Express News:
2025-04-26@03:23:15 GMT

پاکستان میں اصلاحات ، کھوکھلے وعدے یا حقیقی تبدیلی؟

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

اسلام آباد:

پاکستان میں لفظ ’’اصلاحات‘‘ کو اتنے برے طریقے سے استعمال کیا گیا ہے اب جب کبھی اصلاحات کا ذکر آتا ہے تو وہ محض کھوکھلے دعوے معلوم ہوتے ہیں جن کے اندر تبدیلی کی حقیقی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ 

حال ہی میں مشعل پاکستان کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ بعنوان پاکستان ریفارمز رپورٹ میں حکومت کے 2024 میں 100 زائد اصلاحات کے اقدامات کو سراہا گیا ،جب ہم 100 سے زائد اصلاحات ذکر سنتے ہیں تو ذہنوں میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ 

رپورٹ کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اقدامات کو اصلاحات سے تعبیر کرنا محض غلطی ہے کیونکہ یا تو یہ گزشتہ جاری منصوبوں کا تسلسل ہیں یا پھر انہی منصوبوں سے پیوستہ رہنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات ہیں۔ 

حیرت کی بات ہے کہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری 2025 میں حکومت کی جانب سے 7ایسے سرکاری اداروں کی نج کاری کی گئی ہے جو خٰسارے میں چل رہے تھے مگر ان اداروں کے نام نہیں بتائے گئے ہیں لہذا نج کاری کے دعوے کے بعد ان اداوں کے نام ظاہر نہ کرنا بجائے خود رپورٹ کی ساکھ اور مستند ہونے پر سوالیہ نشان  ہے۔

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کا معاملہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے تاہم یہ بات تو واضح ہے کہ حکومت نے ابھی نج کاری کا کوئی معاملہ حتمی طور پر طے نہیں کیا ہے- آخری بار جو کامیاب نج کاری کی گئی تھی وہ گزشتہ سال فروری میں تھی۔

اس وقت موجودہ حکومت کسی نئی اسامی پر کوئی بھرتی نہیں کررہی بلکہ حکومتی اخراجات میں کمی اور بچت کے لیے مزید ڈیڑھ لاکھ اسامیوں پر بھرتی کا منصوبہ فی الحال موخر کردیا گیا ہے اس کے باوجود بعض تجارتی بنیاد پر چلنے والے سرکاری ادارے اب بھی سالانہ اربوں روپے کا نقصان قومی خزانے کو پہنچارہے ہیں۔ 

ان میں زیادہ تر اداروں کا تعلق مواصلات (ٹرانسپورٹ) اور توانائی کے شعبوں سے ہے جو ناقص انتظامی امور کے باعث اربوں روپے سالانہ کے خٰسارے میں ہیں، اسی لیے اس بات کی تصدیق ازحد ضروری ہے کہ معلوم کیا جائے ایسے اداروں کی نج کاری یا ان کے انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی پر کام کیا گیا ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم نے حال ہی میں گلوبل مسابقتی رپورٹ شائع کی ہے جس میں دنیا بھر کی معیشتوں کا 12 بنیادی امور پر جائزہ لیا گیا جن میں جدت طرازی، کاروباری ماحول، لیبر مارکیٹ کی استعداد کار اور ملک کے مالیاتی نظام شامل ہیں۔

لہذا رپورٹ کا جائزہ لیتے وقت ہمیں توقع تھی کہ اس میں پاکستان کا تقابل بھی دنیا بھر کی دیگر معیشتوں سے کیا گیا ہوگا اور اس میں کاروبار کرنے، پیدواری صلاحیت، جدت طرازی اور معاشی استعداد کار کا جائزہ لیا گیا ہوگا۔

تاہم رپورٹ میں محض معاشی بحالی میں معاونت کرنے کے ضمن میں اسپیشل انوسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل  (SIFC) کے کردار کو سراہا گیا ہے، مذکورہ کونسل کی جانب سے سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور  طرز حکمرانی اور نظم و ضبط کے فقدان کی نشاندہی کرنے اور اس حوالے سے اقدامات قابل بحث ہیں۔

تاہم رپورٹ میں کسی حقیقی مسابقتی اشاریے کا ذکر نہیں ملتا جس کے باعث اس رپورٹ میں اس مذکورہ کونسل کا ذکر تجزیاتی سے زیادہ سیاسی بناتا ہے،مالیاتی نظم و نسق کے حوالے سے پاکستان ریفارمز رپورٹ میں پنشن کے حوالے سے کی گئی اصلاحات کو اجاگرکیا گیا ہے جس کے نتیجے میں آئندہ دس برسوں کے دوران حکومت کو 2024 میں متعارف کی گئی فنڈ اسکیم کے ذریعے ایک کھرب 70 ارب روپے تک کی بچت ممکن ہوسکے گی۔

تاہم اس اسکیم کا اطلاق صرف نئے سرکاری ملازمین پر ہوگا یعنی اس کے معنی یہ ہیں کہ موجودہ پنشن حاصل کرنے والے افراد پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی آنے میں معقول وقت لگے گا۔

یاد رہے کہ مالی سال 2024 میں پنشن اخراجات کا حجم ایک کھرب 20 ارب روپے تھا اور آئندہ بجٹ 2025 میں اس میں مزید 15 فیصد اضافے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جس سے مالیاتی بوجھ میں مزید اضافہ ہوگا-

پاکستان کو چاہئے کہ وہ کامیاب پنشن اصلاحات کے حوالے سے بھارت اور چلی کے ماڈلز کو اپنائے جہاں ایک مربوط انداز میں اصلاحات لاتے ہوئے طویل مدت اخراجات میں کمی لائی گئی ہے۔

پاکستان ریفارمز رپورٹ میں پاکستان  مسلم لیگ (ن) حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے متعدد اقدامات کا بھی اجاگر کیا گیا ہے ان میں بعض ایسے ہیں جن میں مزید پنپنے کے امکانات اور جن کی بدولت طویل بنیاد پر ترقی کی راہ ہموار ہوسکے گی-

ان میں بعض اقدامات کا ذکر کیا جانا چاہئے جیسا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنیوں کا اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ حاصل ہونے والی آمدنی یا منافع کو ڈالرز کی شکل میں رکھ سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کیا گیا ہے کی جانب سے رپورٹ میں حوالے سے نج کاری کی گئی کا ذکر

پڑھیں:

موسمیاتی تبدیلی پاکستان کیلئے سنگین خطرہ اور بقا کے لیے چیلنج ہے، وفاقی وزیر خزانہ

WASHINGTON:

وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے موسمیاتی تبدیلیوں کو پاکستان کے لیے سنگین خطرہ اور بقا کے لیے چیلنج قرار دے دیا۔

عالمی بینک گروپ اورعالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے موسم بہار کے اجلاس کے موقع پر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے واشنگٹن میں موسمیاتی نقصان اور تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے قائم 'فنڈ فار رینسپانڈگ ٹو لاس اینڈ ڈیمج (ایف آر ایل ڈی)کے اعلیٰ سطح کے مکالمے سے خطاب کیا۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مکالمے سے خطاب کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلیوں کو پاکستان لیے سنگین خطرہ اور بقا کے لیے چیلنج قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ'فنڈ فار ریسپانڈگ ٹو لاس اینڈ ڈیمج (ایف آر ایل ڈی)' کے قیام کا مقصد ماحولیاتی تبدیلیوں بشمول شدید موسمی واقعات یا آہستگی سے رونما ہونے والی تباہ کاریوں کے خلاف ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنا ہے۔

وزیر خزانہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان "لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ" کے قیام کے داعی ممالک میں سے ایک تھا اور اس موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں فنڈ کو جلد از جلد فعال کرنے کی ضرورت اجاگر کی۔

محمد اورنگزیب نے اس عمل کو شفاف ترین بنانے کی حمایت کرتے ہوئے فنڈ کو مناسب چیکس اینڈ بیلنس کے تابع ہونے کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور فنڈ کے زیر اہتمام جلد تر ادائیگیوں کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ فنڈ کو سادہ اور مؤثر اصولوں پر چلانے کی ضرورت ہے، فنڈ کے تحت کم ترقی یافتہ اور ماحولیاتی طور پر کمزور ممالک کو فنڈز کے حصول میں پہلے کی طرح مشکلات نہیں ہونی چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • موسمیاتی تبدیلی پاکستان کیلئے سنگین خطرہ اور بقا کے لیے چیلنج ہے، وفاقی وزیر خزانہ
  • پاکستان کا بین الاقوامی تجارتی نظام میں اصلاحات کامطالبہ
  • پاکستان میں اصلاحات اور نئے صوبوں کی ضرورت ہے، شاہد خاقان عباسی
  • متنازع کینالوں کے برعکس نیا پروجیکٹ، جس میں حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں
  • پاکستان دنیا کا 5 واں سب سے زیادہ آب و ہوا کا شکار ملک قرار
  • بلوچستان میں مستحقین کو زکوٰۃ کی بروقت اور شفاف فراہمی کے لیے اصلاحات
  • پہلگام حملہ: اسکرپٹ، ہدایت کاری، اداکاری کی غلطیاں
  • آبادی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی جیسے بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے نجی شعبے کے تعاون کی ضرورت ہے،محمد اورنگزیب
  • پی آئی اے کی نجکاری ،حکومت کا ایک بار پھر درخواستیں طلب کرنے کا فیصلہ
  • پاکستان نے اب اسکور بورڈ پر کچھ رنز بنا لیے،ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہوگا، وزیر خزانہ