پاکستان کی چین کو چلغوزے کی برآمدات 18 ملین ڈالر سے تجاوز کرگئیں
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
اسلام آباد : چین پاکستانی چلغوزے کی سب سے بڑی منڈیوں میں سے ایک بن گیا ہے،گزشتہ سال پاکستان کی چین کو چلغوزے کی برآمدات 18 ملین ڈالر سے تجاوز کرگئیں۔
چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق چین کی جنرل ایڈمنسٹریشن آف کسٹمز (جی اے سی سی) کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ 2024 میں پاکستان کی جانب سے چین کو پائن نٹ کی برآمدات 18.
اس طرح چین پاکستانی چلغوزے کی سب سے بڑی منڈیوں میں سے ایک بن گیا ہے، جو سال کے دوران چین کی جانب سے درآمد کیے جانے والے 53.71 ملین ڈالر مالیت کے چلغوزے کا 35 فیصد ہے۔
ہانگڑو میں ایک فوڈ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو یار محمد نیاز نے چائنا اکنامک نیٹ کو بتایا کہ پاکستانی چلغوزے اپنے غیر معمولی ذائقے اور معیار کی وجہ سے چین میں بے پناہ مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نے فروخت میں اضافے کا سہرا 2023 میں بڑے ای کامرس پلیٹ فارمز پر پاکستانی چلغوزے کے وسیع پیمانے پر فروغ کو دیا۔
چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق پاکستانی چلغوزے اپنے بھرپور ذائقے اور ہموار ساخت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، جو انہیں چینی صارفین کے لئے پسندیدہ انتخاب بناتے ہیں۔ چینی نئے سال اور دیگر روایتی تہواروں ، جیسے لالٹین فیسٹیول کے دوران ان کی بڑھتی ہوئی موجودگی ، چینی ثقافت میں صحت ، خوشحالی اور لمبی عمر کی علامت کے طور پر ان کی حیثیت کو اجاگر کرتی ہے۔
نیاز نے کہا کہ وہ ان اہم مواقع کے دوران دوستوں اور خاندان کے لئے خوش قسمتی کی علامت کے طور پر ایک مثالی تحفہ بناتے ہیں۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی چلغوزے کا کریمی اور مکھن ذائقہ تہوار کی مٹھائیوں اور اسنیکس کی تکمیل کرتا ہے جبکہ ان کی پریمیم پیکیجنگ پرتعیش تحفے کے طور پر ان کی مقبولیت میں اضافہ کرتی ہے۔ ان چلغوزوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پاکستان اور چین کے درمیان خاص طور پر ان اہم تقریبات کے دوران مضبوط تجارتی اور ثقافتی تعلقات کا ثبوت ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستانی چلغوزے ملین ڈالر چلغوزے کی کے دوران
پڑھیں:
برآمدات اور چکوال کا کلاؤڈ برسٹ
دنیا کی عالمی تجارتی منڈی ایک شوریدہ بازار ہے، جہاں ہر قوم اپنے ہنر، عقل، حکمت، ہاتھوں کی صفائی، دلکشی، رعنائی کو قیمت بنا کر پیش کرتی ہے، کہیں پیکنگ کو تجارتی سفارتکار دیکھ کر عش عش کر اٹھتے ہیں، کہیں کم قیمت سمجھ کر سیانا تاجر دل سے قبول کر لیتا ہے، کوئی ٹیکنالوجی کی بانسری بجا رہا ہے، جس کی دھن پر تاجر کروڑوں کا آرڈر دینے کے لیے تیار نظر آتا ہے اور کوئی زرعی پیداوار کے ڈھول پر ان امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کو رقص کرواتا ہے۔
ان سب کے پیچھے کہیں کچھ پاکستانی تاجر دھول میں اٹے کپڑوں کے ساتھ کسی کے ہاتھ میں چاول کی تھال ہے، کسی نے بکرے کی ران نمائش کے لیے سنبھال رکھی ہے اور کوئی مختلف اقسام کی اشیا جوتے، لیدر گارمنٹ اور چند چیزیں لیے کھڑا ہے۔ ان میں ٹیکسٹائل ملوں کا وہ صنعت کار بھی ہے جس کے ہاتھ میں کچھ سلے کچھ ان سلے کپڑے اور دیگر اشیا موجود ہیں۔
اس تجارتی منڈی میں تاجر، صنعت کار، تجارتی سفارت کار درآمد اور برآمد کا کاروبار کرنے والے آتے ہیں، سامان دیکھتے ہیں اور پھر دوسرے ملکوں کو آرڈر دے دیتے ہیں، کسی کی برآمدات پاکستان سے دگنی کسی کی تگنی اور چوگنی والے بھی ہیں اور 10 گنا والے ویتنام جیسے بھی ہیں۔ جی ہاں ویتنام جنگ زدہ، جہاں امریکا نے 60 اور 70 کی دہائی میں دل کھول کر بمباری کی تھی، اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے لیکن اب ہم بھی تو مشرقی پڑوسی کو تگنی کا ناچ نچا کر فاتح ہو گئے اور تجارتی منڈی میں آنے کا وقت آ گیا ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان کو ہم عالمی مارکیٹ میں اپنے حق میں کیش کرانے کا ہنر آزمانا ہوگا، جنھوں نے کہا ہے کہ 5 طیارے مار گرائے گئے اور جنگ بندی ہو گئی تو تجارت بڑھے گی انھوں نے راستہ بنا دیا۔
یہ دنیا ہے یہاں کچھ غنودگی کے عالم میں ہوں گے ان کو باور کرایا جائے پانچ یا 6 طیارے دراصل ہم نے گرائے ہیں اور اب ہم تجارتی منڈی میں فتح کرنے آئے ہیں، لیکن اس سے قبل ہم اپنی برآمدی کیفیت کو دیکھ لیتے ہیں۔ پاکستان کی برآمدات برائے 2024-25 محض 32 ارب ڈالر جس میں 3 ارب 35 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز کے چاول فروخت کیے۔ 16 کروڑ65 لاکھ ڈالرز کے تمباکو بیچ دیے، 49 کروڑ51 لاکھ ڈالرز کا گوشت دنیا کو فروخت کیا ہے، ٹیکسٹائل گروپ کی برآمدات کا حجم رہا 17 ارب 88 کروڑ70 لاکھ ڈالرز۔ اور 4 ارب 23 کروڑ ڈالرز کی دیگر مصنوعات جس میں لیدر گارمنٹس، فٹ ویئر، قالین، گلوز، سرجیکل آئٹمز، کھیلوں کا سامان اور دیگر اشیا شامل ہیں۔
دنیا نے 10 مئی کے بعد پاکستان کو خوب بدلا ہوا سمجھ لیا۔ صدر ٹرمپ یوں ہی بار بار ہماری فتح کے شادیانے نہیں بجا رہے۔ اب ہمیں آگے بڑھ کر تجارتی منڈی میں بھی اپنا لوہا منوانا ہے۔ حکومت اپنی سمجھ کے مطابق کوئی بھی ہدف مقرر کرے کہ 2025-26 کا برآمدی ہدف 35 یا 37 ارب سمجھا جائے، ہم نے اس سے بھی آگے جانا ہے۔
60 سے 70 ارب ڈالر فی الحال۔ یہ سب ممکن ہے، چند دن تیاری کے لیے لیں اور اب گیارہ ماہ باقی ہیں۔ لیکن ذرا ٹھہریے58 ارب ڈالرز کی درآمدات آخر ایسا کیوں، سوائے پٹرولیم مصنوعات کے ہم اپنی زیادہ تر درآمدات ان ملکوں سے منگواتے ہیں جو صنعتی ممالک ہیں، امیر ترین ہیں لیکن اسرائیل جو غزہ میں درندگی سے باز نہیں آ رہا، اس کے زبردست مواقع پیدا ہوں گے اور پاکستان کے معاشی مسائل کا حل یہی ہے کہ برآمدات سے زیادہ درآمدی بل سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
گزشتہ دنوں چکوال میں کلاؤڈ برسٹ کے باعث ایسا معلوم ہوا جیسے آسمان برس پڑا ہو۔ پھر چند ہی لمحوں میں ایسا طوفانی ریلا آیا جس سے ہزاروں درخت اکھڑ گئے، مویشی بہہ گئے، چکوال شہر کا زیادہ تر حصہ ڈوب گیا، 9 پل ٹوٹ گئے، 5 سڑکیں تباہ ہوگئیں، نصف درج ڈیمز ٹوٹ گئے۔ یہ کوئی فطری حادثہ نہیں تھا یہ ایسی ماحولیاتی بغاوت تھی جسے خود عوام نے بلایا تھا۔ ہر طرف تباہی کا منظر تھا ایسے میں کئی نوجوان اور ادھیڑ عمر افراد نے لوگوں کی مدد کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ متعدد رضاکار پانی میں اتر گئے۔
درجنوں افراد کو بروقت نکالا۔ ہر طرح کی امداد گھر گھر پہنچائی، ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ موسمیاتی ریڈار سسٹم لگایا جائے۔ بارش کے پانی کا قدرتی بہاؤ محفوظ کیا جائے، اسی طرح راولپنڈی اور اسلام آباد بھی شدید متاثر ہوئے۔ نالہ لئی تو ہر سال بپھر جاتا ہے جس کا صحیح انتظام کیا جائے۔ اسی طرح پنجاب کے دیگر شہر خصوصاً لاہور شدید بارشوں سے متاثر ہوا۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے حکومت اس سلسلے میں فوری طور پر تمام ممکنہ حل پر عملدرآمد کرے جس میں رضاکاروں کی تربیت بھی نہایت ہی اہم ہے۔