سہون ،زائرین لعل شہبازقلندرؒ کے عرس کے موقع پرمزار کے اندر جانے کیلیے قطار میں لگے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں ،سیکورٹی اہلکار چوکس کھڑا ہے
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
سہون ،زائرین لعل شہبازقلندرؒ کے عرس کے موقع پرمزار کے اندر جانے کیلیے قطار میں لگے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں ،سیکورٹی اہلکار چوکس کھڑا ہے.
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
قدرت کا نظام، درجنوں نایاب مادہ کچھوے اپنی نسل بڑھانے کیلیے ساحل پر جمع
افزائش کا موسم آتے ہی درجنوں مادہ کچھوے تولید اور انڈے دینے کے لیے دنیا کے مختلف ساحلوں پر جمع ہوگئے ہیں، یہ مسحور کن منظر محبت کرنے والوں کیلیے انتہائی مسحور کن ہوتا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اڑی باڈا ساحل پر ورطہ حیرت میں مبتلا کردینے والی سرگرمی ہوئی جس کے دوران زیتونی (اولیو ریڈلی) نسل کے مادہ کچھوے بیک وقت سینکڑوں کی تعداد میں ہزاروں کے قریب انڈے دینےکے لئے بحرِ ہند، بحرالکاہل اور بحراوقیانوس کارخ کرتے ہیں۔
ماہرین اڑی باڈا کے نظارے کو قدرت کا ایک عجوبہ قراردیتے ہیں، بدقسمتی سے گرین ٹرٹل کے علاوہ ملنے والی کچھووں کی دوسری نسل(زیتونی کچھووں) نے کراچی سمیت پاکستان کےساحلوں سےمنہ موڑلیا، سن 2001کے بعد پاکستان میں کسی بھی اولیور یڈلی کا گھونسلہ نہیں ملا۔
ویسے دنیا بھرمیں سمندری کچھوؤں کی7 اقسام پائی جاتی ہیں،ان میں سے 5 اقسام کے کچھوے سن 1970 تک پاکستان کےساحلوں کا رخ کرتے اورافزائش نسل کے لیے بھی ان کی ہرسال تواترسے آتے تھے تاہم اس کے بعد آنے والے برسوں میں یہ المیہ رہا کہ ابتدا میں صرف 2 ہی اقسام کے کچھوے پاکستان میں ملنے لگے۔
ان میں سے ایک گرین ٹرٹل نسل جبکہ دوسری نسل زیتونی کچھووں کی تھی۔
اولیو ریڈلے کچھوا دنیا کے سب سے چھوٹے اورسب سے زیادہ تعداد میں پائے جانے والے سمندری کچھوؤں میں شمارہوتا ہے، اس کا نام اس کی زیتون جیسے سبزرنگت کی وجہ سےدیا گیا ہے۔
یہ کچھوے گرم پانی والےسمندری علاقوں میں پائے جاتے ہیں،نامعلوم وجوہات کی بنا پر زیتونی کچھووں نے پاکستانی ساحلوں کو خیرباد کہہ دیا ہے۔
اب پاکستان میں پائی جانے والی واحد نسل گرین ٹرٹلز(سبزکچھووں ) کی رہ گئی ہے، پاکستانی سمندروں سے روٹھنے والے اولیوریڈلی(زیتونی)کچھووں کی نسل کے افزائش نسل کے ایسے نظارے دیکھنے کوملتے ہیں جو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔
یہ منظراپنے دامن میں پراسراریت کے ساتھ دلکشی کا بھی حامل ہوتا ہے، افزائش نسل کے اس انداز کی عجیب اورشاندار فطری سرگرمی ایک قدرتی اورنایاب مظہر ہے، جس میں ہزاروں کی تعداد میں اولیو ریڈلے کچھوے بیک وقت ساحل پر انڈے دینے کےلیے جمع ہوتے ہیں۔
یہ نظارہ دنیا کے صرف چند مخصوص مقامات پر ہوتا ہے۔ ماہرین قدرتی طورپرمربوط اس عمل کو سمندری حیات کی بقا کے لیے نہایت سمجھتے ہیں اور اس منفرد سمندری سرگرمی کو اڑی باڈا کہتے ہیں جوکہ ایک ہسپانوی زبان لفظ ہے، اسکے معنی سمندر کے ذریعے آمد ہے۔
افزائش کی اس سرگرمی کے دوران سینکڑوں مادہ کچھوے انتہائی منظم اندازمیں ہزاروں کی تعداد میں مادہ زیتونی کچھوے انڈے دینے کے لیے رخ کرتی ہیں، یہ منفرد سرگرمی بحرالکاہل، بحراوقیانوس اور بحرہند کے ریتلے ساحلوں پردیکھنے کوملتی ہے۔
ماہرین کے مطابق لاایسکو بیلا میکسیکوایک اندازے کے مطابق ساڑھے چارلاکھ گھونسلے بنانے والی مادہ کچھووں کی میزبانی کرتاہے، کوسٹاریکا، نانسیٹا اوراوسٹناول چھ لاکھ مادہ کچھووں کوافزائش نسل کے لیے خوش آمدید کہتا ہے۔
اڑی باڈا کے لیےبھارت کے اڑیسہ کے قریب گوہیرماٹھا اور اڑیسہ کے قرب میں ہی ایک دوسرامقام روشی کول بھی مشہورہے۔
اڑی باڈا کا سمندری سرگرمی سال میں ایک یا دو بار مخصوص ساحلی مقامات پر ہوتا ہے اورکئی دنوں تک جاری رہتا ہے۔
اولیوریڈلے کے اڑی باڈا نظارہ نہ صرف قدرت کا ایک عجوبہ ہے بلکہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہےکہ فطرت میں ہرشے ایک خاص نظام اورہم آہنگی سے جڑی ہے، اس کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے تاکہ یہ حسین قدرتی منظر آنے والی نسلیں بھی دیکھ سکیں۔
تولیدی عمل اورانڈے دینے کے لیے مادہ کچھوے ساحل پرعام طورپررات کے اس وقت قطار در قطار پہنچتی ہیں، جب ہرسو چاندنی پھیلی ہوتی ہے، مادہ کچھوا اپنی پچھلی ٹانگوں سے ریت میں ایک گہرا گڑھا کھودتی ہے، ہرمادہ تقریباً 100 سے 120 انڈے دیتی ہے۔
انڈے دینے کے بعد مادہ گڑھےکو ریت سے ڈھانپ دیتی ہیں تاکہ انڈے محفوظ رہیں،انڈوں کو ھانپنے کے بعد مادہ کسی انجانی منزل کی جانب سمندرمیں روانہ ہوجاتی ہے اور تقریباً 45 سے 60 دن بعد انڈوں سے بچے نکلتے ہیں جو خود بخود سمندر کی طرف بڑھتے ہوئے اپنے لیے زندگی کے نئے راستے تلاش کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ہزاروں کچھوؤں کا ایک ساتھ آنا ایک غیر معمولی ہم آہنگی کی مثال ہے، کچھ مقامات پر اسے ماحولیاتی سیاحت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک دلکش نظارہ ہوتا ہے۔
اولیو ریڈلے کا ٹریک پاکستان میں بھی موجود ہے، اس معدومیت کے پیچھے کیا کیمیا ہے اس کوآج تک کوئی حل نہیں کرسکا۔
ڈبیلوڈبیلوایف کے تیکنیکی مشیرمعظم خان کےمطابق زیتونی کچھووں کےناپید ہونے کے درپردہ کوئی ٹھوس وجہ اب تک سامنے نہیں آسکی تاہم یہ بات امکانات میں شامل ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے یہ نسل ناپید ہوئی ہے۔
آئی یوسی این کےنیچرل ریسورس مینجمنٹ کوآرڈینٹر ڈاکٹربابرحسین کی رائےاس سےقدرے مختلف ہے اور ان کا کہنا ہے کہ سن 2003 میں کراچی کے سمندروں میں تسمان اسپرٹ کے تیل رساو کا واقعہ اولیوریڈلی کےمعدومیت کی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ اس آئل اسپل کے بعد زیتونی کچھوے پاکستان میں نہیں دیکھے گئے۔