پاکستان میں طوطوں کی مقامی نسلیں بقا کے خطرے سے دوچار
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 فروری 2025ء) ماہرین جنگلی حیات کہتے ہیں درجہ حرارت میں تبدیلی، شدید موسمی حالات، بارشوں کی غیر متوقع ترتیب اور جنگلات کی کٹائی نے مخلتف انواع کے پرندوں کے قدرتی مسکن کو متاثر کیا ہے، جن میں طوطے بھی شامل ہیں۔
طوطوں کا تولیدی موسم اور موسمیاتی تبدیلیاںماہرین کے مطابق زیادہ تر پرندوں کے لیے بہار کا موسم افزائش نسل کے لیے موزوں ہوتا ہے۔
تاہم اگر موسم میں غیر متوقع تبدیلیاں آئیں، جیسا کہ شدید گرمی یا طویل خشک سالی تو اس سے ان کے افزائش نسل کے طریقہ کار یا انداز اور خوراک کی دستیابی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ماہرِ جنگلی حیات ڈاکٹر مہربان علی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عام طور پر ہر نسل کے پرندوں کا ایک مخصوص وقت ہوتا ہے جب وہ افزائش نسل کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو خوراک فراہم کرتے ہیں، "طوطوں کی افزائش کا بھی مخصوص وقت ہے اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اگر پھل وقت سے پہلے پک جائے اور جھڑ جائے تو جب طوطوں کے بچے پیدا ہوں گے تو انہیں ضروری خوراک میسر نہیں آئے گی۔
(جاری ہے)
اس طرح ان کی بقا پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔"ڈاکٹرعلی کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کا براہِ راست اثر خوراک کے سلسلے (فوڈ چین) پر پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، زیادہ گرمی کی وجہ سے درختوں پر پھل کم آئیں گے اور اگر کوئی پھل لگ بھی جائے تو وہ جلدی پک جائے گا۔ طوطوں کی خوراک کا دارومدار موسمی پھلوں پر ہی ہوتا ہے۔
پاکستان میں طوطوں کی کتنی اقسام ہیں؟ڈاکٹر مہربان علی نے بتایا کہ پاکستان میں مختلف اقسام کے طوطے پائے جاتے ہیں، جن میں چار خاص طور پر نمایاں ہیں، "روز رِنگڈ پیرٹ پورے پاکستان میں پایا جاتا ہے جبکہ الیگزینڈرائن پیرٹ زیادہ تر پاکستان اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں ملتا ہے۔
پلم ہیڈڈ پیرٹ کا مسکن زیادہ تر شمالی پاکستان، گلیات اور جہلم کے آس پاس ہے۔ جبکہ سلیٹی ہیڈڈ پیرٹ کی موجودگی بھی جہلم اور اس سے متصل علاقوں میں دیکھی گئی ہے۔" طوطوں کی تعداد میں کمی کے عواملگلوبل کلائمیٹ چینج اسٹڈیز سینٹر کے کوآرڈینیشن کے سربراہ عارف گوہیر نے طوطوں کی تعداد میں کمی کے مختلف عوامل کی نشاندہی کی ہے۔
ان کے بقول پرندوں کی غیر قانونی تجارت، سرسبز علاقوں کی کمی، کیڑے مار ادویات کا بڑھتا ہوا استعمال اور طوطوں کی پسندیدہ فصلوں کی قلت اس کمی کی اہم وجوہات میں شامل ہیں۔ عارف گوہیر نے کہا کہ طوطوں کو خلیجی ممالک، بالخصوص متحدہ عرب امارات میں غیر قانونی طور پر اسمگل کیا جاتا ہے، جہاں ان کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ڈاکٹر مہربان علی نے کہا کہ جنگلات کی کٹائی پاکستان میں طوطوں کی آبادی کے لیے ایک اور بڑا چیلنج ہے اور یہ خطرہ ہر کسی کی نظروں سے اوجھل ہو رہا ہے، "یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان بھر میں جنگلی حیات کے محکمے پرندوں کو انسانی اور موسمی اثرات سے بچانے کے ذمہ دار ہیں۔
تاہم قوانین کی موجودگی کے باوجود طوطوں کی غیر قانونی اسمگلنگ اور شکار، جس میں اکثر محکمے کے اہلکار ملوث ہوتے ہیں، طوطوں کی آبادی میں کمی کا سبب بننے والے اضافی خطرات ہیں۔"اسلام آباد کے لیک ویو پارک میں طوطوں کی تجارت کرنے والے محمد اسلم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے مقامی طوطوں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
ان کے بقول تاہم، اسمگلنگ کے باعث یہ پابندی مؤثر ثابت نہیں ہو پا رہی، "ہوائی اڈوں پر خصوصی ماہرین تعینات کیے جائیں تاکہ طوطوں کی غیر قانونی سمگلنگ کو روکا جا سکے۔" ان کا کہنا ہے کہ طوطوں کو قید میں رکھنا ان کی صحت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ طوطوں کی بقا کے لیے ممکنہ حل کیا ہیں؟ماہرین کے مطابق جنگلات کی کٹائی کو روکنا اور طوطوں کے قدرتی مسکن کو محفوظ بنانا ضروری ہے تاکہ ان کے گھونسلے اور خوراک کے ذرائع متاثر نہ ہوں۔
اس کے ساتھ ہی جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف سخت قوانین کا نفاذ بھی ناگزیر ہے۔ مزید برآں، پائیدار زرعی طریقوں کا فروغ ضروری ہے تاکہ کیڑے مار ادویات کے اثرات کو کم کیا جا سکے، جو طوطوں کی خوراک اور صحت پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔عوامی آگاہی مہمات بھی ضروری ہیں تاکہ شہریوں کو طوطوں کے تحفظ کی اہمیت بارے آ گاہ کیا جا سکے اور انہیں ذمہ داری کا احساس ہو۔
ماہرین کا کہنا ہے پاکستان میں طوطوں کی مقامی نسلوں کے تحفظ کے لیے اجتماعی کوششیں ضروری ہیں۔ تحقیق کا فقدانماہرِ جنگلی حیات ڈاکٹر مہربان علی نے کہا کہ پاکستان میں ابھی تک کوئی جامع تحقیق اس موضوع پر نہیں ہوئی کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا پرندوں پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ البتہ ایک عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں خاص طور پر پیرٹس (طوطوں) پر اثر ہو انداز ہو رہی ہیں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان میں طوطوں کی ڈاکٹر مہربان علی نے کی غیر قانونی جنگلی حیات کے لیے
پڑھیں:
پرائم استعمال کرنے والے صارفین کے اکاؤنٹس خطرے میں، ایمازون نے خبردار کردیا
دنیا بھر میں ایمازون پرائم کے کروڑوں صارفین ایک نئی قسم کے آن لائن فراڈ کا شکار بن رہے ہیں، جس میں اسکیمرز جعلی پیغامات کے ذریعے ذاتی معلومات اور مالی تفصیلات چرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حالیہ رپورٹس کے مطابق ایمازون پرائم نے اپنے 220 ملین عالمی پرائم صارفین کو خبردار کیا ہے کہ اسکیمرز (فراڈ کرنے والے) ایمازون کے اہلکاروں کا روپ دھار کر پرائم صارفین کو جعلی ای میلز اور فون کالز کے ذریعے نشانہ بنا رہے ہیں تاکہ ان کی لاگ اِن تفصیلات، بینک معلومات، اور حتیٰ کہ سوشل سیکیورٹی نمبرز بھی چرائے جا سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: زیرو سے شروع کرنیوالے ایمازون سے ماہانہ کتنا کماتے ہیں؟
ان حملوں میں اضافے کے بعد ایمازون اور سائبر سیکیورٹی ماہرین نے اپنے سبسکرائبرز کو الرٹ جاری کیے ہیں۔ جبکہ ہزاروں جعلی ویب سائٹس اور فون نمبرز بند کیے جا چکے ہیں۔
ایمازون نے اس مہینے کے شروع میں ایک ای میل الرٹ میں کہا کہ صرف 2024 میں، ایمازون نے 55,000 سے زائد فِشِنگ سائٹس اور 12,000 فون نمبرز کو ہٹایا جو فراڈ میں ملوث تھے۔ زیادہ تر اسکیمز جعلی آرڈر کنفرمیشن یا اکاؤنٹ کے مسائل کے بارے میں پیغامات پر مشتمل ہوتی ہیں جن کا مقصد صارفین سے حساس معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے۔
کچھ جعلی ای میلز میں صارفین کو غیر متوقع چارجز سے خبردار کیا جاتا ہے اور صارفین کو کہا جاتا ہے کہ ان کی پرائم سبسکرپشن مہنگے نرخوں پر خودبخود تجدید ہو رہی ہے۔ ان پیغامات میں اکثر ایک لنک ہوتا ہے جس پر لکھا جاتا ہے ’سبسکرپشن منسوخ کریں‘ جو کہ ایک جعلی ایمازون لاگ ان صفحے پر لے جاتا ہے۔ وہاں لاگ اِن معلومات دینے والے صارفین نہ صرف اپنے ایمازون اکاؤنٹ کا رسک لیتے ہیں بلکہ دیگر اکاؤنٹس بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں اگر ان کے پاسورڈز ایک جیسے ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: کیلیفورنیا میں خاتون کا گھر اَن چاہے ایمازون پارسلز سے بھر گیا
ایمازون کے نائب صدر برائے سیلنگ پارٹنر سروسز دھرمیس مہتا نے نیو یارک پوسٹ کو بتایا کہ ایمازون کا روپ دھارنے والے اسکیمرز صارفین کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اگرچہ یہ دھوکہ دہی ہماری سائٹ کے باہر ہوتی ہے لیکن ہم صارفین کے تحفظ اور آگاہی پر مسلسل سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
ایمازون نے اسکیمز کی پانچ عام اقسام کی نشاندہی کی ہے جس میں پرائم ممبرشپ اسکیمز، اکاؤنٹ معطلی الرٹس، جعلی آرڈر کنفرمیشنز، ٹیک سپورٹ فراڈ اور جعلی نوکری کی آفرز ہیں۔
ایمازون کے مطابق وہ کبھی بھی فون یا ای میل پر ادائیگی کی معلومات یا گفٹ کارڈز طلب نہیں کرتا۔ اب وہ جی میل اور یاہو ان باکسز میں ویری فائیڈ لوگو آئیکنز جیسے نئے فیچرز بھی لا رہا ہے تاکہ اصلی ای میلز کی پہچان آسان ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیں: چولستان کے امام مسجد کا بیٹا ایمازون سے کروڑوں روپے کیسے کمانے لگا؟
ایمازون کے صارفین کو محفوظ رہنے کے لیے چند ہدایات بھی دی گئی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ صرف ایمازون کی ایپ یا آفیشل ویب سائٹ کے ذریعے لاگ ان کریں۔ ایمازون کے میسج سینٹر میں اصلی پیغامات چیک کریں۔ سیکیورٹی سیٹنگز میں ٹو-اسٹیپ ویریفیکیشن آن کریں اور مشتبہ پیغامات فوراً ایمازون کو رپورٹ کریں۔
فوربس کی رپورٹ کے مطابق، صرف ٹیکسٹ پر مبنی ’ریفنڈ اسکیمز‘ میں ہی گزشتہ دو ہفتوں میں 50 گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ امریکہ اور یورپ میں ان حملوں کی شدت اب ’قابو سے باہر‘ ہو چکی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایمازون ایمازون پرائم سائبر حملہ