نامور صحافی و شاعر آکاش انصاری کے قتل کے الزام میں لے پالک بیٹا اور ڈرائیور گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
کراچی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 فروری 2025ء ) نامور شاعر، ادیب اور صحافی ڈاکٹر آکاش انصاری قتل کیس میں پولیس نے مقتول کے لے پالک بیٹے اور ڈرائیور کو گرفتار کرلیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سندھی زبان کے نامور شاعر اور ادیب ڈاکٹر آکاش انصاری قتل کیس میں اہم پیشرفت ہوئی ہے جہاں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے مقتول کے لے پالک بیٹے لطیف اور ڈرائیور کو گرفتار کرلیا جب کہ ابتدائی رپورٹ میں آکاش انصاری کے جسم پر تشدد کے بھی نشانات مل گئے۔
اس حوالے سے میڈیکولیگل آفیسر ڈاکٹر عبدالحمید مغل نے بتایا کہ مقتول کے جسم کے مختلف حصوں پر تشدد کے نشانات پائے گئے ہیں، جسم پر کٹ کے نشانات سے لگتا ہے قتل کے لیے تیز دھار چھرا استعمال کیا گیا، مقتول کے گلے اور پیٹھ پر چھرے کے وار کے نشانات ہیں، ایسا لگتا ہے انہیں پہلے چھرے سے مارنے کی کوشش کی گئی اور پھر آگ لگائی گئی۔(جاری ہے)
یاد رہے کہ گزشتہ روز سندھی و اردو زبان کے معروف شاعر، سیاسی رہنما و صحافی 68 سالہ ڈاکٹر آکاش انصاری حیدرآباد کے علاقے سٹیزن کالونی میں گھر میں آگ لگنے کے باعث جھلس کر جاں بحق ہوئے، جس کے بعد ڈاکٹر آکاش انصاری کو بدین میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
سندھ کے صوبائی وزیر ثقافت اور سیاحت سید ذوالفقار علی شاہ نے ڈاکٹرآکاش انصاری کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس واقعے کا تمام پہلوؤں سے جائزہ لے، ڈاکٹر آکاش انصاری ادب شاعری میں بڑا مقام رکھتے تھے‘ جب کہ ڈاکٹر آکاش انصاری کی ہلاکت پرسندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی، قومی عوامی تحریک کے صدر ایاز لطیف پلیجو و دیگر سیاسی و سماجی رہنماؤں نے بھی گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کی موت کو سندھ کیلئے بڑا نقصان قرار دیا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈاکٹر آکاش انصاری ا کاش انصاری مقتول کے
پڑھیں:
پہلگام فالس فلیگ حملہ؛ کشمیری صحافی اور شہریوں نے اہم سوالات اٹھاد یے
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کے روایتی فالس فلیگ حملے کے بعد ایک جانب دنیا بھر میں تنقید کی جا رہی ہے تو دوسری طرف کشمیری صحافی اور شہریوں کی جانب سے اہم سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں۔
کشمیری صحافی نے بھارتی سکیورٹی نظام کو ناکام قرار دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ پہلگام میں حملہ آور سخت نگرانی کے باوجود کیسے پہنچے؟ 7 سے 12 لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں اور پھر بھی سکیورٹی ناکام کیوں؟ ہوئی؟۔
صحافی نے سوال کیا کہ ایک عام شہری کو 10 بار چیک کیا جاتا ہے، مگر حملہ آور بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ گئے؟۔ سخت ترین سکیورٹی کے باوجود پہلگام میں دہشتگردی کیوں ممکن ہوئی؟ کیا لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوج صرف عام کشمیریوں کی تلاشی کے لیے ہے؟۔
دہشت گردی کے واقعے پر کشمیری صحافی نے سوال اٹھایا کہ حملہ آور کہاں سے آئے؟ انہوں نے درجنوں چیک پوسٹس کیسے عبور کیں؟۔ کیا یہ حملہ اندرونی سہولت کاری کے بغیر ممکن تھا؟۔ اتنی بھاری نفری کے باوجود سکیورٹی میں اتنا بڑا خلا کیوں؟ ہوسکا؟
اسی طرح کشمیری عوام نے بھی بھارت کے پہلگام فالس فلیگ آپریشن پر سوالات اٹھائے ہیں اور اس واقعے کو ہمیشہ کی طرح مودی سرکار کی چال ہی قرار دیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کا کہنا ہے کہ پہلگام ڈراما ایک چال ہے۔ 1990 سے لے کر اب تک کون سا سیاح ہم نے مارا ہے ؟۔ یہاں پر سکھ بھی ہیں، مسلمان بھی ، کس سکھ کو ہم نے مارا ہے؟۔
شہریوں نے پوچھا کہ اتنے بھاری سکیورٹی انتظامات اور سکیورٹی کیمروں کی موجودگی میں یہ حملہ کیسے ہو گیا؟۔ یہ بھارتی حکومت ہی کی چال ہے کیوں کہ ان کو 2019ء سے کشمیر کو ختم کرنا تھا۔ یہ ہمارا کشمیر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ عمر عبداللہ ان سے اسٹیٹ ہوڈ مانگ رہا تھا اس لیے یہ ڈراما کیا گیا۔
کشمیری صحافیوں اور عوام کی جانب سے سوالات نے جہاں بھارتی سکیورٹی کا پول کھول دیا ہے وہیں مودی سرکار کی اس سازش اور فالس فلیگ کا بھی پردہ چاک کردیا ہے۔