بنگلہ دیشں: شیخ حسینہ مخالف طلبا گروپوں میں تصادم، 150 زخمی
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 فروری 2025ء) بنگلہ دیش میں گزشتہ سال وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ الٹنے والے طلبا گروپوں کے درمیان ایک یونیورسٹی کیمپس میں جھڑپوں کے دوران 150 سے زائد طلباء زخمی ہو گئے ہیں۔ اس جھگڑے کو سابقہ حکومت مخالف ان طلبا کے درمیان سنگین اختلاف کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ جھڑپیں منگل کی سہ پہر اس وقت شروع ہوئیں، جب بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کے یوتھ ونگ نے ملک کے جنوب مغرب میں کھلنا یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں طلباء کی رکنیت سازی کی کوشش کی۔
اس پیشرفت کے بعد بی این پی کے اسٹوڈنٹس ونگ اور ''امتیازی سلوک کے خلاف طلباء‘‘ نامی اس احتجاجی گروپ کے مابین جھڑپیں شروع ہوئیں، جن کی قیادت میں بغاوت نے گزشتہ اگست میں سابقہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کو معزول کر دیا تھا۔
(جاری ہے)
کھلنا کے پولیس افسر کبیر حسین نے اے ایف پی کو بتایا کہ جھڑپ کے بعد کم از کم پچاس افراد کو ہسپتالوں میں طبی امداد فراہم کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ''صورتحال اب قابو میں ہے، اور پولیس کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔‘‘کمیونیکیشن کے طالب علم جاہد الرحمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہسپتال میں داخل کرائے گئے طلبا کو اینٹیں لگنے اور ''تیز دھار ہتھیاروں‘‘ سے زخم آئے ہیں اور تقریباً 100 دیگر افراد کو معمولی چوٹیں آئی ہیں۔
اس تشدد کی فوٹیج میں حریف گروپوں کو پتھراؤ کرتے ہوئے اور چاقو کے وار کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
دونوں گروپوں نے تشدد شروع کرنے کا الزام ایک دوسرے پر لگایا۔ بی این پی کے طلبہ ونگ کے سربراہ ناصر الدین ناصر نے جماعت اسلامی کے ارکان پر تصادم کے حالات پیدا کے لیے اشتعال انگیزی کا الزام لگایا۔انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ جماعت کے کارکنوں نے ''یہ غیر ضروری تصادم شروع کیا۔‘‘ ایک مقامی طالب علم عبید اللہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ بی این پی نےکیمپس میں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر عائد پابندی کی مخالفت کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیمپس میں جماعت کی''کوئی موجودگی‘‘نہیں تھی۔اس واقعے نے ملک کے دیگر مقامات پر طلبہ میں غم و غصے کو جنم دیا اور بی این پی کے یوتھ ونگ کی مذمت کے لیے منگل کی رات دیر گئے ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔
خیال رہے کہ بنگلہ دیش کی موجودہ نگراں انتظامیہ کی نگرانی میں اگلے سال کے وسط تک ہونے والے نئے انتخابات میں بی این پی کی وسیع پیمانے پر کامیابی کی توقع ہے۔ اس دوران طالب علم رہنماشیخ حسینہ کی جگہ ایک پائیدار سیاسی قوت بننے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ش ر⁄ ع ا (اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بی این پی
پڑھیں:
ٹیرف مخالف اشتہار پر امریکی صدر سے معافی مانگی ہے: کینیڈین وزیر اعظم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کینیڈا کے وزیرِ اعظم مارک کارنی نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک اینٹی ٹیرف سیاسی اشتہار کے معاملے پر ذاتی طور پر معافی مانگی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اشتہار کی نشریات سے قبل ہی انہوں نے ریاست اونٹاریو کے وزیرِ اعلیٰ ڈگ فورڈ کو اس کے نشر ہونے سے روکنے کی ہدایت دی تھی۔
جنوبی کوریا میں ایشیا پیسیفک سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مارک کارنی نے کہا کہ انہوں نے بدھ کی شب جنوبی کوریا کے صدر کی جانب سے دیے گئے عشائیے کے دوران صدر ٹرمپ سے بالمشافہ معذرت کی۔
کینیڈین وزیرِ اعظم نے مزید بتایا کہ وہ اشتہار کے مواد سے پہلے ہی آگاہ تھے اور ڈگ فورڈ کے ساتھ اس پر تبادلۂ خیال بھی کر چکے تھے، تاہم انہوں نے اس کے استعمال کی مخالفت کی تھی۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق مذکورہ اشتہار اونٹاریو کے وزیرِ اعلیٰ ڈگ فورڈ نے تیار کروایا تھا، جو ایک قدامت پسند رہنما ہیں اور اکثر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مشابہ قرار دیے جاتے ہیں۔
اشتہار میں سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن کا ایک بیان شامل کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ “ٹیرف تجارتی جنگوں اور معاشی تباہی کو جنم دیتے ہیں۔”
اس اشتہار کے ردِعمل میں صدر ٹرمپ نے کینیڈین مصنوعات پر ٹیرف میں اضافے کا اعلان کیا اور کینیڈا کے ساتھ جاری تجارتی مذاکرات بھی معطل کر دیے۔
دوسری جانب، رواں ہفتے کے آغاز میں جنوبی کوریا سے روانگی کے موقع پر ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ان کی مارک کارنی سے عشائیے کے دوران “انتہائی خوشگوار گفتگو” ہوئی، تاہم انہوں نے بات چیت کی تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔