ایک کروڑ اوورسیز پاکستانیوں کی کہانی
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
دنیا بھر میں پاکستانی اوورسیز کی تعداد تقریباً نوے لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان ہے۔ یہ افراد مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں جن میں سب سے زیادہ پاکستانی خلیجی ممالک یورپ، شمالی امریکہ، اور آسٹریلیا میں رہتے ہیں۔ خلیجی ممالک میں پاکستانیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے کیونکہ یہ ممالک پاکستانی مزدوروں اور پیشہ ور افراد کے لیے روزگار کے بڑے مراکز ہیں۔ سعودی عرب میں تقریباً25 سے 30 لاکھ پاکستانی رہتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں یہ تعداد 10سے 15لاکھ کے درمیان ہے۔ عمان میں ڈھائی لاکھ پاکستانی ہیں جبکہ قطر اور کویت میں ہر ایک میں ایک سے ڈیڑھ لاکھ پاکستانی رہائش پذیر ہیں۔ بحرین میں پاکستانیوں کی تعداد 80 ہزار کے قریب ہے۔ یورپ میں پاکستانی برطانیہ میں سب سے زیادہ ہیں جہاں ان کی تعداد 20 لاکھ تک ہے۔ اٹلی میں ایک سے ڈیڑھ لاکھ پاکستانی رہتے ہیں جبکہ یونان میں پچاس سے 70 ہزار پاکستانی ہیں۔ جرمنی میں ایک لاکھ کے قریب پاکستانی ہیں اور اسپین میں پاکستانیوں کی تعداد پچاس سے ساٹھ ہزار کے درمیان ہے۔ شمالی امریکہ میں پاکستانیوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ امریکہ میں پانچ سے چھ لاکھ پاکستانی رہتے ہیں جبکہ کینیڈا میں تین سے چار لاکھ پاکستانی ہیں۔ آسٹریلیا میں ایک لاکھ جبکہ نیوزی لینڈ میں پندرہ ہزار پاکستانی مقیم ہیں۔ ایشیاء اور دیگر ممالک میں بھی پاکستانیوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ ملائیشیا میں اسی ہزار اور چین میں تیس ہزار پاکستانی ہیں۔ جنوبی کوریا میں پندرہ ہزار اور جاپان میں بیس ہزار پاکستانی رہائش پذیر ہیں۔ یہ اعداد و شمار تخمینی ہیں اور مختلف ذرائع کے مطابق تھوڑا بہت فرق ہو سکتا ہے۔ پاکستانی اوورسیز کی تعداد میں وقت کے ساتھ تبدیلی آتی رہتی ہے۔
تارکین وطن کی زندگی ایک ایسی جدوجہد ہے جس میں ہر قدم پر مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ وطن سے دوری، غیر ملکی ماحول میں اجنبیت اور اپنے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری ان کے دوش پر ہوتی ہے۔ لیکن جب وہ اپنے وطن واپس لوٹتے ہیں تو ان کی مشکلات کم ہونے کے بجائے اور بڑھ جاتی ہیں۔ ائیرپورٹ پر ان کا سامنا کسٹمز اور امیگریشن کے اہلکاروں کے سخت رویے سے ہوتا ہے جو ان کی واپسی کو ایک مشکل امتحان بنا دیتا ہے۔ مزید برآں خاندان کے اندر جائیدادوں پر قبضے اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم کے مسائل ان کے لئے نئے چیلنجز کھڑے کر دیتے ہیں۔ یہ تمام عوامل مل کر تارکین وطن کی زندگی کو مزید پیچیدہ اور دشوار گزار بنا دیتے ہیں ۔ پاکستان میں ایسے ادارے موجود ہیں جن کا کام ان مسائل کو حل کرنا ہے مگر یہ ادارے ان مسائل کو حل کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ خلیجی ممالک میں کفالت (کفالہ) نظام کے تحت مزدوروں کا استحصال بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کم اجرت اور غیر منصفانہ کام کے حالات پاکستانی مزدوروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ روزگار کی عدم تحفظ اور نوکری سے برطرفی کا خدشہ بھی انہیں پریشان کرتا ہے۔ ثقافتی اختلافات اور نسلی امتیاز پاکستانی اوورسیز کے لیے مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ مقامی معاشرے میں انضمام (انٹیگریشن)کے مسائل بھی ہیں۔ بچوں کی تعلیم اور ثقافتی شناخت کو برقرار رکھنے کی جدوجہد بھی ایک چیلنج ہے۔ پاکستان میں جائیدادوں کے قانونی اور انتظامی مسائل اوورسیز پاکستانیوں کے لئے پریشانی کا باعث ہیں۔ ووٹ ڈالنے کے لیے بیرون ملک ووٹنگ سہولیات کا نہ ہونا ایک اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے غیر یقینی پالیسی ماحول بھی انہیں حوصلہ شکنی کا شکار کرتا ہے۔ خلیجی ممالک میں صحت کی سہولیات تک رسائی کی مشکلات بھی پاکستانی اوورسیز کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہیں اور وہاں بچوں کی تعلیم کے لئے معیاری اداروں کی کمی بھی انہیں پریشان کرتی ہے۔بیرون ممالک میں قائم پاکستانی سفارتخانوں اور قونصلیٹ آفس بھی وہاں مقیم پاکستانیوں کو پریشان کرنے کے اور کچھ نہیں کرتے۔ افسر شاہی کا سرخ فیتہ وہاں بھی انکا پیچھا نہیں چھوڑتا اور یہاں پاکستانی اپنے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے چکر پر چکر لگاتے تھک جاتے ہیں۔ پاکستانی حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کچھ اقدامات کئے ہیں۔ ان میں اوورسیز پاکستانی فائونڈیشن کا قیام، ریمٹنس کو آسان بنانے کے لئے مراعات اور بیرون ملک ووٹنگ کے لئے الیکٹرانک نظام کی کوششیں شامل ہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی جانب سے متعدد مرتبہ پاکستان پیسے نہ بھیجنے کی کال کو یکسر مسترد کر دیا اور تارکین ہم وطنوں نے رواں سال جنوری میں تین ارب ڈالر پاکستان بھیجے ہیں۔
سعودی عرب سے پانچ، عرب امارات سے چار، برطانیہ سے تین اور امریکا سے دو ارب ڈالر کی ترسیلات پاکستان آئی ہیں۔ یہ ریمیٹنس پاکستان بھیجنے پر اوورسیز پاکستانیز مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ وہ اپنے پیاروں کو پیسہ بھیجنے کے ساتھ ساتھ ملکی ترقی و خوشحالی اور ملکی مالی معاملات کو بہتر بنانیمیں بھی اپنا مثبت حصہ ڈال رہے ہیں۔ شہباز شریف کی حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ اس سلسلے میں وزارت اوورسیز پاکستانیز و انسانی وسائل نے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد محمد افضال بھٹی کو تین سال کے لیے منیجنگ ڈائریکٹر اوورسیز پاکستانیز فانڈیشن (او پی ایف) تعینات کیا ہے۔وہ پہلے نان بیوروکریٹک ایم ڈی ہوں گے۔ افضال بھٹی ایک تجربہ کار چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں اور سٹریٹیجک قیادت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ اس سے پہلے پنجاب اوورسیز کمیشن کے کمشنر کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں اور ان کی پنجاب میں کارکردگی بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے لئے حوصلہ افزا رہی تھی۔ افضال بھٹی برطانیہ کے ایک معروف بزنس مین اور چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں۔ وہ خود اوورسیز پاکستانی ہیں اور انہیں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل کا ذاتی مشاہدہ ہے۔ او پی ایف کو بڑے مالی خسارے کا سامنا ہے اور سالہا سال سے بگڑے معاملات کو ٹھیک کرنے کا چیلنج انہوں نے اپنے سر لیا ہے وہ اوورسیز پاکستانی ہاسنگ سوسائٹی کے مسائل، سکولوں اور کالجوں کے مسائل اور سماجی و معاشی مشکلات کو حل کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔ ان کی تعیناتی کو اوورسیز پاکستانیوں نے خوش آئند قرار دیا ہے۔ پاکستانی اوورسیز نہ صرف پاکستان کی معیشت کے لیے اہم ہیں بلکہ وہ اپنے میزبان ممالک میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے حکومت سفارتخانوں، اور بین الاقوامی اداروں کے درمیان بہتر تعاون کی ضرورت ہے۔حال ہی میں وزیر اعظم شہباز شریف نے تارکین وطن کے لئے ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر گرین چینل کی سہولت بھی فعال کر دی ہے۔او پی ایف کے نئے ایم ڈی افضال بھٹی وزیرِاعظم شہباز شریف کے دیرینہ، بھروسہ مند اور قابلِ اعتماد رفقا میں شامل ہیں۔انہیں وزیر اعظم کا بھرپور اعتماد حاصل ہے اس لئے انہیں آزادانہ فیصلے کرنے میں آزادی حاصل ہو گی ۔ وہ اوورسیز فائونڈیشن کے بگڑے معاملات کو بہتر بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: میں پاکستانیوں کی تعداد اوورسیز پاکستانیوں اوورسیز پاکستانی پاکستانی اوورسیز لاکھ پاکستانی پاکستانیوں کے ہزار پاکستانی میں پاکستانی پاکستانی ہیں خلیجی ممالک مسائل کو حل کو حل کرنے بیرون ملک کے درمیان ممالک میں کے مسائل رہتے ہیں ہیں اور کرنے کے میں ایک کے لیے کے لئے
پڑھیں:
میئر کراچی کی گھن گرج!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-2
کراچی آج جس صورتحال سے دوچار ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، ملک کے اقتصادی پہیے کو رواں دواں رکھنے والے اس شہر کے مسائل و مشکلات کو مسلسل نظر انداز کرنے کے نتیجے میں روشنیوں کا شہر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ انفرا اسٹرکچر کی تباہی، ٹرانسپورٹ کے نظام کی زبوں حالی و بربادی، سڑکوں کی خستہ حالی، واٹر ٹینکرز اور ڈمپرز سے شہریوں کی ہلاکتوں کے بڑھتے ہوئے واقعات، سیوریج کے نظام کی خرابی، کچرا کنڈیوں سے اٹھتے ہوئے تعفن کے بھبکے، بے ہنگم ٹریفک، پانی کا مصنوعی بحران، جابجا کھلے مین ہول، اربن فلڈنگ، سیوریج لائن کا پانی کی لائنوں سے ملاپ، برساتی نالوں کی عدم صفائی، تجاوزات کی بھرمار، فٹ پاتھوں پر پتھارے داروں کا قبضہ اور صفائی ستھرائی کی مخدوش صورتحال شہر کے اختیارات پر قابض میئر کراچی کی اعلیٰ کارکردگی کا مظہر ہیں، یہ اعلیٰ کارکردگی اس وقت اور مزید نمایاں ہوجاتی ہے جب شہر میں بارش کی چند بوندیں برس جائیں۔ قومی خزانے سے شہر میں جہاں جہاں تعمیر و ترقی کے کام ہورہے ہیں اس کا حال بھی یہ ہے وہ بارش کے ایک ہی ریلے میں بہہ گئے ہیں جس کی واضح مثال شاہراہ بھٹو اور نئی حب کینال ہے۔ ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود آج بھی شہر کی مختلف سڑکوں پر بارش کا پانی جمع ہے۔ شہر کی اس ناگفتہ بہ صورتحال پر جماعت ِ اسلامی طویل عرصے سے آواز اٹھا رہی ہے، حالیہ بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بھی جماعت اسلامی نے بھر پور آواز بلند کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت کراچی کو ہنگامی طور 500 ارب روپے اور صوبائی حکومت ہر ٹائون کو 2 ارب روپے ترقیاتی فنڈز دے۔ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن اور سالڈ ویسٹ کے اختیارات ٹائون کو منتقل کیے جائیں۔ جماعت ِ اسلامی کے ان مطالبات اور تنقید پر غور کرنے کے بجائے میئر کراچی مرتضیٰ وہاب سیخ پا ہیں کہتے ہیں کہ شہر میں سیوریج کے نظام کی خرابی کی ذمے دار جماعت اسلامی ہے، ان کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے 2003 میں شہر کا ماسٹر پلان ادھیڑ کر رکھ دیا تھا، شہر کی پوری سڑکوں کو کمرشل کرنے کی اجازت جماعت اسلامی نے دی تھی، اب اس شہر میں منافقت نہیں چلنے دوں گا اور ان کو سخت الفاظ میں جواب دوں گا۔ لیجیے بات ہی ختم۔ کسی بھی سطح پر اقتدار کے منصب پر فائز افراد کا یہی وہ طرز عمل ہے جس نے تعمیر و ترقی کی راہوں کو مسدود کردیا ہے، خیر سگالی پر مبنی تنقید پر مثبت طرز عمل کو بالائے طاق رکھ کر جب اسے انا کا مسئلہ بنادیا جائے تو اسی طرح منافقت کے الزامات عاید کیے جاتے ہیں اور ترکی بہ ترکی جواب دینے جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ بلاشبہ اس امر کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بارشوں سے اتنی تباہی نہیں ہوئی جتنی بدانتظامی، نااہلی اور بدعنوانی سے ہوئی ہے، کراچی کے عوام نے بلدیاتی انتخابات میں اپنا میڈیٹ جماعت ِ اسلامی کے حوالے کیا تھا مگر اس میڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا اس ڈاکے کا لازمی نتیجہ وہی نکلنا تھا جو سامنے ہے۔ میئر کراچی کو آپے سے باہر ہونے اور الزامات عاید کرنے کے بجائے شہر کو درپیش مسائل و مشکلات کے حل کے لیے اپنی توانیاں صرف کرنی چاہییں۔ کراچی مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، کراچی کے شہری روز جن مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور شہر عملاً جس صورتحال سے دوچار ہے اس پر لفظوں کی گھن گرج اور منافقت کے الزامات سے پردہ نہیں ڈلا جا سکتا۔ شہر کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کر کے محض بلند و بانگ دعوؤں سے کراچی کی تعمیر و ترقی ممکن نہیں عمل کے میزان میں دعوؤں کا کوئی وزن نہیں ہوتا، عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے اور بحیثیت میئر انہیں اس پر توجہ دینی چاہیے۔