ٹرمپ کا عالمی گریٹ گیم اور نیو ورلڈ آرڈر کی تیاری
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
حافظہ طوبی ثانی
یہ تحریر ایک ایسے شخص کے متعلق ہے جس کی مخالفت جہاں زورو شور سے کی جاتی ہے وہیں اس کا اقتدار ہر مرتبہ دنیا کو ایک نیا نقشہ یعنی ایک نیا ولڈآرڈر دیتا ہے۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ:
First they ignore you, then they laught at you, then they fight you, then you win.
ٹرمپ اور اس کی حکمرانی کا خاکہ کچھ اسی طرح کی منظر کشی کرتا ہے۔ دراصل ٹرمپ ہمیشہ سے جنگل کے قانون کا حامی رہا ہے، جس کا ثبوت اس نے منتخب ہوتے ہی اہم اقدامات کے ساتھ دیا یعنی امریکا سے لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنا، پاناما کینال پر امریکی قبضہ، میکسیکو کی سرحد پر ملٹری فورس کے ذریعے ایمرجنسی نافذ کرنا، سیاسی پناہ اور پیدائشی حق شہریت کو ختم کرنا، موت کی سزا کو دوبارہ متعارف کرانا، پیرس معاہدے سے دستبردار ہونا، قابل تجدید ذرائع سے واپس فوسل فیولز پر منتقلی اور پرو فلسطینیوں کے خلاف کارروائیاں اور اسی طرح ولڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے دستبرداری اور نئی جہتوں کے ساتھ معاشی، سیاسی اور اقتصادی جنگیں شامل ہیں۔ اور مسلمانوں کے لیے سب سے اہم پالیسی کہ غزہ کو دوبارہ آباد کریں گے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ آنے والے وقت میں اپنے گندے عزائم اور دنیا کے لیے ایک نئے محاذ کا صاف اعلان کر چکا ہے جو نہ صرف عالمی صورتحال کو بلکہ تیسری دنیا اور مشرق وسطیٰ کو خصوصاً بری طرح متاثر کرنے والا ہے غرض نئے عالمی نظام کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات جاری کر دیے گئے ہیں۔
دنیا کو گریٹ وارز سے گزارتے ہوئے گریٹ اسٹرائیک کے ذریعے نئے آرڈر کی طرف دھکا دے دیا گیا ہے۔ انگلینڈ، جرمنی و فرانس اپنا جنگی بجٹ بڑھا چکے ہیں۔ یوکرائن وار روس میں داخل ہو چکی ہے۔ عالمی اداروں کی توڑ پھوڑ جاری ہے، 330 روزہ فلسطین اسرائیل جنگ میں اقوام متحدہ اور عالمی عدالتیں اسرائیل کو جنگ بندی پر راضی کرنے میں مکمل ناکامی کا شکار ہیں۔ ایران کے سیکورٹی زون میں گھس کر حملے کیے جاتے ہیں۔ دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت پاکستان مجبور و بے بس دکھائی دے رہی ہے اور اپنے دفاعی بجٹ سے زیادہ ’’پاور جنریشن‘‘ مافیہ کو کپیسٹی چارجز کے نام ادائیگیوں پر مجبور ہے۔دنیا کی سب سے بڑی اسلامی عرب ریاست کے سربراہ سرعام کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں تو ان کے عوام اور اگر نہیں کرتے تو طاغوتی طاقتیں انہیں قتل کر دیں گی۔ روس یوکرائن کی شکل میں یورپ جنگ کے دھانے پر کھڑا ہے۔ کسی بھی وقت ایران کو جنگ میں دھکا دیکر امریکا کو بھی اس میں الجھایا جاسکتا ہے اور علاقائی جنگ کی قیادت اسرائیل اپنے ہاتھ لیتے ہوئے اعلانیہ ’’مڈل ایسٹ‘‘ کو متاثر کرسکتا ہے۔
پاکستان کو معاشی بدحالی میں دھکا دینے کی بات ہو یا اس کا تعلق دنیا میں ہونے والے کسی بھی قابل ذکر واقعے سے یہ سب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک ہی گریٹ گیم کا حصہ ہیں کہ جس پر عالمی شیطانی منصوبہ ساز دنیا کو ایک ایسے دہانے پر لانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں جہاں سب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں گے۔ مگر افسوس کہ کچھ مسلم ممالک میں جہاں خون کی ہولی کئی برسوں سے جاری ہے اور دیگر ممالک اس میں تماشائی بنے ہوئے ہیں اس طرح ایک دن مسلمان اپنی ساخت کھو سکتے ہیں، مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسی پالیسیوں پر کام کریں جو انہیں اس گریٹ گیم کا نشانہ بننے سے روک سکیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی مہم، امن کی کوشش یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟
اسلام ٹائمز: اگر واقعی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا لبنان کی آزادی اور امن کے لئے ہوتا، تو سب اس کا خیرمقدم کرتے لیکن جب یہ مطالبہ دشمن کی طرف سے آئے، دباؤ کے ذریعے نافذ ہو اور مزاحمت کی آخری لائن کو ختم کرنے کی کوشش ہو تو ہمیں پوچھنا چاہیئے کہ کیا ہم ایک ایسا لبنان چاہتے ہیں جو باوقار، آزاد اور مزاحمت کا علمبردار ہو؟ یا پھر ایک ایسا لبنان جو کمزور، مطیع اور اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہو۔ تحریر و آزاد تجزیہ: سید نوازش رضا
2025ء کا سال لبنان، شام، فلسطین اور پورے مشرق وسطیٰ کے لیے ایک انقلابی دور بن چکا ہے۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ، جولانی کی مغرب نواز حکومت کا قیام، حزب اللہ کی قیادت بشمول سید حسن نصراللہ کی شہادت، اور اسرائیل کی لبنان میں براہ راست عسکری موجودگی جیسے عوامل نے پورے خطے کا توازن بدل دیا ہے۔ ان حالات میں لبنانی حکومت پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا غیر معمولی دباؤ ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اور مغربی طاقتیں اسے لبنان کے امن کی ضمانت بنا کر پیش کر رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ۔۔ کیا یہ واقعی امن کی کوشش ہے یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟
حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی بات، حقیقت ہے یا فریب؟
اس وقت دنیا کو جو بیانیہ دیا جا رہا ہے وہ یہ ہے "لبنان کی خودمختاری اور امن کے لیے، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا ضروری ہے!" لیکن کیا یہ واقعی لبنان کے حق میں ہے؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ مطالبہ امریکہ اور اسرائیل کی ترجیح ہے کیونکہ حزب اللہ وہ واحد قوت ہے جس نے اسرائیل کو نہ صرف روک کر دکھایا بلکہ 2006ء کی جنگ میں سیاسی و عسکری سطح پر شکست دی۔ اگر آج حزب اللہ کے ہتھیار لے لیے جائیں تو لبنان مکمل طور پر غیر مسلح ہو جائے گا جبکہ اسرائیل ایک ایٹمی طاقت کے ساتھ لبنان کی سرحد پر بیٹھا ہے۔ تو کیا یہ برابری کا نظام ہوگا؟ کیا یہ امن ہوگا یا کمزوروں کو مزید کمزور کرنا ہوگا؟
لبنانیوں کے سامنے شام کا تجربہ ہے
بشار الاسد کی حکومت کا امریکہ، مغرب، ترکی اور اسرائیل کی حمایت سے مسلح گروہوں کے ذریعے تختہ الٹا گیا۔ پھر کیا ہوا؟ اسرائیل نے شام کی فوجی طاقت کو تباہ کر دیا، جولان کی پہاڑیوں سے نیچے آگیا اور پیش قدمی جاری رکھی۔ آج شام کے ٹکڑے کیے جا رہے ہیں اور ملک مکمل طور پر اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہے۔ شام کی آزادی، خودمختاری اور مزاحمت ختم ہو چکی ہے۔ کیا لبنانی بھی یہی تجربہ دہرانا چاہتے ہیں؟ کیا وہ اسرائیل اور امریکہ پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟
حزب اللہ کی طاقت اور اس کا کردار
یہ سچ ہے کہ حزب اللہ کے پاس ریاست جتنی طاقت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا اس طاقت کا غلط استعمال کیا؟ کیا وہ لبنان کی حکومت کا تختہ الٹنے نکلے؟ کیا انہوں نے اپنی فوجی طاقت کو اپنے شہریوں پر آزمایا؟ حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ نے اپنی طاقت کو صرف ایک ہی مقصد کے لیے استعمال کیا ہے، اسرائیل کے خلاف مزاحمت۔ جب شام میں داعش اور تکفیری گروہ آئے تو حزب اللہ لبنان کی سرحدیں بچانے کے لیے آگے آئی جبکہ باقی سیاست دان صرف بیانات دے رہے تھے۔
حزب اللہ لبنان میں ایسی جماعت نہیں ہے جسے ایک عام سیاسی جماعت کے طور پر دیکھا جائے۔ اس کا سیاسی و عسکری ڈھانچہ منظم اور طاقتور ہے۔ لبنانی سیاست پر اس کی گرفت ہے اور فوج کے اعلیٰ عہدوں پر اس کے حامی اور شیعہ افراد موجود ہیں۔ یہ ایک ریاست کے اندر مکمل طاقتور ریاستی نیٹ ورک رکھتی ہے۔ اس کے فلاحی کام صرف شیعہ علاقوں تک محدود نہیں بلکہ سنی اور عیسائی آبادیوں میں بھی اس کا فلاحی نیٹ ورک متحرک ہے۔ اسکول، اسپتال، امدادی تنظیمیں۔ سب حزب اللہ کی خدمات کا حصہ ہیں۔
حزب اللہ کی کمزوری، ایک تاثر یا حقیقت؟
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ حزب اللہ اب کمزور ہو چکی ہے۔ اس کا سبب ہے کہ شام میں بشار الاسد حکومت کا خاتمہ، جس کے باعث حزب اللہ کی سپلائی لائن کٹ گئی ہے۔ سید حسن نصراللہ سمیت کئی اعلیٰ قیادتوں کی شہادت، جس سے تنظیم کو گہرا دھچکہ پہنچا ہے۔ اسرائیلی حملوں میں اس کے اسلحہ ڈپو اور قیادت کو نشانہ بنایا گیا لیکن کیا یہ کمزوری عارضی ہے یا مستقل؟ کیا حزب اللہ مکمل طور پر مفلوج ہو چکی ہے؟ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ حزب اللہ اب بھی منظم، مسلح اور نظریاتی طور پر مزاحمت کے لیے تیار ہے۔
اگر حزب اللہ کو غیر مسلح کردیا جائے، پھر کیا ہوگا؟
اگر حزب اللہ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا جائے تو کیا اسرائیل اپنی فوجیں پیچھے ہٹا لے گا؟ نہیں۔ بلکہ وہ اور آگے بڑھے گا، یہی اس کی پالیسی رہی ہے: ’’خطرہ ختم ہو تو قبضہ بڑھاؤ‘‘۔ لبنان کی فوج کیا اسرائیل کے خلاف مزاحمت کر سکتی ہے؟ سادہ جواب ہے کہ نہیں۔ وہ نہ صرف کمزور ہے بلکہ فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار ہے۔ تو پھر کیا لبنان اپنی بقاء کے لیے امریکہ، فرانس یا اقوام متحدہ پر انحصار کرے؟ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ سب طاقتوروں کے ساتھ ہوتے ہیں، کمزوروں کے ساتھ نہیں۔
کیا حزب اللہ کو تنقید سے بالاتر سمجھا جائے؟
بالکل نہیں، کوئی بھی انسانی ادارہ، چاہے وہ مذہبی ہو یا عسکری، تنقید سے بالاتر نہیں ہو سکتا لیکن تنقید کا معیار یہ ہونا چاہیئے، اگر حزب اللہ نے کرپشن کی ہو، لبنانی عوام کو لوٹا ہو، فرقہ واریت کو بڑھایا ہو، یا ذاتی مفاد کے لیے ہتھیار اٹھائے ہوں تو وہ تنقید کے قابل ہیں، لیکن اگر کسی گروہ نے صرف دشمن کے خلاف مزاحمت کی ہو، غریب علاقوں میں فلاحی نظام قائم کیا ہو، دفاعِ وطن کی خاطر جانیں قربان کی ہوں، تو پھر حزب اللہ کے خاتمے کا مطالبہ حکمت نہیں بلکہ قومی خودکشی ہے۔
نتیجہ: ایک جائز سوال
اگر واقعی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا لبنان کی آزادی اور امن کے لئے ہوتا، تو سب اس کا خیرمقدم کرتے لیکن جب یہ مطالبہ دشمن کی طرف سے آئے، دباؤ کے ذریعے نافذ ہو اور مزاحمت کی آخری لائن کو ختم کرنے کی کوشش ہو تو ہمیں پوچھنا چاہیئے کہ کیا ہم ایک ایسا لبنان چاہتے ہیں جو باوقار، آزاد اور مزاحمت کا علمبردار ہو؟ یا پھر ایک ایسا لبنان جو کمزور، مطیع اور اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہو۔
اصل تحریر:
https://hajij.com/en/articles/political-articles-analysis/item/2935-the-campaign-to-disarm-hezbollah-a-peace-effort-or-the-agenda-of-the-powerful