Express News:
2025-07-26@14:20:07 GMT

زندہ سول سوسائٹی کا خواب

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

قومیں کیوں ناکام ہو جاتی ہیں ؟چند سال قبل ڈیرک ایجے مولو اور پروفیسر رابنسن کی لکھی اس کتاب نے دنیا بھر میں خوب شہرت پائی۔مصنفین نے کئی صدیوں پر محیط سیاسی ، معاشی اور معاشرتی لٹریچر کی عرق ریزی کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اجتماعی شرکت پر استوار سیاسی اور معاشی ادارے قوموں کی خوشحالی کا باعث بنتے ہیں۔

جب کہ استحصال پر استوار قومی ادارے ناکامی اور غربت کی طرف دھکیلنے کا سبب بنتے ہیں۔گزشتہ 50/60 سالوں کے دوران دنیا میں حیرت انگیز، انہونی اور انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ جن معاشروں نے ان تبدیلیوں کو بروقت بھانپ لیا اور اپنے اپ کو ان تبدیلیوں کے لیے تیار کر لیا، وہ ترقی کی شاہراہ پر صدیوں کا سفر عشروں میں طے کر گئے۔چین ،ویتنام ،جنوبی کوریا، تائیوان، سنگاپور اور ہانگ کانگ کی مثالیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ پچاس ساٹھ سال پہلے ان قوموں کے حالات کیا تھے اور آج کیا ہیں!

پاکستان کو آزاد ہوئے 76 برس ہو چکے۔ ہر گزرتے سال یہ سوال بار بار زیر بحث آتا ہے کہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر اپنا سفر مستقل مزاجی کے ساتھ کیوں طے نہیں کر پایا؟ معاشرے میں عدم استحکام ،عدم توازن اور انتشار کی کیفیت کیوں ہے؟ سول سوسائٹی میں قانون کی حکمرانی نہیں، سیاست کا عمل اجتماعیت کے بجائے سیاسی خانوادوں اور ریاست کے طاقت کے دیگر مراکز کے ساتھ سمجھوتوں پر استوار ہو گیا ہے۔

سیاسی عمل میں روپے پیسے اور سمجھوتوں کا راستہ محفوظ جب کہ اصول اور بے لچک عوامی موقف کا راستہ خارزار ہے۔اکثر سوال اٹھتا ہے کہ ہمارے دانشور ایسی صورت حال میں قابل عمل موثر حل تجویز کیوں نہیں کرتے؟ اپنے تئیں کئی دانشور سول سوسائٹی کی رہنمائی کا کردار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ کامیاب اور کچھ تاریک راہوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔

اسلم گورداسپوری اسی قافلے کے ایک قابل ذکر اور روشن خیال کردار رہیں۔اوائل جوانی سے انھوں نے شاعری، عملی سیاست اور قلمی سفر کا آغاز کیا۔ وہ پیپلز پارٹی کے بانیوں اور ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے دانشور ساتھیوں میں سے ایک ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں ’’شاعر عوام‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ اسلم گورداس پوری سیاست، فلسفے ،شاعری اور عوامی حقوق کی جہد مسلسل کا منفرد اور ممتاز نام ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ سیاست و سماج کے علاوہ فلسفے میں بھی ان کی گہری دلچسپی ہے۔

ان کی تازہ ترین کتاب سول سوسائٹی اور دانشوروں کا کردار ان کی فکری زندگی کا نچوڑ ہے۔گزشتہ ہفتے ان کی اس کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی۔( اس کتاب کو جمہوری پبلکیشنز لاہور میں شایع کیا ہے)انھوں نے یونانی اور بعد کے زمانوں کے نامی فلسفیوں ، سیاسی نظریات ، سیاسی تحریکوں اور تاریخی واقعات کے مطالعے اور غور و فکر کے بعد یہ فکر انگیز کتاب تحریر کی ہے۔

کتاب کا بیشتر حصہ سول سوسائٹی کی تشکیل اور مختلف ادوار کے نظریات پر مشتمل ہے۔ اس پس منظر اور جائزے کی بنیاد پر انھوں نے ایک کامیاب سول سوسائٹی کے خدو خال واضح کیے ہیں اور پاکستانی معاشرے میں موجود عدم استحکام ، عدم توازن اور انتشار کا حل تجویز کرنے کی کوشش کی ہے۔

چند اقتباسات نمونے کے طور پر۔۔انسانی تہذیبوں کا سلسلہ ہزاروں لاکھوں سال پرانا ہے۔ سول سوسائٹی کی بات کا تصور دنیا میں اس وقت پیدا ہوا جب دنیا کے ملکوں میں کسی نہ کسی حوالے سے ملکوں جمہوری اقتدار کی حکمرانی کا سلسلہ مرحلہ وار شروع ہوا۔ ہر چند کے وہ جمہوری نظام آج کے جمہوری نظام حکومت سے قطعی مختلف اور محدود پیمانے پر تھا۔ قدیم ایتھنز کی محدود جمہوریت کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مکمل جمہوری ریاست یا جمہوری نظام حکومت ریاست میں فکری ازادی کے بغیر ممکن نہیں۔

جمہوری معاشرے یعنی سول سوسائٹی کے لیے فلسفیوں کی طرح دانشوروں، شاعروں، مصوروں، تاریخ دانوں اور فلسفی سیاست دانوں کا ہونا از حد ضروری ہے۔ آج کے عہد میں ہر سول سوسائٹی یا جمہوری معاشرے کے لیے سائنس دانوں اور پروفیشنل علم و تعلیم کا ہونا بے حد ضروری ہے کہ ان ماہرین کے زیر اثر کسی بھی معاشرے میں بادشاہی یا شخصی یا فوجی اقتدار کی ہرگز کوئی ضرورت یا گنجائش ہو ہی نہیں سکتی۔

دنیا میں سول سوسائٹی کے معلم اور معمار فلسفی سیاست دان ہی ثابت ہوئے ہیں جو اپنے عوام اور اپنے معاشرے میں سیاسی معاشی ،ثقافتی اور جمہوری آزادیوں میں برابری کے اصولوں کے اقتدار اور حکومت کے اصول رکھتے ہوں عوام کی رائے کے تابع فرمان ہوں۔

فلسفی دانش وروں کے مطابق ریاست ایک مکمل اکائی کی حیثیت رکھتی ہے جس کے متحرک ادارے ہوتے ہیں۔ سب سے افضل ریاست کا قانون ساز ادارہ ہوتا ہے۔دوسرے نمبر پر عدلیہ کا ادارہ ہے۔ اس کے بعددیگر پیداواری شعبے آتے ہیں۔

اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ آخر دنیا کے مسلمانوں کی عزت کیوں نہیں ہوتی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں ان قوموں کا عزت و احترام ہے جو دنیا کی تہذیب و تمدن میں اضافہ کرتی ہیں۔اسلم گورداسپوری کے مطالعے اور سیاسی شعور کا حاصل یہ کتاب پاکستانی سول سوسائٹی کے بنیادی مسائل کا انتہائی علمی اور تاریخی محاکمہ اور آگے بڑھنے کی دانشمندانہ تجاویز پر مبنی یے۔ ضرورت ہے کہ اس موضوع پر ایسی مزید کتابیں لکھی اور پڑھی جائیں تاکہ سر شام ٹی وی اسکرینوں ہر سجنے والی انفوٹینمنٹ اور سوشل میڈیا پر مچی بے معنی ہاہاکار سے ہٹ کر سول سوسائٹی کی بہتر تشکیل پر غور وفکر کی نوبت آ سکے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سول سوسائٹی کے سول سوسائٹی کی دنیا میں ہے کہ ا

پڑھیں:

ضم شدہ اضلاع میں روزگار اور تعلیم کی فراہمی اور غربت کے خاتمے تک امن قائم نہیں ہوسکتا، چیئرمین سینیٹ

چیئرمین سینیٹ اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ جب تک ضم شدہ اضلاع میں روزگار اور تعلیم فراہم نہیں کی جائے گی، غربت ختم نہیں ہوگی، امن قائم نہیں ہوسکتا۔

چیئرمین سینیٹ  اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ضم شدہ اضلاع کے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو ہم نے کہا کہ اس کے خلاف جدوجہد جہاد ہے۔ اس وقت 35 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔ پاکستان میں مقیم مہاجرین کی تعداد بھی 35 لاکھ ہے۔ دنیا افغان مہاجرین کو بھول چکی ہے حالانکہ وہ انہیں اپنے ممالک میں بسانے کے وعدے کرتے تھے۔ہماری قربانیاں بھی ان کو یاد نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے کئی ملکوں کو اس وقت امن و امان کا مسئلہ درپیش ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں امن خراب کیا جارہا ہے۔ غزہ، فلسطین اور افغانستان کے حالات دیکھ لیں۔اس وقت دنیا میں کئی جگہوں پر جنگ چل رہی ہے۔ پاکستان دہشتگردی کا سب سے زیادہ شکار ہوا۔ پاکستان نے دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ افواج پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف کامیاب آپریشن کیے۔

سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میں کئی برسوں سے امن کے لیے کام کر رہا ہوں۔ میں پوری دنیا میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنسز میں جاتا ہوں۔ حال ہی میں وینس میں امن کانفرنس میں شریک ہوا۔

انہوں نے کہا کہ میرے دور وزارت عظمیٰ میں سوات میں آپریشن کیا، یہ آپریشن تمام سیاسی جماعتوں، اسٹیبلشمنٹ کی مشاورت اور مشران کے تعاون کے ساتھ کیا گیا۔ اس دوران 25 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے، ہم نے انہیں 90 روز کے اندر دوبارہ ان کے گھروں میں بسایا۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔

چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ جنگ کا نہ ہونا امن نہیں ہے بلکہ انصاف کا ہونا امن ہے۔ اگر انصاف نہیں ہوگا تو امن نہیں آئے گا۔ حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ ملک میں امن قائم کرے۔اس وقت سب سے زیادہ مسائل افغانستان اور بھارت کی سرحد پر ہیں۔ جہاں دہشتگردی ہوتی ہے تو اس کی بنیاد دیکھنی چاہیے۔اس کی بنیاد غربت، افلاس، ناخواندگی اور پسماندگی ہے۔اس لیے جب تک آپ لوگوں کو روزگار فراہم نہیں ہوگا، تعلیم نہ دی، آپ کی غربت ختم نہ کی جائے، اس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے قبائلی عمائدین سے وعدہ کیا کہ وہ ان کے مطالبات صدر مملکت، وزیراعظم اور آرمی چیف کو پہنچائیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کی بھارتی پولیس کے ہاتھوں نوجوان کے بہیمانہ قتل کی مذمت
  • ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا
  • یہ کوئی نرسری نہیں، یہ رنگوں اور خوشبوؤں کی ایک دنیا ہے
  • صدر آصف علی زرداری اتحاد، خودمختاری اور جمہوری استحکام کے علمبردار
  • غزہ کی مائیں رات کو اُٹھ اُٹھ کر دیکھتی ہیں ان کے بھوکے بچے زندہ بھی ہیں یا نہیں
  •   خواب ہے سائلین اعتماد کے ساتھ حصول انصاف کے لیےعدالت آئیں : چیف جسٹس
  • بی ایم ڈبلیوگاڑیوں کے خریداروں کے لیے خوشخبری! قیمتوں میں لاکھوں کی کمی
  • ضم شدہ اضلاع میں روزگار اور تعلیم کی فراہمی اور غربت کے خاتمے تک امن قائم نہیں ہوسکتا، چیئرمین سینیٹ
  • دہشتگردی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے: عطا تارڑ
  • دہشتگردی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے، عطا تارڑ