ذرا تصور کریں کہ آپ کے دماغ میں چلنے والے خیالات کو بغیر کسی ٹریننگ کے پڑھا جا سکے اور انہیں الفاظ کی صورت میں تبدیل کیا جا سکے، یہ خیال کسی سائنس فکشن فلم کا منظر نہیں بلکہ جدید سائنسی تحقیق کا ایک حیران کن قدم ہے۔

یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن کے سائنسدانوں نے ایک ایسا مصنوعی ذہانت’ اے آئی برین ڈی کوڈر’ تیار کیا ہے جو انسانی دماغ کے خیالات کو بغیر کسی طویل مشق کے پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو ”کول“ یعنی زبردست کا خطاب دیا گیا ہے، اور یہ ممکنہ طور پر ان لوگوں کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہے جو افیزیا جیسے مرض کا شکار ہیں۔ ایک ایسی حالت جس میں انسان بولنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔

پرانے طریقوں کا خاتمہ، ایک نئی راہ کی تلاش

ماضی میں دماغ پڑھنے کے لیے استعمال ہونے والے ڈی کوڈرز کو کئی گھنٹوں تک ایم آر آئی مشین میں بیٹھ کر کہانیاں سننے کی ضرورت ہوتی تھی، اور یہ بھی صرف اسی شخص کے لیے مؤثر ہوتے تھے جس کے دماغ پر انہیں مخصوص کیا جاتا تھا۔ تاہم، نئی تحقیق نے اس طویل اور مشکل مرحلے کو بڑی حد تک آسان بنا دیا ہے۔

کمپیوٹیشنل نیورو سائنٹسٹ الیگزینڈر ہتھ اور ان کے ساتھی گریجویٹ طالب علم جیری ٹینگ نے اس تحقیق کو کرنٹ بایولوجی نامی جرنل میں شائع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’ہم نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا ہم مختلف طریقے سے یہ کام کر سکتے ہیں؟ کیا ہم ایک شخص کے دماغ کے لیے تیار کیے گئے ڈی کوڈر کو کسی دوسرے شخص کے دماغ پر منتقل کر سکتے ہیں؟‘

تحقیقاتی ٹیم نے ’فنکشنل الائنمنٹ‘ نامی ایک جدید طریقہ استعمال کیا۔ اس طریقے میں پہلے ایک فرد اور ایک دوسرے شخص یا ہدف فرد کے دماغ کی سرگرمیوں کا تجزیہ کیا گیا جب وہ ایک ہی آڈیو یا بصری مواد دیکھ یا سن رہے تھے۔ اس ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے، انہوں نے ڈی کوڈر کو ہدف فرد کے دماغی عمل کے لیے تیار کیا، بغیر اس کے کہ اسے گھنٹوں کی ٹریننگ کی ضرورت ہو۔

جب اس ڈی کوڈر کو ایک نئی کہانی کے ذریعے ٹیسٹ کیا گیا، تو اگرچہ وہ الفاظ جو ڈی کوڈر نے پیش گوئی کیے، پوری طرح درست نہیں تھے، مگر ان کا مطلب کہانی کے مفہوم کے قریب تھا۔

ہتھ کے مطابق، سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ ڈی کوڈر کو زبان کے ڈیٹا کے بغیر بھی تربیت دی جا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص صرف خاموش ویڈیوز دیکھ رہا ہو، تو بھی یہ ٹیکنالوجی اس کے دماغ میں زبان سے متعلق خیالات کو ڈی کوڈ کر سکتی ہے۔

افیزیا کے مریضوں کے لیے امید کی نئی کرن

محققین کے مطابق، اس تکنیک کے ذریعے افیزیا کے شکار لوگوں کے لیے ایک ایسا انٹرفیس بنایا جا سکتا ہے جو ان کے خیالات کو الفاظ میں تبدیل کرے اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق اظہار کرنے میں مدد دے۔ یہ ٹیکنالوجی اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ انسانی دماغ زبان اور بصری کہانیوں کو سمجھنے کے ایک جیسے اصولوں پر عمل کرتا ہے۔

مستقبل کے امکانات، سائنس اور معاشرے کے لیے ایک تحفہ

یہ تحقیق نہ صرف سائنسی میدان میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ یہ ہمارے معاشرے میں اظہارِ خیال کے نئے دروازے کھول سکتی ہے۔ تصور کریں کہ وہ لوگ جو بول نہیں سکتے یا جسمانی طور پر معذور ہیں، اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچا سکیں گے۔

یہ ٹیکنالوجی ایک دن شاید ہمیں دماغی خیالات کے ذریعے ڈیوائسز کنٹرول کرنے، خوابوں کو ریکارڈ کرنے یا یہاں تک کہ ذہنوں کے درمیان براہِ راست رابطے کے قابل بنا دے۔

’اے آئی برین ڈی کوڈر‘ نہ صرف ایک سائنسی کامیابی ہے بلکہ یہ انسانی تجربے میں انقلاب برپا کرنے کا عندیہ بھی دیتا ہے۔ کون جانتا ہے، شاید آنے والے وقت میں ہم اپنے خیالات کو کاغذ پر لکھنے کے بجائے محض سوچ کر اپنی کہانیاں تخلیق کر رہے ہوں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: خیالات کو کے دماغ سکتی ہے کے لیے

پڑھیں:

سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ویانا: سائنس دانوں نے ایک حیران کن دریافت کی ہے، ایک نیا اینٹی بائیوٹک جو پچاس سال سے موجود تھا لیکن ہر کسی کی نظروں سے اوجھل تھا۔

یہ نیا مرکب ”پری میتھلینومائسن سی لیکٹون“ (Pre-methylenomycin C lactone) کہلاتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ یہ مشہور اینٹی بایوٹک ”میتھلینومائسن اے“ بننے کے عمل کے دوران قدرتی طور پر بنتا ہے، مگر اب تک اسے نظرانداز کیا جاتا رہا۔

یہ تحقیق یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی اور اسے جرنل آف دی امریکن کیمیکل سوسائٹی (جے اےسی ایس) میں شائع کیا گیا ہے۔

یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر گریگ چالس کے مطابق، ’میتھلینومائسن اے کو 50 سال قبل دریافت کیا گیا تھا۔ اگرچہ اسے کئی بار مصنوعی طور پر تیار کیا گیا، لیکن کسی نے اس کے درمیانی کیمیائی مراحل کو جانچنے کی زحمت نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر ہم نے دو ایسے درمیانی مرکبات شناخت کیے، جو اصل اینٹی بایوٹک سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز دریافت ہے۔‘

اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واراِک کی اسسٹنٹ پروفیسر،ڈاکٹر لونا الخلف نے کہا، ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیا اینٹی بایوٹک اسی بیکٹیریا میں پایا گیا ہے جسے سائنس دان 1950 کی دہائی سے بطور ماڈل جاندار استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اس جانی پہچانی مخلوق میں ایک بالکل نیا طاقتور مرکب ملنا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ شروع میں S. coelicolor نامی بیکٹیریا ایک بہت طاقتور اینٹی بایوٹک بناتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس نے اسے بدل کر ایک کمزور دوائی، میتھلینومائسن اے، میں تبدیل کر دیا، جو شاید اب بیکٹیریا کے جسم میں کسی اور کام کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق، یہ دریافت نہ صرف نئے اینٹی بایوٹکس کی تلاش میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ پرانے تحقیقی راستوں اور نظرانداز شدہ مرکبات کا دوبارہ جائزہ لینا نئی دواؤں کے لیے نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔

ویب ڈیسک عادل سلطان

متعلقہ مضامین

  • لینڈنگ کے وقت جہاز
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
  • ہم چاند پر 6 بار جاچکے ہیں، ناسا کا کارڈیشین کو جواب
  • حیران کن پیش رفت،امریکا نے بھارت سے10سالہ دفاعی معاہدہ کرلیا
  • کراچی میں چوری شدہ موٹرسائیکل کا ای چالان، شہری حیران و پریشان
  • آیوشمان کھرانہ نے ’اندھا دھن‘ صرف ایک روپے میں کی تھی، وجہ جان کر حیران رہ جائیں گے!
  • ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
  • اسرائیل اور امریکی کمپنیوں کے خفیہ گٹھ جوڑ کی حیران کُن تفصیلات سامنے آگئیں
  • اقراء یونیورسٹی اسلام آباد میں ٹیکسٹائل تھیسس ڈسپلے، طلبہ کا حیران کن تخلیقی کام