ایک روز قبل اپوزیشن رہنماؤں کے اجلاس میں موجودہ اسمبلیوں اور حکومت کو جعلی و غیر قانونی قرار دینے والوں میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی شامل تھے۔
اجلاس میں رہنماؤں نے تجویز دی کہ سال رواں کے دوران نئے انتخابات کرانے کی تحریک شروع کی جائے۔ اپوزیشن اجلاس میں شاہد خاقان عباسی کو سابق وزیر اعظم کی حیثیت سے بانی کی ہدایت پر پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے اپنے گھر عشائیہ پر مدعو کیا کیونکہ ان کی چند افراد پر مشتمل عوام پاکستان پارٹی ہے مگر اجلاس سے نئی پارٹی کے کنوینر کو ایک ہی روز میں تین ٹی وی چینلز میں پذیرائی کا موقعہ مل گیا اور انھوں نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں اتحادی حکومت بنانے کی تجویز دی ہے جو ایک اچھی اور مثبت تجویز اور وقت کی ضرورت بھی ہے مگر انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ حکومتی رہنماؤں اور اپوزیشن رہنماؤں کو اتحادی حکومت پر کون آمادہ کرے گا۔
حال ہی میں ملک کی اصل اپوزیشن اور موجودہ اتحادی حکومت کے درمیان جو مذاکرات ہوئے تھے وہ پی ٹی آئی نے خود ہی ختم کر دیے تھے۔
پی ٹی آئی اور اس کا ساتھ دینے والی پارٹیوں میں کوئی قابل ذکر پارٹی تو ہے نہیں صرف ایک ایک نشست رکھنے والی 3 پارٹیوں کے رہنما پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی میں شامل تھے اور مولانا فضل الرحمن سے حکومت سے مذاکرات کے لیے پی ٹی آئی نے کوئی مشاورت کی نہ انھیں اعتماد میں لیا گیا حالانکہ پی ٹی آئی کے بعد اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت جے یو آئی ہے اور 26 ویں ترمیم کے موقع پر تو پی ٹی آئی رہنما دن ہو یا رات مولانا فضل الرحمن کے گھر کے چکر کاٹتے نہیں تھکتے تھے مگر جب بالاتروں سے مایوس ہو کر پی ٹی آئی موجودہ اتحادی حکومت سے مذاکرات پر مجبور ہوئی تو جس حکومت کو پی ٹی آئی جعلی اور غیر آئینی قرار دے چکی ہے اس حکومت سے پی ٹی آئی نے مذاکرات خود شروع اور خود ہی ختم کیے تھے۔
پی ٹی آئی خود کو حکومت بنانے کا حق دار اور خود کو ہی اصل اپوزیشن بھی سمجھتی ہے مگر اپنے فیصلوں میں کسی اپوزیشن رہنما کو شریک نہیں کرتی۔ پی ٹی آئی نے اپنی مذاکراتی کمیٹی میں مولانا فضل الرحمن تو کیا اپنی ہی بنائی ہوئی تحریک تحفظ آئین کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو شامل نہیں کیا تھا مگر سابق اسپیکر اسد قیصر کے عشائیہ میں وہ موجود تھے اور اس موقع پر سب نے اتفاق کیا کہ موجودہ حکومت دھاندلی زدہ الیکشن کی پیداوار ہے جو عوام کی نمایندہ نہیں یہ حکومت اور اپوزیشن کمیشن فوری طور مستعفی ہو جائیں۔
آئین میں اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے پر نگراں حکومتوں کا قیام ضروری قرار دیا ہے مگر اتحادی حکومت بنانے کا کوئی ذکر نہیں مگر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اتحادی حکومت کا قیام تو چاہتے ہیں مگر یہ اتحادی حکومت بنائے گا کون ، اس کی ساخت کیسی ہوگی کون وزیر اعظم ہوگا؟ مجوزہ اتحادی حکومت میں موجودہ اسمبلیاں رہیں گی یا نہیں۔ اسمبلیاں ٹوٹنے کی شکل میں نگران حکومت بھی وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے باہمی اتفاق سے ہی قائم ہو سکتی ہے۔
اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، سندھ میں پیپلز پارٹی اور کے پی میں تحریک انصاف کی مضبوط حکومتیں ہیں کیونکہ تینوں اسمبلیوں میں تینوں بڑی پارٹیوں کو واضح اکثریت حاصل ہے جب کہ سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت ہے جو وزیر اعلیٰ کی مرضی سے ختم ہو سکتی ہے۔
پنجاب، سندھ و کے پی کے اسمبلیاں صرف ایک سال بعد ہی کیوں چاہیں گی کہ وہاں بھی اتحادی حکومتیں بنیں۔ 2023 میں پی ٹی آئی کے بانی نے اپنی پنجاب اور کے پی کی حکومتیں اسمبلیاں تڑوا کر خود اس لیے ختم کرائی تھیں کہ انھیں اپنی مقبولیت کے باعث سو فیصد یقین تھا کہ پی ڈی ایم حکومت کی عدم مقبولیت کے باعث پنجاب و کے پی کے الیکشن پی ٹی آئی بھاری اکثریت سے جیت کر بعد میں وفاق میں اپنی حکومت بنا لے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اتحادی حکومت پی ٹی آئی نے ہے مگر
پڑھیں:
آئی ایم ایف کی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کیلئے سخت شرائط
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) آئی ایم ایف کی سخت شرائط اورمالی مشکلات کے پیش نظر حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 5 سے 7.5 فیصد اضافے کی تجویز دی ہے۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق اتحادی جماعت پیپلز پارٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد تک اضافہ کیا جائے، اس تجویز سے آئی ایم ایف کو بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ مسلح افواج کے لیے اضافی مراعات دینے کی تجاویز بھی زیر غور ہیں جن میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ شامل ہے‘مثال کے طور پر رسک الاؤنس کو پنشن ایبل الاؤنس میں تبدیل کرنے کی تجویز موجود ہے۔
یکم جولائی 2025 سے افواج کو ڈیفائنڈ کنٹری بیوٹری پنشن (DCP) نظام میں شامل کرنے پر بھی غور ہو رہا ہے لیکن اس بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔گریڈایک تا16کے سول ملازمین کیلئے 30 فیصد ڈسپیئرٹی الاؤنس کی تجویز‘ بیرون ملک سے حاصل کردہ فری لانس اور ڈیجیٹل سروسز کی آمدن کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کا امکان‘ مقامی گاڑیوں پر 18 فیصد جی ایس ٹی پرغور کیا جا رہا ہے۔
حکومت آئندہ بجٹ میں دیگر پنشن اصلاحات پر بھی پیش رفت کرنا چاہتی ہے۔ کچھ سخت اقدامات پہلے ہی لیے جا چکے ہیں اور مزید سخت اقدامات متوقع ہیں۔
گریڈ ایک تا16کے سول ملازمین کے موجودہ دو ایڈہاک الاؤنسز میں سے ایک کو بنیادی تنخواہ میں ضم کرنے کی بھی تجویز ہے۔
وزارت خزانہ نے مختلف تجاویز پر مبنی خاکے تیار کیے ہیں جو وفاقی کابینہ کو 10 جون کو منظوری کے لیے پیش کیے جائیں گے۔ تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کی لاگت کا بھی تخمینہ لگایا گیا ہے جو کابینہ کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔
آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 17.5 ٹریلین روپے تجویز کیا گیا ہے، جو موجودہ سال کے 18.87 ٹریلین روپے کے مقابلے میں کم ہے۔ غیرمحصول آمدن 4.85 ٹریلین روپے سے کم ہو کر 3 سے 3.5 ٹریلین روپے ہونے کا امکان ہے۔
ادائیگیوں کی جانب، قرضوں کی واپسی سب سے بڑی مد ہے، جس کی لاگت موجودہ بجٹ کے ابتدائی تخمینے 9.775 ٹریلین روپے سے کم ہو کر آئندہ بجٹ میں 8.1 ٹریلین روپے ہو سکتی ہے جبکہ رواں مالی سال کے اختتام تک اس مد میں 8.7 ٹریلین روپے خرچ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔محصولی آمدن کے لیے ایف بی آر کا ہدف 14.14 ٹریلین روپے مقرر کیا گیا ہے، جو موجودہ سال کے نظرثانی شدہ ہدف 12.33 ٹریلین روپے سے زائد ہے۔
درآمدی مرحلے پر ٹیرف میں رد و بدل کی تجویز بھی زیر غور ہے، جس سے 150 سے 200 ارب روپے کی کمی متوقع ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ شعبہ جات میں سٹیل، آٹو پارٹس، ٹائلز وغیرہ شامل ہوں گے کیونکہ یہ صنعتیں بڑھتی ہوئی لاگت کے باعث علاقائی مسابقت میں پیچھے رہ گئی ہیں۔فری لانسرز کی بیرون ملک آمدن کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجویز ہے اور سٹیٹ بینک ان کے اکاؤنٹس کی شناخت میں مدد دے گا۔
"محبت ملکیت نہیں، احساس ہے، یقین ہے" دوستی کا ہاتھ نہ بڑھانے پر ٹک ٹاکر ثنا یوسف کا قتل، علی ظفر کی نظم ’’محبت‘‘ وائرل ہوگئی
مزید :