پنجاب اسمبلی: 26 معطل ارکان کے خلاف نااہلی ریفرنسز، اسپیکر کی جانب سے ذاتی سماعت کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
پنجاب اسمبلی میں ارکان کے خلاف نااہلی کے ریفرنسز کے معاملے پر اہم پیشرفت ہوئی ہے، اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے اپوزیشن کے 26 معطل ارکان اسمبلی کو ذاتی شنوائی کا موقع دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی: اپوزیشن کے 26 اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کا ریفرنس تیار
ترجمان اسپیکر کے مطابق، اسپیکر کو آئین کے آرٹیکل 63(2) اور 113 کے تحت معطل ارکان کے خلاف نااہلی کے ریفرنسز موصول ہوئے، جن پر باقاعدہ کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں اسپیکر نے تمام 26 معطل ارکان کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔
یہ سماعت کل، بروز جمعہ 11 جولائی کو صبح 11 بجے اسپیکر چیمبر میں ہوگی، جہاں ہر رکن کو انفرادی طور پر سنا جائے گا۔ اسپیکر ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 10اے کے تحت ارکان کو شفاف اور منصفانہ سماعت کا حق دیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: گالیاں دینا جمہوریت نہیں جمہوریت دشمنی ہے، اسپیکر پنجاب اسمبلی
اسپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا ہے کہ تمام ریفرنسز پر کارروائی آئینی دائرہ کار میں ہو رہی ہے، اور ہر رکن کو مکمل دفاع کا موقع دیا جائے گا۔ آئینی تقاضوں کے مطابق اسپیکر 30 دن کے اندر ریفرنسز پر فیصلہ کرنے کا پابند ہے، جس کے لیے شفاف اور غیر جانبدار عمل کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ارکان اسمبلی اسپیکر پنجاب اسمبلی معطل ملک احمد خان نااہلی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ارکان اسمبلی اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نااہلی اسپیکر پنجاب اسمبلی معطل ارکان
پڑھیں:
سپریم کورٹ کے فیصلے میں وقف ترمیمی ایکٹ کو معطل کرنے سے انکار
بنچ نے کہا کہ اس شق پر روک لگا دی گئی ہے جس نے کلکٹر کو یہ تعین کرنے کا حق دیا ہے کہ وقف قرار دی گئی جائیداد سرکاری ملکیت ہے یا نہیں اور اسکے مطابق کوئی حکم جاری کرسکتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے آج پورے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کو معطل کرنے سے انکار کر دیا ہے لیکن قانون کی کچھ دفعات پر روک لگانے کا فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح کی سربراہی میں بنچ نے یہ حکم سنایا۔ بنچ کی جانب سے فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ بنچ نے محسوس کیا کہ قانون کی تمام شقوں کو روکنے کا کوئی معاملہ نہیں بنتا ہے۔
بنچ نے کہا کہ اس نے اس شق پر روک لگا دی ہے جس نے کلکٹر کو یہ تعین کرنے کا حق دیا ہے کہ وقف قرار دی گئی جائیداد سرکاری ملکیت ہے یا نہیں اور اس کے مطابق کوئی حکم جاری کر سکتا ہے۔ بنچ نے کہا کہ ہم نے پایا ہے کہ کلکٹر کو جائیداد کے حقوق کا تعین کرنے کی اجازت دینا اختیارات کی علاحدگی کے اصول کے خلاف ہے۔ ایگزیکٹیو کو شہریوں کے حقوق کا تعین کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہم نے ہدایت کی ہے کہ جب تک نامزد افسر کی طرف سے نتائج پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا جاتا، جائیداد کے قبضے یا حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
بنچ نے کہا کہ کسی شخص کو وقف کے طور پر اپنی جائیداد وقف کرنے سے پہلے پانچ سال تک اسلام کی پیروی کرنے کی شرط پر اس وقت تک روک لگا دی گئی ہے جب تک ریاستی حکومت یہ فیصلہ کرنے کے لئے قوانین نہیں بناتی کہ آیا کوئی شخص کم از کم پانچ سال سے اسلام کی پیروی کر رہا ہے یا نہیں۔ بنچ نے کہا کہ اس انتظام کے بغیر یہ انتظام طاقت کے من مانی استعمال کو فروغ دے گا۔