Daily Sub News:
2025-06-11@19:34:35 GMT

مینو” سے “میز” تک، دنیا کو بیداری کی ضرورت ہے، رپورٹ

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

مینو” سے “میز” تک، دنیا کو بیداری کی ضرورت ہے، رپورٹ

مینو” سے “میز” تک، دنیا کو بیداری کی ضرورت ہے، رپورٹ WhatsAppFacebookTwitter 0 18 February, 2025 سب نیوز

بیجنگ :میونخ سیکیورٹی کانفرنس 2025 کی اختتامی تقریب میں کانفرنس کے چیئرمین کرسٹوف ہوئزگن نے روتے ہوئے کہا کہ امریکی نائب صدر وینس کی تقریر کے بعد ہمیں فکر مند ہونا پڑے گا کہ ہماری مشترکہ اقدار کی بنیاد اب مضبوط نہیں رہی۔اس منظر نے یورپیوں کو، جو ہمیشہ یہ سوچتے تھے کہ وہ امریکہ کے ساتھ میز پر بیٹھ کر عالمی ضیافت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، یہ احساس دلایا کہ ایسا لگتا ہے کہ انہیں امریکہ کی طرف سے میز سے باہر نکالا جا رہا ہے، جبکہ روس اور یوکرین کے درمیان تنازعے میں پھنسے ہوئے یوکرین نے پایا کہ وہ انکل سیم کی دعوت کے مینو پر صرف ایک پکوان ہیں۔ وینس کی ظالمانہ تقریر، اور ہوئزگن کے آنسوؤں نے یونی پولر دنیا کی سرد اور ظالمانہ فطرت کو بے نقاب کر دیا: امریکہ نے ہمیشہ دنیا کو “مینو” پر ایک پکوان کے طور پر دیکھا ہے، جبکہ دوسرے ممالک ایک ساتھی یا ویٹر بن سکتے ہیں، یا انہیں کسی بھی وقت ذبح کر کے کھایا جا سکتا ہے.

“یوکرین امن منصوبہ” جسے ٹرمپ انتظامیہ نے اجلاس سے پہلے پیش کیا تھا ،اسے “مینو اسٹائل ڈپلومیسی” کا نمونہ کہا جا سکتا ہے: یہ منصوبہ بظاہر “جنگ بندی کا معاہدہ” ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دوسروں کے مفادات کی قیمت پر بڑی طاقتوں کے درمیان مفادات کی تقسیم ہے، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ “سیکیورٹی گارنٹی” کے نام پر یورپ پر اپنی دفاعی بالادستی پر کنٹرول برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ متعلقہ فریقوں کو مذاکرات سے باہر رکھا گیا ہے اور یورپ کو روس اور یوکرین کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی کیتھ کیلوگ نے ‘ایک مخصوص امن عمل پر عمل درآمد کرنے سے قاصر’ قرار دیا ہے۔ یہ منظر 20 ویں صدی کے 60 کی دہائی میں کیوبا کے میزائل بحران کی یاد دلاتا ہے، جب امریکہ اور سابق سوویت یونین نے براہ راست ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے ، جس میں سوویت یونین نے کیوبا پر حملہ نہ کرنے کے امریکہ کے وعدے کے بدلے کیوبا سے اپنے میزائل واپس لے لیے تھے، اور امریکہ نے یورپ سے یورپی اتحادیوں کی حفاظت کرنے والے’’ جوپیٹر میزائلوں‘‘ کو واپس لے لیا تھا،

جب کہ کیوبا اور امریکہ کے یورپی اتحادیوں کو چھوڑ دیا گیا تھا۔ دونوں میں جو چیز مشترک ہے وہ یہ ہے کہ چھوٹے ممالک کے مفادات بڑی طاقتوں کے معاہدوں سے نگل جاتے ہیں اور نام نہاد “امن” طاقتوروں کے مفادات کی تنظیم نو سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس بار، جب یورپ نے اختلاف رائے کا اظہار کرنے کی کوشش کی، وینس نے “یورپی اقدار کے انحطاط” کی طرف انگلی اٹھائی، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ یورپ کی سلامتی کی بے چینی صرف ایک بلاوجہ چیخ ہے، اور یہ کہ یورپ کو سب سے بڑا خطرہ خود یورپ سے ہے۔ “متاثرین کے جرم” کا یہ بیانیہ یونی پولر بالادستی کا ایک عام بیانیہ ہے۔امریکہ کی “مینو منطق” کی ایک طویل تاریخ ہے، چاہے وہ افغانستان ہو، شام ہو، فلسطین اسرائیل تنازعہ ہو یا اب روس-یوکرین تنازعہ، ہر بار امریکہ نے خود کو “شیف” کے طور پر دیکھا ہے، اپنے مخالفین اور یہاں تک کہ اپنے اتحادیوں کو بھی ضیافت کی میز پر لایا ہے۔ ایک طرف انہوں نے مطالبہ کیا کہ یورپ زیادہ دفاعی اخراجات برداشت کرے اور یورپ سے فوجیں واپس بلانے کی دھمکی دی اور دوسری طرف اس نے یوکرین پر دباؤ ڈالا کہ وہ امریکہ کی جانب سے وضع کردہ مذاکراتی معاہدے کو قبول کرے اور ساتھ ہی یوکرین کو نایاب زمینی وسائل اور دوسرے طریقوں سے امریکہ کی طرف سے تمام امداد کا معاوضہ دینے پر مجبور کیا ۔ اجلاس کی افراتفری اور آنسو دراصل پرانے عالمی حکمرانی نظام کا ایک مرثیہ ہے ۔

یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیئن نے کہا کہ “یورپ کو اپنا دفاع مضبوط کرنا ہوگا”، فرانس نے فوری طور پر ایک آزاد سلامتی کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے یورپی سربراہی اجلاس بلایا، اور یوکرین کے صدر زیلنسکی نے “یورپی فوج” کی تشکیل کی تجویز پیش کی – یہ اشارے ظاہر کرتے ہیں کہ یورپ کو امریکہ پر انحصار کرنے کی قیمت کا احساس ہو گیا ہے.کثیر القطبی دنیا کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ تمام ممالک، چاہے وہ بڑے ہوں یا چھوٹے، مضبوط ہوں یا کمزور، بین الاقوامی نظم و نسق اور قواعد کی تشکیل اور برقراری میں مساوی بنیادوں پر “باورچیوں” کی حیثیت سے حصہ لیں۔چین کی چھنگ ہوا یونیورسٹی میں سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی ڈپٹی ڈائریکٹر شیاؤ چھیئن کا ماننا ہے کہ دنیا ملٹی پولرائزیشن کی طرف بڑھ رہی ہے، جو ایک تاریخی ضرورت اور حقیقت دونوں ہے۔

چین سمیت بہت سے ممالک طاقت میں اضافہ کر رہے ہیں اور بین الاقوامی میدان میں تیزی سے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اجلاس کے دوران بہت سے یورپی ماہرین اور اسکالرز نے چین کے ساتھ بات چیت کرنے اور مشترکہ طور پر عالمی مسائل کا حل تلاش کرنے میں پہل کی۔شیاؤ چھیئن نے نشاندہی کی کہ آج کی افراتفری کی دنیا میں چین نے ہمیشہ اس بات کی وکالت کی ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے مطابق سنبھالا جانا چاہئے اور دنیا میں سب سے بڑا اتفاق رائے تلاش کرنا ہے ، جو کثیر القطبی دنیا کی تعمیر کا اہم سنگ بنیاد ہے۔ہوئزگن کے آنسو محض جذباتی آنسو نہیں ہونے چاہئیں بلکہ بیداری کے محرک ہونے چاہئیں۔ جب دنیا “مینو سیاست” کے حقیقت کو سمجھ لیتی ہے،تو یہ ماننا پڑےگا کہ صرف کثیر قطبیت کے عمل کو فروغ دے کر ہی ہر ملک “پکوان” سے “شیف” میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ بہرحال، حقیقی امن کبھی دوسروں کی طرف سے نہیں دیا جاتا ہے، بلکہ مساوی مکالمے اور چیک اینڈ بیلنس سے پیدا ہوتا ہے – اور یہ شاید سب سے بڑا اور اہم انکشاف ہے جو میونخ سیکیورٹی کانفرنس نے دنیا پر چھوڑا ہے۔

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

اسلام دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے ولا مذہب ہے، امریکی تھنک ٹینک کا بڑا انکشاف

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی تھنک ٹینک نے بڑا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام دنیا بھرمیں تیزی سے پھیل رہا ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک عیسائی کی پیدائش کے مقابلے میں 3 افراد عیسائیت چھوڑ رہے ہیں ۔ رجحان برقرار رہا تو اسلام جلد دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔

تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2010 سے 2020 کے درمیان دنیا میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ بڑھی، جس کے بعد مذہب سے غیر منسلک افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

امریکی تھنک ٹینک کی تازہ ترین عالمی مذہبی آبادی کی رپورٹ نے یہ انکشاف کیا ہے کہ اگرچہ عیسائیت کے ماننے والوں کی تعداد 122 ملین سے بڑھ کر 2.3 ارب تک پہنچی، مگر مجموعی آبادی میں اس کا تناسب کم ہوا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 10 سالوں میں مسلم آبادی میں 347 ملین افراد کا اضافہ ہوا، جو کہ تمام دیگر مذاہب کی مشترکہ آبادی سے زیادہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ قدرتی آبادی میں اضافہ ہے، جہاں مسلمانوں کی پیدائش کی شرح اموات سے زیادہ ہے۔ تحقیق کاروں نے کہا کہ بالغ افراد کا اسلام قبول کرنا یا ترک کرنا اس اضافے میں نمایاں کردار نہیں رکھتا۔

رپورٹ کے مطابق، عیسائیت میں 1.8 فیصد کمی ہوئی، خاص طور پر یورپ، شمالی امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں جہاں غیر مسیحی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دنیا بھر میں مذہب سے غیر منسلک افراد کی تعداد 24.2 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو عیسائیوں اور مسلمانوں کے بعد تیسری بڑی گروپ ہے۔ شمالی امریکہ میں یہ تناسب 30.2 فیصد ہو چکا ہے۔

رپورٹ میں پہلی بار 117 ممالک میں بالغ افراد کے مذہبی رجحانات پر تحقیق کی گئی، جس میں ان کے بچپن کے مذہب اور بالغ ہو کر اپنائے گئے مذہب کا موازنہ کیا گیا۔ اس سے پتہ چلا کہ عیسائیت چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں لوگوں کی تعلیم اور معاشرتی ترقی زیادہ ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بدھ مت کی پیروی کرنے والوں کی تعداد 2010 سے 2020 کے دوران 19 ملین کم ہوئی، جو کہ واحد مذہبی گروہ ہے جس کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ زیادہ تر بدھ مت پیروکار مشرقی ایشیا میں ہیں جہاں مذہب سے لاتعلقی کی شرح بڑھ رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسلام کا عالمی حصہ 1.8 فیصد بڑھ کر 25.6 فیصد ہوگیا۔ کم اوسط عمر (24 سال)، زیادہ شرح پیدائش، اور کم دوری نے اسلام کو سب سے تیزی سے بڑھتا مذہب بنایا،عیسائی اور مسلم آبادی کے سائز کا فرق کم ہو رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق موجودہ رجحانات برقرار رہے تو اسلام جلد دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن سکتا ہے۔2020 میں 24.2 فیصد افراد غیر مذہبی تھے جب کہ2010 میں یہ شرح23.3 فیصد تھی۔ چین میں ایک ارب تیس کروڑ، امریکہ 10 کروڑ 10 لاکھ ، اور جاپان 7 کروڑ 30 لاکھ کے ساتھ غیر مذہبی افراد سب سے زیادہ ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کیخلاف بات نہ کرو، دنیا کے ممالک سے امریکہ کی فرمائش
  • موسمیاتی بحران: یورپ دنیا کا تیزی سے گرم ہوتا خطہ، ڈبلیو ایچ او
  • کوششوں کے باوجود دنیا سے بچہ مزدوری کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا، رپورٹ
  • اسلام دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے ولا مذہب ہے، امریکی تھنک ٹینک کا بڑا انکشاف
  • اسلام جلد دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا، امریکی تھنک ٹینک
  • امریکہ کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بھی بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہوگا، بلاول
  • کویت میں غیر ملکی کارکنوں کیلئے نیا قانون متعارف
  • سکردو، تحریک بیداری کے زیر اہتمام امام خمینی کی برسی کی تقریب
  • اسرائیل کا فریڈم فلوٹیلا پر حملہ، امدادی کشتی “میڈلین” کو قبضے میں لے لیا
  • یورپی یونین کا نیتن یاہو کے وارنٹ جاری کرنے والے آئی سی سی ججوں کی حمایت کا اعلان