کراچی میں سانس کی بیماریوں میں خطرناک اضافہ:ماہرین کی تنبیہ
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
کراچی میں سانس کی بیماریوں، خاص طور پر انفلوئنزا ایچ ون این ون کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ طبی ماہرین نے شہریوں کو ماسک پہننے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جناح اسپتال کے ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ کے ڈاکٹر نے بتایا کہ اسپتال میں انفلوئنزا ایچ ون این ون کی ویکسین دستیاب نہیں ہے، جس کی وجہ سے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسپتال کے او پی ڈی اور ایمرجنسی دونوں شعبوں میں انفلوئنزا ایچ ون این ون کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے ویکسی نیشن کی سہولت فراہم نہیں کی گئی ہے، جس کی وجہ سے مریضوں کو اپنی جیب سے ویکسین خریدنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس بیماری کے لیے الگ وارڈ مختص نہیں کیا گیا کیونکہ اسے تشویشناک بیماری نہیں سمجھا جاتا،تاہم اگر مریض پہلے سے کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہو تو انہیں آئی سی یو میں داخل کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ڈاکٹرز کے مطابق انفلوئنزا ایچ ون این ون کی بیماری 5 سال سے کم عمر بچوں، 65 سال سے زائد عمر کے بزرگوں اور حاملہ خواتین کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بیماری ان گروپس میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ نمونیہ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ انہوں نے شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور بروقت علاج کروانے کی اہمیت پر زور دیا۔
ماہر متعدی امراض نے بتایا کہ موسم سرما میں سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ انفلوئنزا کی 4اہم اقسام ہیں، جن میں سے اے اور بی سب سے زیادہ عام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کراچی میں انفلوئنزا اے کی ذیلی قسم ایچ ون این ون کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں۔ انفلوئنزا ویکسین دستیاب ہے اور بروقت ویکسینیشن سے اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔
محکمہ صحت سندھ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے ابتدائی ڈیڑھ ماہ میں کراچی میں سانس کے مختلف امراض کے 248 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے انفلوئنزا ایچ ون این ون کے 119 مثبت کیسز شامل ہیں۔ محکمہ صحت سندھ نے سرکاری اسپتالوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ عملے کو حفاظتی کٹ کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے جیسی حفاظتی تدابیر پر عمل درآمد کیا جائے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایچ ون این ون کے کراچی میں کی بیماری انہوں نے
پڑھیں:
پاکستان کیخلاف اقدامات،بھارتی عجلت خطے کیلئے خطرناک
نئی دہلی(طارق محمودسمیر)بھارت کی طرف سے پانی کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے، سفارتی عملے میں کمی اورپاکستان کے ملٹری اتاشی کوناپسندیدہ قراردینااورقانونی طریقے سے بھارت گئے ہوئے پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کاحکم دینامودی سرکار کے جلدبازی میں کئے گئے اقدامات ہیں ،ویسے بھی جب سے بھارت نے مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کی ہے،پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلے ہی سفارتی تعلقات کم سطح پرتھے دونوں ممالک میں ہائی کمشنرسطح کی تعیناتی نہیں تھی اورنہ ہی دونوں ممالک میں اعلیٰ سطح پر کوئی رابطے تھے ،حتیٰ کہ چیمپئنزٹرافی ٹورنامنٹ میں بھی بھارت نے پاکستان آنے سے انکارکیا،بھارتی وزارت خارجہ نے کابینہ اجلاس کے بعد جن اقدامات کااعلان کیاہے ان میں 1960 میں کئے گئے سندھ طاس معاہدے کی معطلی شامل ہے جب بھی مودی اقتدار میں آئے ہیں وہ یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ ختم کردیاجائیگا،بھارت اس معاہدے کی بھی کئی بارخلاف ورزیاں کرچکاہے،بھارت اس معاہدے کی خلاف ورزیاں کرتارہاہے چاہے کشن گنگاڈیم کامعاملہ ہویامقبوضہ کشمیرمیں بنائے جانے والے دیگرڈیمزہوں،پاکستان ان معاملات کو عالمی سطح پرلے کرگیا،بھارت کی طرف سے نئی دہلی پاکستانی ہائی کمیشن میں تعینات پاکستان کے ڈیفنس اتاشی کو سات دن میں بھارت چھوڑنے کااعلان کیاگیااورانہیں ناپسندیدہ قراردیاگیا،پاکستان اور بھارت کے درمیان ماضی میں بھی ناپسندیدہ قراردینے کی روایت موجود ہے،جب کہ سفارتی عملے میں بھی کمی کی جارہی ہے،اسلام آبادمیں بھی بھارتی ہائی کمیشن کے تینوں ملٹری اتاشیوں کو واپس بلالیاگیاہے،بھارت کے حالیہ اقدامات کا جائزہ لیاجائے تو یہ جلدبازی میں کئے گئے ہیں جس سے یہ واضح ہوتاہے کہ گزشتہ روزپہلگام حملے کے بعدجوپروپیگنڈاکیاگیاوہ بھارتی ایجنسیوں کااپناہی ڈرامہ لگتاہے،اگربھارت صرف سفارتی اقدامات تک ہی خود کو محدودرکھتاہے تو خطے میں کم حالات خراب ہوں گے لیکن اگر بھارت نے پلوامہ کے بعد جیسی صورتحال پیداکرنے کی کوشش کی اور پاکستان پر کسی قسم کافضائی یاکوئی اورحملہ کیاتو اس سے بھارت کوبھی نقصان ہوگااورخطے میں بھی امن خراب ہوگاکیونکہ پاکستان کی فوج ہرطرح کی جارحیت کابھرپورجواب دینے کی اہلیت رکھی ہے ،دراصل بھارتی ریاست اس مخمصے میں مبتلا ہے کہ دہشتگردی کے حالیہ واقعے کا الزام پاکستان پر ڈالے یا اپنی سکیورٹی کی ناکامی کو تسلیم کرے جبکہ گزشتہ 30 برسوں سے مقبوضہ وادی میں 8 لاکھ سے زائد فوج تعینات ہے اور آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھارت نے حالات معمول پر آنے اور سیاحت کے فروغ کا دعویٰ کیا مگر دہشتگردی کا واقعہ وادی کے قلب میں انہی دعوؤں کو چیلنج کر گیا۔ بھارتی بیانیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دہشتگرد ایل او سی عبور کر کے 70 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پہلگام جیسے انتہائی محفوظ اور گنجان آباد علاقے (جسے “منی سوئٹزرلینڈ” کہا جاتا ہے) تک پہنچے اور صرف ان افراد کو نشانہ بنایا جنہیں وہ کشمیری جدوجہد کے لیے نقصان دہ سمجھتے تھے یعنی غیر ملکی اور ہندو سیاح۔ اس حملے میں شہید ہونے والے مسلمان کو بھارتی میڈیا نے یکسر نظرانداز کیا، واقعہ 20 منٹ سے زائد جاری رہا، مگر سیکیورٹی فورسز کا کوئی مؤثر ردعمل نہ آنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔واقعے کے چند ہی لمحوں بعد، ایک را کی پشت پناہی سے چلنے والا اکاؤنٹ “بابا بنارس” فوری طور پر پاکستان اور لشکرِ طیبہ سے منسلک ٹی آر ایف پر انگلی اٹھاتا ہے حالانکہ نہ ٹی آر ایف نے ذمہ داری قبول کی اور نہ ہی کوئی قابلِ اعتبار ثبوت پاکستان سے روابط کی تصدیق کرتا ہے۔یہاں تک کہ جس پی ٹی سی ایل کوڈ (949) کا ذکر کیا گیا وہ بھی پاکستان سے مطابقت نہیں رکھتا۔اس کے باوجود، بھارتی میڈیا وہی بیانیہ دہراتا ہے اور چند لمحوں میں بھارت، جو خود کشمیریوں اور سکھوں پر بدترین مظالم ڈھا رہا ہے، دہشتگردی کا “شکار” بن کر پیش آتا ہے۔ دوسری طرف، پاکستان نے بھارت کی ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشتگردی کے واضح اور ناقابلِ تردید شواہد عالمی برادری کے سامنے رکھے ہیں جن میں BLA کی جانب سے حملے کی ذمہ داری کا اعتراف اور اس کا بھارت سے تعلق شامل ہے۔ پاکستان ہمیشہ دہشتگردی کی مذمت کرتا آیا ہے ریاستی اداروں کے دباؤ پر بھارتی میڈیا جس جنگی جنون کو ہوا دے رہا ہے، وہ مودی حکومت کو پاکستان کے خلاف جلد بازی میں کوئی اقدام اٹھانے پر اکسا رہا ہے۔ یہ راستہ نہ صرف خطے بلکہ بھارت کے لیے بھی انتہائی خطرناک نتائج کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
Post Views: 1