Nai Baat:
2025-11-03@16:22:17 GMT

سحر کا طلسم: وہم یا علم؟

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

سحر کا طلسم: وہم یا علم؟

دنیا میں دو قسم کے نظام بیک وقت چل رہے ہیں، ایک مادی نظام جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور سائنسی بنیادوں پر پرکھتے ہیں جبکہ دوسرا روحانی یا مخفی نظام، جو نظر تو نہیں آتا لیکن اس کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ انسانی تاریخ کے اوراق میں جادو ایک پُرکشش مگر پُراسرار حقیقت کے طور پر روزِ اول سے موجود رہا ہے۔ یہ محض کہانیوں اور دیو مالائی داستانوں کا حصہ نہیں بلکہ قدیم تہذیبوں، مذاہب اور سائنسی تحقیقات میں بھی اس کے اثرات کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اولادِ آدم ہمیشہ سے ہی پراسرار قوتوں کی کشش میں مبتلا رہی ہے، اور سحر ان پراسرار رازوں میں سے ایک راز ہے جس نے صدیوں سے انسانی ذہن کو مسحور کیے رکھا ہے۔ کبھی یہ طاقت و اختیار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور کبھی خوف اور بربادی کی علامت۔ تقریباً تمام مذاہب ہی جادو کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں مگر اس کے جواز پر اختلاف رکھتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں جہاں جادو کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے وہیں اسے شیطانی عمل قرار دے کر اس سے باز رہنے کی سختی سے تلقین کی گئی ہے۔ جادو ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر کے انہیں سیدھے راستے سے بھٹکایا جاتا ہے۔ جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، شرک، کفر، برائی اور گناہ پر رکھی گئی۔ واقعات کو غیر فطری طور پر ظہور پذیر میں لانے کا فن ہی جادو کہلاتا ہے۔ سحر اور جادو برحق ہے اور قرآن و سنت کے دلائل کی رو سے جادو، ٹونہ انسانی زندگی میں اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ وہ مکروہ عمل ہے جو کسی کو دنوں میں طاقتور بنا سکتا ہے، کسی کے خوابوں کو سراب میں بدل سکتا ہے، کسی کی زندگی برباد کر سکتا ہے۔ سحر الاسود یا کالے جادو کی تکمیل کے لیے مافوق الفطرت طاقتوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ قرآن و احادیث میں بار بار ہر قسم کے جادو کی مذمت کی گئی ہے۔ دینِ اسلام میں جادو سیکھنا اور اس کے ذریعے جنات کا تعاون حاصل کر کے انسانوں کو تکلیف سے دوچار کرنا نہ صرف حرام بلکہ کفریہ کام ہے جو شیاطین کے ذریعے سے شرک کے در وا کرتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور انہوں نے اس چیز کی پیروی کی جو شیطان سلیمان ؑ کی بادشاہت کے وقت پڑھتے تھے، اور سلیمان ؑ نے کفر نہیں کیا تھا لیکن شیطانوں نے ہی کفر کیا تھا، جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور اس چیز کو بھی جو شہر بابل میں ہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر اتارا گیا تھا، اور وہ کسی کو نہ سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو صرف آزمائش کے لیے ہیں، تو کافر نہ بن، پس ان سے وہ بات سیکھتے تھے جس سے خاوند اور بیوی میں جدائی ڈالیں، حالانکہ وہ اس سے کسی کو اللہ کے حکم کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے‘۔ (البقرہ: 102) قدیم مصر، بابل، ہندوستان اور یونان کی تہذیبوں میں جادو کو ایک مؤثر ہتھیار، مذہبی روایت اور روحانی علم کے طور پر جانا جاتا تھا۔ مصر کے پجاری مخصوص عملیات کے ذریعے دیوتائوں سے مدد لینے کے دعوے کرتے تھے، جبکہ بابلی جادوگر ستاروں کی چالوں اور تعویزات کے ذریعے مستقبل کی پیشن گوئیاں کرتے تھے۔ برصغیر میں تنتر و منتر کو جادوئی اثرات سے جوڑا جاتا ہے جبکہ یونانی اور رومی فلسفی جادو کو فطری قوتوں پر قابو پانے کا فن قرار دیتے تھے۔ عیسائیت میں جادو کو شیطان سے منسلک کیا جاتا ہے، جبکہ یہودیت میں کبالہ کی روایات میں جادوئی اثرات کا ایک منظم نظام موجود ہے۔ ہندو مت میں جادو کو روحانی توانائی کا ایک پہلو سمجھا جاتا ہے اور بدھ مت میں اسے مایا (وہم) یا ذہنی قوت سے منسلک کیا جاتا ہے۔ دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق بھی جادو ایک اٹل حقیقت ہے، جس کے اثرات کسی حد تک انسان پر مرتب ہو تے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تباہ کرنے والی چیز اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے اس سے بچو اور جادو کرنے کرانے سے بچو۔ اس صورت میں کے جادو حرام بھی ہے اور یہ رضائے الٰہی سے اختلاف رائے ہے، کا بین ثبوت بھی ہے اور اس سے ایمان متزلزل ہی نہیں باطل ہو جانے کے مترادف بھی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسانوں اور جنات میں  ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو سراپا شر ہیں جن کا مقصد سادہ انسانوں کو تکلیف اور اذیت سے دوچار کرنا ہے۔ بکثرت گناہوں کی وجہ سے انسان شیطانی اثرات کی زد میں آ جاتے ہیں۔ جادو دنیا کی سب سے مؤثر قوت ہے جو غائبانہ بلا تجدید زمان و مکان انسانی مزاج اور جسم بلکہ زندگی پر کامل دسترس رکھتی ہے۔ جادو دراصل کسی چیز کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کالا جادو ایک ایسا علم ہے جس میں شیطان سے رابطہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی غلامی کرتے ہیں اور اس کی خشنودی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شیطان ان اعمال سے خوش ہوتا ہے جن سے لوگ مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہوں بعض گناہوں کے ارتکاب کی صورت میں انسان پر شیطان اس قدر حاوی ہو جاتا ہے کہ انسان خبط یا پاگل پن کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور جو اللہ کی یاد سے غافل ہوتا ہے تو ہم اس پر ایک شیطان متعین کرتے ہیں پھر وہ اس کا ساتھی رہتا ہے۔‘‘ (سورۃ الزخرف) ہمارے ملک میں جہاں قتل و غارت گری، سماجی برائیوں اور معاشی ابتری نے لوگوں کا سکون چھین لیا ہے وہیں کالے جادو جیسی بہت بڑی لعنت بھی اندھیر نگری کی طرح مسلط دکھائی دیتی ہے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے: ’ سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو، ان میں سے ایک جادو ہے‘۔ ہر دور اور ہر معاشرے میں جادو کے طریقے اور رسوم و رواج مختلف رہے ہیں۔ انسان کو اشرف المخلوقات اس لیے کہا گیا کہ وہ اچھائی اور برائی میں فرق کر سکتا ہے۔ جذبات رکھتا ہے، ماضی کے تجربات کی روشنی سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔ آج کی دنیا کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ لوگ مایا کے موہ کی حسرت میں گرفتار ہو کر فطری صلاحیتوں اور رجحان کو بالائے طاق رکھ کر وہ کچھ کرنے لگتے ہیں جو ان کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا اور پھر اس روش پر چلنے کے منفی اثرات نہ صرف انہیں بلکہ ان سے وابستہ تمام انسانوں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ وہ خود بھی ایک دن اسی آگ میں جلتے ہیں۔ جادو ٹونے کا نظام ایسا ہے کہ ایک دن شکاری کو ہی خود شکار کر لیتا ہے۔ کالا علم کرنے اور کرانے والوں کے ساتھ ساتھ ان کی اولادیں بھی برباد ہو جاتی ہیں، دنیا اتنی تنگ ہو جاتی ہے ان پر کہ وہ مر مر کر جیتے ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: جادو ایک کے ذریعے جاتا ہے جادو کو سکتا ہے ہے اور اور اس

پڑھیں:

جو کام حکومت نہ کر سکی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-8

 

آصف محمود

کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے

ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)

 

آصف محمود

متعلقہ مضامین

  • کیا حکومت نے یوم اقبال پر عام تعطیل کا اعلان کردیا؟
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • ترقی کا سفر نہ روکا جاتا تو ہم دنیا کی ساتویں بڑی معیشت ہوتے: احسن اقبال
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • تم پر آٹھویں دہائی کی لعنت ہو، انصاراللہ یمن کا نیتن یاہو کے بیان پر سخت ردِعمل
  • پاکستانی ویزا 24 گھنٹوں میں مل جاتا ہے، براہ راست فلائٹ کا مسئلہ ہے: بنگلا دیشی ہائی کمشنر
  • جادو ٹونا کرنے کے شبہے میں قتل عمر رسیدہ شخص کا ڈھانچہ برآمد، ملزمان گرفتار
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد
  • متحدہ عرب امارات کے طیاروں کے ذریعے سوڈان میں جنگی ساز و سامان کی ترسیل کا انکشاف