کو بے تاب ہے اور ایسے حالات میں ایک عقل کی دشمن قوم ایسی بھی ہے جسے لگتا ہے کہ شاید ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کا واحد مقصد ایک قیدی کی رہائی ہے۔
ہم سب تاحال اس میں الجھے ہیں کہ امریکہ کے حوالے سے ہم جو چاہتے ہیں وہ ہوگا یا نہیں، ہم میں سے شاید ہی یہ غور کسی نے کیا ہو کہ امریکہ کیا چاہتا ہے ؟ کیونکہ ہونا تو آخر میں وہی ہوتا ہے۔ تو بھیا جی حضرتِ ٹرمپ نے جب سے دفتر سنبھالا ہے تب سے ہر کسی نے سماجی رابطے بنانے کی کوشش کی ہے اور دوسری طرف ٹرمپ نے پہلی تقریر میں کہہ چھوڑا کہ جی مجھے فلاں فلاں چار ملکوں کے فلاں فلاں سربراہان کی مبارک بادوں کی کالز موصول ہوئیں۔ اب یہ بتانے کا مقصد حضرت ٹرمپ کا یہ ہے کہ ان کے لیے کون سے فلانے فلانے اہم ہیں ، دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو اس وقت بھی اقتدار میں تھے جب ٹرمپ پچھلی مرتبہ صدر بنے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی پچھلی صدارت میں چند دلچسپ و عجیب اقدامات کیے، پہلے انہیں دیکھ لیتے ہیں، پھر متوقع اقدامات پہ قیاس آرائیاں کرتے ہوئے ایک بیوقوف گروہ کی ذہنی اختراعات اور جالے بھی صاف کر چھوڑیں گے۔ تو قبلہ صدر ٹرمپ نے اپنے پچھلے دورِ حکومت میں ایران نیوکلیئر ڈیل جسے عرفِ عام میں JCPOA کہا جاتا ہے سے رشتے ناتے توڑ لیے اور ایران کے گرد sanctions کا گھیرا تنگ کر دیا، اگر بات کی جائے ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے دنیا بھر کے اقدامات کی تو صدر ٹرمپ سرے سے ماحولیاتی آلودگی کو حقیقت ماننے سے منحرف ہو گئے، پھر اقتصادیات کو دیکھیں تو انہیں نے ایک نعرہ بلند کیا "Let us Make America Great again”© اور ساتھ ہی ساتھ چائنہ کے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کو ٹکر دینے کے لیے ”برنگ بیک بیٹر ورلڈ“ لانچ کر دیا، چینی پراڈکٹس پر ٹیکس بڑھا کر”پروٹیکشنسٹ پالیسیوں“ کا نفاذ کیا، اور امتِ مسلمہ کے حوالے سے جو سب سے زیادہ تکلیف دہ قدم اٹھایا وہ تھا اسرائیل کے دارالحکومت کی تبدیلی۔۔۔۔ پھر TPP جیسے اقتصادی فورم سے پیچھے ہٹنا اور ریفیوجی کرائسز چند ایک نادر کارنامے ہیں۔
اب اگر آنے والے وقتوں کو دیکھا جائے تو ایک بار پھر سے امریکہ کی روس اور چین سے رسہ کشی دیکھنے کو ملے گی، خطے میں جو معاشی اور عسکری تعاون بھارت سے دیکھنے کو ملے گا اس دوڑ میں شاید پاکستان کہیں بہت پیچھے نظر آئے۔ ویسے بھی بھارت اور امریکہ آپس میں انگنت عسکری معاہدے کر چکے ہیں جیسے کہ COMCASA, LEMOA, QUAD وغیرہ۔ اور اب تو بھارت نے hypersonic missile بھی حاصل کر لیا ہے جس کا حصول پاکستان کے لیے فی الحال ندارد۔۔۔ اب یہاں نہ صرف خطے کا”بیلنس آف پاور“متزلزل ہوا ہے بلکہ وطنِ عزیز کے لیے اس مخصوص ہتھیار کے اعتبار سے ”سکیورٹی ڈائلاما“بھی پیدا ہوا ہے۔
سونے پہ سہاگہ افغان سرزمین پر سر اٹھاتے داعش نے کر دیا ہے، یہ ساری صورتحال جہاں ایک طرف خطے کے امن کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے وہیں بین الاقوامی سطح پر وطنِ عزیز کی اہمیت کے بڑھ جانے کے امکانات بھی ظاہر کرتی ہے۔ خطے کی معیشت پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں CPEC کے مقابلے میں IMEC (India-Middle East- Europe Economic Corridor) دکھائی دیتا ہے- قارئین کی سہولت کے لئے سمجھاتی چلوں کہ اس اقتصادی راہداری کا مقصد یہ ہے کہ ایک بیڑہ سامان لاد کر بھارت سے نکلے اور عرب امارات جا پہنچے، پھر ریل کے رستے وہی سامان اردن سے گزرتا ہوا اسرائیل جائے، وہاں پھر سے پانیوں کے رستے یونان پہنچے اور سیدھا جا کر یورپی مارکیٹ کی زینت بنے۔ اس راہداری سے پہلے جو روایتی رستہ اپنایا جاتا تھا وہ پاک بھارت سے ایران، ایران سے ترکی اور ترکی سے یونان جایا کرتا تھا۔ معیشت کے معاملے میں تو امریکہ کا جھکاو¿ بھارت کی طرف ہی جائے گا لیکن اگر”سلطنتوں کے قبرستان“میں ISIS نے جڑ پکڑ لی تو بہر صورت امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑے گی، اور میرے ناقص علم کے مطابق پاکستان کو اس وقت ضرورت ہے اپنے ”military muscle “ کو مضبوط کرنے اور ترجیحی بنیادوں پر ہائپر سونک میزائل حاصل کرنے کی۔
رہ گئی بات قیدی کو چھڑانے کی تو یہ ایک پراپوگینڈہ کے تحت جذباتی عوام کے ذہن میں ڈالی جانے والی اختراع کے سوا اور کچھ نہیں۔ پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا صدر ٹرمپ کو خطے میں ہم سے کوئی کام پڑتا بھی ہے یا نہیں؟ با لفرض کام پڑ گیا تو کیا موجودہ سیاسی و عسکری نظام صدر ٹرمپ کے تحفظات پر عمل پیرا ہونے سے انکاری ہو گا؟ اور پھر اس صورت میں جا کر امریکہ کو کسی قیدی کو منظرِ عام پر لانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اگر نوبت یہاں تک آ ہی جائے تو ہمیں امریکہ کی گزشتہ روایات اور قیدی کے یو ٹرنز سے مزین تاریخ بھی دیکھنا ہو گی۔ امریکہ جب کبھی کسی معاہدے میں ہاتھ ڈالتا ہے تو اس پختگی سے ڈالتا ہے کہ پھر منحرف ہونے والی کو اتنے قریب سے جا گولی لگتی ہے جہاں پرندہ پر مارنے کا تصور نہیں کر سکتا، رہ گئی بات خان صاحب کی تو ان کا وتیرہ ہے یو ٹرن، اب جو عوام اس انہونی کے پیشِ نظر بھنگڑے ڈال رہے ہیں کہ شایہ ان کا لیڈر پھر سے راج کرے گا کوئی ان معصوموں کو بتلائے گا کہ یہ سٹنٹ ان کے لیڈر کے لیے جان لیوہ ثابت ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ ۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: دیکھنے کو بھارت سے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان اور بھارت خود ہی کسی نہ کسی طرح اپنے تعلقات دیکھ لیں، ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت خود ہی کسی نہ کسی طرح اپنے تعلقات دیکھ لیں گے، ان دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی کشیدگی پر اب امریکی صدر ٹرمپ کا ردِ عمل بھی سامنے آگیا ہے۔
امریکی صدر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت تناؤ کاحل خود کسی نہ کسی طرح نکال لیں گے۔
پہلگام حملے کو بھارتی حکومت کی سازش قرار دینے پر...
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے، دونوں ملک کسی نہ کسی طرح اس کا حل نکال لیں گے، دونوں ممالک کے رہنماؤں کو جانتا ہوں۔
اس موقع پر صدر ٹرمپ نے پاک بھارت رہنماؤں سے رابطہ کرنے کے سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔
اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے مقبوضہ کشمیر میں دہشتگردی کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے زور دیا تھا کہ اس واقعہ میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے پریس بریفنگ میں کہا کہ ہم ان لوگوں کے لیے دعاگو ہیں جن کے عزیز اس واقعہ میں مارے گئے اور دعاگو ہیں کہ زخمی جلد صحت یاب ہوں۔
اس سوال پر کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے لیے کردار کی خواہش ظاہر کی تھی، ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس نے کہا کہ وہ اس معاملے پر تبصرہ نہیں کریں گی۔
اس سوال پر کہ آیا ٹرمپ انتظامیہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی کشیدگی کم کرانے کے لیے کوئی کردار ادا کررہی ہے؟
ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے اور ہم اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور یقینی طور پر اس وقت ہم کشمیر یا جموں کے اسٹیٹس پر کوئی مؤقف نہیں اپنا رہے۔
واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 26 بھارتی سیاحوں کے قتل کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ بڑھ گیا ہے۔
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی سمیت کیے جانے والے اقدامات پر پاکستان نے بھی بھرپور جواب دیا ہے۔