WE News:
2025-11-04@06:18:17 GMT

میں ‘ماں بولی’ کیوں نہیں لکھدا؟  

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

میں ‘ماں بولی’ کیوں نہیں لکھدا؟  

زندہ اور مردہ زبانوں میں اگر فرق کرنا ہو تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ زندہ زبان وہی ہوتی ہے جس کے بولنے والے اس زبان کے عکاس ہوں، یا کم از کم اس کےساتھ جڑے ہوں، اپنی زبان سے متصل اور مربوط ہوں۔

جبکہ مردہ زبان کا مطلب یہ ہے کہ بولنے والے تو موجود ہوں لیکن وہ اس سے جڑے نہ ہوں، ان کا طرزِ ثقافت زبان سے جدا ہوچکا ہے۔ چلیں مردہ نہ کہیں لیکن اتنا ضرور کہہ لیں کہ اس زبان کی معیاد ختم ہونے کی شارع پر گامزن ہے۔

تقسیم کے بعد پنجاب 2حصوں میں بٹ گیا، لیکن پنجابی زبان پاکستان، بھارتی پنجاب کے علاوہ کینیڈا میں بھی بولی جاتی ہے، اس سے قطعہ نظر کے زبان چڑھدی پنجابی اے یا فر لہندے پنجاب دی۔

رسم الخط ‘گُر مکھی یا شاہ مکھی’ اس بحث سے قطعہ نظر اچھی خبر یہ ہے کہ پنجابی بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پنجابی لکھنا کتنے لوگ جانتے ہیں؟

’وارث شاہ‘ کو تو سب ہی جانتے ہوں گے، لیکن کیا پنجابی اس ‘وارث شاہ’ کے حقیقی وارث بن پائے یا نہیں، اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟

سید وارث شاہ کی ہیر پنجابی کلاسیکل ادب کے شاہکار کے طور پر جانی جاتی ہے۔ وارث شاہ کی شاعری میں پنجابی زبان، بول چال تے اکھاناں دا اِک خزانہ اے۔

پنجاب کی بود و باش و طرزِ ثقافت کا جو نقشہ وارث شاہ نے کھینچا ہے، وہ سب سے منفرد اور جدا ہے، اور ان کی شاعری کا رنگ ان کے بعد دوبارہ کہیں اور نظر نہیں آیا۔

وارث شاہ نے اپنڑے کلام وچ نہ صرف لہندی تے چڑھدے پنجاب دی پنجابی ورتی اے، بلکہ انہاں نے پنجاب دے ای مختلف لہجیاں دے حرفاں نو جاہ جاہ تے استعمال کیتا اے۔

کاشف حسین نے ’شاہ‘ اوراں واسطے لکھیا

اُنہاں نے سندھ دی عمر ماروی نوں وی اپنڑے کلام وچ ورتا تے سندھ دی ثقافت نوں وی پنجابی زبان دتی:

(پھوگر عمر بادشاہ خوار ہوئے ملی مارون ڈھول دے رالیاں نوں)

ماں بولی کے حوالے سے یہ تحریر لکھنے کا بھی ایک مقصد ہے، نئے سال کی پہلی ہی صبح بغرض ملازمت چین کا سفر کیا، 1 ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے چین کو دیکھا، عوام کی روز مرہ زندگی پر نظر ڈالی، سب سے اہم بات یہ تھی کہ یہاں سب ہی چینی زبان یعنی ’ماں بولی‘ ہی بولتے ہیں اور ان کو دیکھ کر یقین ہوگیا کہ جدت صرف انگریزی زبان سے نہیں آتی۔ اگر اپنے ملک اور زبان سے محبت ہو تو ترقی کا ہر اگلا زینہ ہمارے قدم چومنے کو تیار رہتا ہے۔

یہاں آنے سے پہلے انٹرویو لیا گیا، جس میں مجھے  پنجابی ہونے کی بنا پر فوقیت دی گئی۔ کسی پنجابی کے لیے یہ بات اچنبھے سے کم نہیں، زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا کہ شیکسپیئر اور میر تقی میر کے بغیر پنجابی کے بھی ایکسٹرا نمبر ملے۔

چین کے قومی میڈیا سے بطور ایڈیٹر متصل ہوا ہوں اور یہاں پر اردو زبان میں خبریں لکھ کر ویب سائٹ پر پوسٹ کی جاتی ہیں، اور پنجابی کے لیے خاص طور پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ کا پیج بھی موجود ہے، جہاں خبریں مادری زبان میں پوسٹ کی جاتی ہیں۔

میں نے زندگی میں پروفیشنل پنجابی پہلی بار پاکستان سے باہر آکر لکھی، اور خیال آیا کہ آج تک اپنے ملک میں رہتے ہوئے پنجابی کیوں نہ لکھ پایا؟

اب جبکہ کام پنجابی میں بھی کرنا تھا تو سب سے پہلے پنجابی لغت کی تلاش تھی، سو یہاں گوگل کام آئی، بہت زیادہ تو نہیں لیکن یہ ضرور تھا کہ پنجابی موجود تھی اور کافی حد تک اس حوالے سے کام بھی ہوچکا تھا، لیکن بدقسمتی یہ کہ وہ ڈھونڈنے پر بھی بمشکل ملتا ہے۔

ڈیپارٹمنٹ ہیڈ سے اس حوالے سے بات کی تو انہوں نے پوچھا کہ کیا پاکستان میں کوئی پنجابی زبان کا چینل ہے؟ پہلے سوچا کہ ’روہی‘ کہہ دوں پھر ’چینل 41 ‘کا خیال آیا، لیکن ان چینل کی نشریات بھی اُردو میں ہی ہیں۔

یقیناً ہمارے ملک میں بولی جانے والی ہر زبان اپنے علاقے کی ثقافت کی بھرپور نمائندگی کرتی ہے اور یہی حسن ہے کہ تمام زبانیں بولنے والے ایک ’اُردو‘ کی چھتری تلے جمع ہیں، یہ تحریر  زبانوں کی ترویج کے لیے ہے، نہ کہ تقسیم کے لیے۔

خیر میرے لیے باعث شرم تھا کہ دوسرے ملک والے تو پنجابی زبان کو اس قدر اہمیت دے رہے ہیں، لیکن ہمارا اپنا کیا حال ہے؟  یہ مضمون در اصل پنجابی زبان میں لکھا تھا، لیکن ہمارے ملک میں کوئی ایسا بڑا پلیٹ فارم نہیں ہے جہاں پنجابی مضامین، آرٹیکل اور بلاگ شائع ہوسکیں۔

پھر دوبارہ اس کو اُردو کا تڑکا لگانا پڑا، اس قدر مجبوری ہے کہ اپنی زبان کو اپنے ہی ملک میں کسی بڑے پلیٹ فارم پر شائع نہیں کروا سکتا۔ اس کے علاوہ جو پنجابی زبان کی ویب سائیٹ موجود ہیں، ان کی کوئی خاص  Reachبھی نہیں ہے۔

دوسرا یہ کہ ہم پنجابیوں کو پنجابی نہ تو پڑھائی گئی ہے اور نہ ہی ہمیں اب یہ پڑھنے کی عادت ہے اگر لکھ بھی دوں تو عوام کے لیے پڑھنا مشکل ہو جائے گا۔

اور ہمیں کوئی خاص پنجابی پڑھنے کا شوق بھی نہیں ہے، ہر صوبے میں پرائمری یا میٹرک تک کی تعلیم میں مادری زبان کا مضمون شامل ہے، سوائے پنجاب کے۔

سو یہی وجہ ہے کہ یہاں پنجابی نہ پڑھائی جاتی ہے اور نہ ہی لکھی جاتی ہے، لیکن بولی ہر جگہ جاتی ہے۔

خیر اس بار فیض فیسٹیول میں پنجابی مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جو کہ ایک نئی اُمید ہے۔

 21 فروری کو ہر سال ’ماں بولی‘ زبان کا بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے، کتنا ہی بہتر ہو کہ اس سال 21 فروری کو ہمارے میڈیا پلیٹ فارم ہر زبان کو بطور خاص حصہ دیں اور  کتنا ہی اچھا ہو اگر پنجاب کی حکومت اس اہم موقع پر کم از کم سکول کی حد تک پنجابی زبان کو بطور مضمون پڑھانے کا اعلان کر دیں۔

یونیسکو کے مطابق ہر 2 ہفتوں میں ایک زبان اپنی ثقافت اور فکری ورثے سمیت غائب ہو رہی ہے، ان کے مطابق دنیا میں تقریبا 8324 زبانیں بولی جاتی ہیں، اور 7000 اب بھی استعمال میں ہیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ صرف چند سو زبانوں کو  ہی حقیقی طور پر  تعلیمی نظام اور عوامی ڈومین میں جگہ دی گئی ہے۔ اور ڈیجیٹل دنیا میں تو 100 سے بھی کم زبانیں استعمال ہو رہی ہیں۔

مادری زبانوں کا استعمال نہ ہونا صرف ایک زبان کی حد تک مخصوص نہیں ہے، تقریبا سبھی جگہ ایسا ہو رہا ہے، زبانوں کے پھولوں کو اکٹھا کرکے ایک بہترین گلدستہ بنایا جا سکتا ہے، جو خوشی یا غم اور ایک نئی زندگی کی شروعات سمیت ہر جگہ آپ کو خوشی فراہم کرتا ہے۔

سوچیں آپ نے کوئی کامیابی سمیٹی ہو اور ہر زبان کے افراد آپ کو مبارک باد دے رہے ہوں تو کس قدر خوشی ملے گی آپ کو، کہ ہر ر نگ و نسل آپ کی خوشی میں شریک ہے۔ زبانیں سبھی میٹھی، سبھی اچھی اور سبھی سچی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وقار حیدر

ماں بولی وقار حیدر وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ماں بولی وی نیوز وارث شاہ ماں بولی جاتی ہے ملک میں نہیں ہے زبان کا زبان کو کے لیے

پڑھیں:

شاہ رخ خان اپنے بچوں کو فلمی کیریئر پر مشورہ کیوں نہیں دیتے؛ اداکار نے بتادیا

بالی ووڈ کے کنگ خان شاہ رخ اپنے بچوں کو فلم انڈسٹری سے متعلق کوئی مشورہ نہیں دیتے اور اس کی وجہ بتاکر اپنے مداحوں کو حیران کردیا۔

فلم ڈر اور بازیگر سے اپنا نام بنانے والے اور پھر دل والے دلہنیا لے جائیں گے سے دنیا بھر میں شہرت حاصل کرنے والے شاہ رخ خان ساٹھ سال کے ہوگئے۔

اپنی سالگرہ پر ایک خصوصی تقریب میں بات کرتے ہوئے شاہ رخ خان نے اپنے بچوں سہانا خان اور آریان خان کے بارے میں کھل کر بات کی۔

جب اداکار سے پوچھا گیا کہ آپ کے بچے بھی اب فلم انڈسٹری کا حصہ بن رہے ہیں تو کیا آپ ان کو مشورے بھی دیتے ہیں۔

کنگ خان نے مسکراتے ہوئے برجستہ کہا کہ نہیں ، میں اپنے بچوں کو فلمی کیریئر کے حوالے سے کوئی مشورہ نہیں دیتا بس سراہتا ہوں۔

اس کی وجہ بتاتے ہوئے شاہ رخ خان نے کہا کہ تخلیقی لوگوں کو زیادہ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ خود اپنا راستہ بناتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ میں ان کا باپ ہوں اور 35 سال کے کیریئر کے بعد میں ان کو کچھ سیکھاؤں تو ان کے ذہن میں یہ بات آ سکتی ہے کہ پاپا کی بات ماننی پڑے گی۔

اداکار شاہ رخ خان نے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ وہ یہ بوجھ محسوس کریں اور جبراً میری بات مانیں۔ خود سیکھیں۔

کنگ خان نے مزید کہا کہ بیٹی سہانا اداکاری کر رہی ہے اور بیٹا آریان لکھاری اور ہدایت کاری کرتا ہے۔ وہ خود کام کرتے ہیں اور جب کبھی رائے مانگیں تو دیدیتا ہوں۔

شاہ رخ خان نے انکشاف کیا کہ میں کبھی تعریف کرتا ہوں تو کبھی تنقید کردیتا ہوں لیکن آخری بات یہی کہتا ہوں وہی کرو جو تمھیں ٹھیک لگے۔

 

متعلقہ مضامین

  • ‘وائلڈ ایٹ ہارٹ’ اور ‘ریمبلنگ روز’ جیسی یادگار فلموں کی اداکارہ ڈایان لیڈ 89 برس کی عمر میں انتقال کرگئیں
  • حکومتی خواب تعبیر سے محروم کیوں؟
  • شاہ رخ خان اپنے بچوں کو فلمی کیریئر پر مشورہ کیوں نہیں دیتے؛ اداکار نے بتادیا
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • کراچی میں سڑکیں ٹھیک نہیں لیکن بھاری ای چالان کیے جارہے ہیں، حافظ نعیم
  • کبھی لگتا ہے کہ سب اچھا ہے لیکن چیزیں آپ کے حق میں نہیں ہوتیں، بابر اعظم
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
  • شادی میں دلہن کے والد کا نیا انداز، جیب پر کیو آر کوڈ چسپاں کرکے ‘آن لائن سلامی’ وصول کی
  • نریندر مودی اور موہن بھاگوت میں اَن بن کیوں؟