زندہ سول سوسائٹی کا خواب
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
قومیں کیوں ناکام ہو جاتی ہیں ؟چند سال قبل ڈیرک ایجے مولو اور پروفیسر رابنسن کی لکھی اس کتاب نے دنیا بھر میں خوب شہرت پائی۔مصنفین نے کئی صدیوں پر محیط سیاسی ، معاشی اور معاشرتی لٹریچر کی عرق ریزی کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اجتماعی شرکت پر استوار سیاسی اور معاشی ادارے قوموں کی خوشحالی کا باعث بنتے ہیں۔
جب کہ استحصال پر استوار قومی ادارے ناکامی اور غربت کی طرف دھکیلنے کا سبب بنتے ہیں۔گزشتہ 50/60 سالوں کے دوران دنیا میں حیرت انگیز، انہونی اور انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ جن معاشروں نے ان تبدیلیوں کو بروقت بھانپ لیا اور اپنے اپ کو ان تبدیلیوں کے لیے تیار کر لیا، وہ ترقی کی شاہراہ پر صدیوں کا سفر عشروں میں طے کر گئے۔چین ،ویتنام ،جنوبی کوریا، تائیوان، سنگاپور اور ہانگ کانگ کی مثالیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ پچاس ساٹھ سال پہلے ان قوموں کے حالات کیا تھے اور آج کیا ہیں!
پاکستان کو آزاد ہوئے 76 برس ہو چکے۔ ہر گزرتے سال یہ سوال بار بار زیر بحث آتا ہے کہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر اپنا سفر مستقل مزاجی کے ساتھ کیوں طے نہیں کر پایا؟ معاشرے میں عدم استحکام ،عدم توازن اور انتشار کی کیفیت کیوں ہے؟ سول سوسائٹی میں قانون کی حکمرانی نہیں، سیاست کا عمل اجتماعیت کے بجائے سیاسی خانوادوں اور ریاست کے طاقت کے دیگر مراکز کے ساتھ سمجھوتوں پر استوار ہو گیا ہے۔
سیاسی عمل میں روپے پیسے اور سمجھوتوں کا راستہ محفوظ جب کہ اصول اور بے لچک عوامی موقف کا راستہ خارزار ہے۔اکثر سوال اٹھتا ہے کہ ہمارے دانشور ایسی صورت حال میں قابل عمل موثر حل تجویز کیوں نہیں کرتے؟ اپنے تئیں کئی دانشور سول سوسائٹی کی رہنمائی کا کردار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ کامیاب اور کچھ تاریک راہوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔
اسلم گورداسپوری اسی قافلے کے ایک قابل ذکر اور روشن خیال کردار رہیں۔اوائل جوانی سے انھوں نے شاعری، عملی سیاست اور قلمی سفر کا آغاز کیا۔ وہ پیپلز پارٹی کے بانیوں اور ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے دانشور ساتھیوں میں سے ایک ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں ’’شاعر عوام‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ اسلم گورداس پوری سیاست، فلسفے ،شاعری اور عوامی حقوق کی جہد مسلسل کا منفرد اور ممتاز نام ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ سیاست و سماج کے علاوہ فلسفے میں بھی ان کی گہری دلچسپی ہے۔
ان کی تازہ ترین کتاب سول سوسائٹی اور دانشوروں کا کردار ان کی فکری زندگی کا نچوڑ ہے۔گزشتہ ہفتے ان کی اس کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی۔( اس کتاب کو جمہوری پبلکیشنز لاہور میں شایع کیا ہے)انھوں نے یونانی اور بعد کے زمانوں کے نامی فلسفیوں ، سیاسی نظریات ، سیاسی تحریکوں اور تاریخی واقعات کے مطالعے اور غور و فکر کے بعد یہ فکر انگیز کتاب تحریر کی ہے۔
کتاب کا بیشتر حصہ سول سوسائٹی کی تشکیل اور مختلف ادوار کے نظریات پر مشتمل ہے۔ اس پس منظر اور جائزے کی بنیاد پر انھوں نے ایک کامیاب سول سوسائٹی کے خدو خال واضح کیے ہیں اور پاکستانی معاشرے میں موجود عدم استحکام ، عدم توازن اور انتشار کا حل تجویز کرنے کی کوشش کی ہے۔
چند اقتباسات نمونے کے طور پر۔۔انسانی تہذیبوں کا سلسلہ ہزاروں لاکھوں سال پرانا ہے۔ سول سوسائٹی کی بات کا تصور دنیا میں اس وقت پیدا ہوا جب دنیا کے ملکوں میں کسی نہ کسی حوالے سے ملکوں جمہوری اقتدار کی حکمرانی کا سلسلہ مرحلہ وار شروع ہوا۔ ہر چند کے وہ جمہوری نظام آج کے جمہوری نظام حکومت سے قطعی مختلف اور محدود پیمانے پر تھا۔ قدیم ایتھنز کی محدود جمہوریت کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مکمل جمہوری ریاست یا جمہوری نظام حکومت ریاست میں فکری ازادی کے بغیر ممکن نہیں۔
جمہوری معاشرے یعنی سول سوسائٹی کے لیے فلسفیوں کی طرح دانشوروں، شاعروں، مصوروں، تاریخ دانوں اور فلسفی سیاست دانوں کا ہونا از حد ضروری ہے۔ آج کے عہد میں ہر سول سوسائٹی یا جمہوری معاشرے کے لیے سائنس دانوں اور پروفیشنل علم و تعلیم کا ہونا بے حد ضروری ہے کہ ان ماہرین کے زیر اثر کسی بھی معاشرے میں بادشاہی یا شخصی یا فوجی اقتدار کی ہرگز کوئی ضرورت یا گنجائش ہو ہی نہیں سکتی۔
دنیا میں سول سوسائٹی کے معلم اور معمار فلسفی سیاست دان ہی ثابت ہوئے ہیں جو اپنے عوام اور اپنے معاشرے میں سیاسی معاشی ،ثقافتی اور جمہوری آزادیوں میں برابری کے اصولوں کے اقتدار اور حکومت کے اصول رکھتے ہوں عوام کی رائے کے تابع فرمان ہوں۔
فلسفی دانش وروں کے مطابق ریاست ایک مکمل اکائی کی حیثیت رکھتی ہے جس کے متحرک ادارے ہوتے ہیں۔ سب سے افضل ریاست کا قانون ساز ادارہ ہوتا ہے۔دوسرے نمبر پر عدلیہ کا ادارہ ہے۔ اس کے بعددیگر پیداواری شعبے آتے ہیں۔
اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ آخر دنیا کے مسلمانوں کی عزت کیوں نہیں ہوتی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں ان قوموں کا عزت و احترام ہے جو دنیا کی تہذیب و تمدن میں اضافہ کرتی ہیں۔اسلم گورداسپوری کے مطالعے اور سیاسی شعور کا حاصل یہ کتاب پاکستانی سول سوسائٹی کے بنیادی مسائل کا انتہائی علمی اور تاریخی محاکمہ اور آگے بڑھنے کی دانشمندانہ تجاویز پر مبنی یے۔ ضرورت ہے کہ اس موضوع پر ایسی مزید کتابیں لکھی اور پڑھی جائیں تاکہ سر شام ٹی وی اسکرینوں ہر سجنے والی انفوٹینمنٹ اور سوشل میڈیا پر مچی بے معنی ہاہاکار سے ہٹ کر سول سوسائٹی کی بہتر تشکیل پر غور وفکر کی نوبت آ سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سول سوسائٹی کے سول سوسائٹی کی دنیا میں ہے کہ ا
پڑھیں:
فطری اور غیر فطری سیاسی اتحاد
پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی مرضی ہے کہ ’’ وہ ہم سے اتحاد کرتے ہیں یا نہیں، وہ خود مختار سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ ہم کسی سے سیاسی اتحاد کے لیے زبردستی نہیں کر سکتے۔‘‘ موجودہ حکومت کی ایک اہم ترین سیاسی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ’’ خدا نہ کرے کہ ہم موجودہ حکومت کا ساتھ چھوڑ دیں، ہمارا کوئی نیا سیاسی اتحاد نہیں ہو رہا، اگر ہم نے حکومت سے علیحدگی اختیار کی تو ملک میں نیا بحران پیدا ہو جائے گا اور ملک ایسے بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حکومت کو ہمارے تحفظات دور کرنے چاہئیں اور ایسا نہ ہونے سے ہی شکایات پیدا ہوتی ہیں اور پیپلز پارٹی کے خلاف منفی بیانیہ بنایا جاتا ہے تو ہمیں بھی بولنا پڑتا ہے۔‘‘
وفاق میں شامل دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان پنجاب میں پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل نہ ہونے سے پہلے سے ہی تحفظات چل رہے تھے کہ اب 6 نہریں نکالنے کے مسئلے نے سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے ایک اور مسئلہ پیدا کردیا ہے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی سیاسی ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے اور پی پی کے مخالفین نے سندھ میں نہروں کی بنیاد پر احتجاجی مہم شروع کی تھی جس کے بعد پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت نے بھی ایک سخت موقف اپنایا کہ نہریں نہیں بننے دیں گے اور سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کسی کو نہیں لینے دیں گے۔ وفاق نے کینالز کے مسئلے پر یہ معاملہ مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش شروع کی تو سندھ کی تمام قوم پرست جماعتوں نے نہریں نکالنے کے خلاف بھرپور احتجاج، پہیہ جام اور شٹرڈاؤن ہڑتال شروع کردی جب کہ سندھ میں پیر پگاڑا کی سربراہی میں قائم جی ڈی اے پہلے ہی احتجاج کررہی تھیں اور صدر زرداری پر بھی الزامات لگا رہی تھی۔
سندھ بار ایسوسی ایشن بھی اب شہروں کے خلاف احتجاج میں شریک ہو چکی ہے اور سندھ بار نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نہروں کے خلاف ہونے والے دھرنے کو سنجیدہ لے اور نہروں کی تقسیم کا نوٹیفکیشن فی الفور واپس لے ورنہ احتجاج جاری رہے گا۔ پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری نے پہلے بھی حیدرآباد کے جلسے میں سخت موقف اپنایا ہے جس کے بعد وفاق نے یہ مسئلہ پی پی کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے رابطے شروع کیے مگر اب یہ مسئلہ پیپلز پارٹی کا نہیں رہا سندھ کی تمام جماعتیں اور وکلا بھی احتجاج میں شامل ہو چکے ہیں۔ ایم کیو ایم بھی اس مسئلے پر سندھ میں ہونے والے احتجاج کی حمایت کر رہی ہے مگر ساتھ میں پیپلز پارٹی پر بھی کڑی تنقید کر رہی ہے جو سندھ میں پیپلز پارٹی کی اپوزیشن اور وفاق میں (ن) لیگ کی اتحادی اور وفاقی حکومت میں شامل ہے مگر وفاقی حکومت سے اسے بھی شکایات ہیں کہ ان کے ساتھ جو وعدے ہوئے تھے وہ پورے نہیں کیے جا رہے۔
اس لیے ہمارے تحفظات دور نہ ہوئے تو حکومت سے اتحاد ختم کر دیں گے۔وفاق میں پیپلز پارٹی کا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ یہ تیسرا اتحاد ہے۔ 2008 میں یہ اتحاد ٹوٹ گیا تھا اور پی پی حکومت نے ایم کیو ایم اور (ق) لیگ کو اپنا نیا اتحادی بنا کر اپنی مدت پوری کر لی تھی۔ ایم کیو ایم مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جنرل پرویز کے باعث (ق) لیگ کی اتحادی رہی ہے مگر وہ (ن) لیگ اور پی پی حکومت کا اتحاد ختم بھی کرتی رہی ہے۔ پی پی نے 2008 کے الیکشن کے بعد سندھ میں اپنی حکومت میں ایم کیو ایم کو شامل نہیں کیا اور سولہ برسوں میں پی پی حکومت کی سندھ میں اپوزیشن پی ٹی آئی 2018 میں رہی اور زیادہ تر ایم کیو ایم ہی سندھ میں حکومت سے باہر رہ کر سندھ حکومت کے خلاف اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہی اور اب بھی کر رہی ہے۔
ایم کیو ایم پہلی بار 1988 میں بے نظیر دور میں وفاق اور سندھ میں پی پی حکومت کی اتحادی بنی تھی۔ پی پی اور ایم کیو ایم سندھ کی دو اہم پارٹیاں ہیں اور دونوں کا اتحاد فطری بھی ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی دیہی سندھ اور ایم کیو ایم شہری سندھ کی نمایندگی کرتی ہیں۔ دونوں کے حامیوں نے سندھ میں ہی رہنا ہے اور دونوں کا سیاسی اتحاد سندھ کے وسیع مفاد میں ہے مگر پی پی اپنی دیہی سیاست کے باعث ایم کیو ایم کے ساتھ چلنے پر رکاوٹ محسوس کرتی ہے جس کی وجہ سندھ میں 50 سال سے نافذ کوٹہ سسٹم ہے جو دس سال کے لیے بھٹو دور میں نافذ ہوا تھا جسے پیپلز پارٹی ختم نہیں ہونے دے رہی جب کہ ایم کیو ایم اس کا خاتمہ چاہتی ہے کیونکہ اس پر مکمل عمل نہیں ہو رہا اور ایم کیو ایم کے مطابق سندھ میں پی پی کی حکومت شہری علاقوں کی حق تلفی کر رہی ہے۔
شہری علاقوں میں لوگوں کو بسا کر صرف انھیں ہی سرکاری ملازمتیں دی جاتی ہیں۔ سندھ میں ان دونوں پارٹیوں کا اتحاد فطری ہو سکتا ہے مگر نہیں ہو رہا اور اب بھی دونوں ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان بازی جاری رکھے ہوئے ہیں اور پی پی، ایم کیو ایم کا موجودہ مینڈیٹ تسلیم بھی نہیں کرتی اور صدر آصف زرداری کے لیے یہ ووٹ لے بھی چکی ہے۔
وفاق میں (ن) لیگ اور پی پی کا سیاسی اتحاد ہے جو مجبوری کا اتحاد ہے۔ پی پی (ن) لیگ کو آڑے ہاتھوں لیتی ہے جس کا جواب مسلم لیگ موثر طور نہ دینے پر مجبور ہے۔ کے پی کے میں تحریک انصاف اور جے یو آئی میں سیاسی اتحاد ہونا بالکل غیر فطری ہے کیونکہ دونوں متضاد خیالات کی حامل ہیں جب کہ پی ٹی آئی تو (ن) لیگ اور پی پی کو اپنا سیاسی مخالف نہیں بلکہ اپنا دشمن قرار دیتی ہے جو ملک کی بدقسمتی اور ملکی سیاست اور جمہوریت کے خلاف ہے اور ملک میں فطری اتحاد برائے نام ہے۔