Express News:
2025-04-26@03:23:22 GMT

سیاسی استحکام

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

باخبر صحافیوں کی یہ خبریں درست ثابت ہوئیں کہ ورلڈ بینک شفاف طرزِ حکومت کا جائزہ لینے کے لیے عدالتی نظام اور انتظامی ڈھانچے کا جائزہ لے گا۔ ورلڈ بینک کی ٹیم نے گزشتہ ہفتے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے بھی ملاقات کی۔ اس دوران ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے بھی اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان میں بدعنوانی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ٹرانسپرنسی کے تناظر میں پاکستان کا درجہ کم ظاہرکیا گیا ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن International Finance Corporation (I.

F.C) کے مینیجنگ ڈائریکٹر مختار ڈیوپ Makhtar Diop نے پاکستان کے ایک بڑے اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو فوری طور پر Political and Macro-Economic Stabiligy کی ضرورت ہے۔ سیاسی و میکرو اکنامکس استحکام حاصل ہونے کے ساتھ انتظامی اور مالیاتی شعبوں میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔ فوری اصلاحات پر عملدرآمد سے ایک طویل جدوجہد کا راستہ مل جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا ادارہ مینوفیکچرنگ اور انجینئرنگ کے شعبوں پر توجہ دینے کا خواہاں ہے۔ آئی ایف سی اپنی زیادہ تر توجہ زراعت، کارپوریٹ فارمنگ وغیرہ پر دے گی۔

ادھر حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان چپقلش انتہا کو پہنچ رہی ہے۔ وفاقی حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت کے درمیان سیاسی مذاکرات کے کئی ادوار بے نتیجہ نکلے تھے جس کی بناء پر سیاسی بے چینی بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف چاروں صوبوں میں امن و امان کی صورتحال خراب ہورہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے دعوؤں کے باوجود خیبر پختون خوا کے شہروں کے ساتھ سابقہ قبائلی علاقوں میں حکومت کی رٹ ختم ہوچکی ہے۔

لنڈی کوتل سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں اور نوشہرہ تک حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ ان علاقوں میں ٹی ٹی پی اور اس کی سسٹر تنظیمیں سرگرم ہیں اور حکومت کی رٹ کہیں نظر نہیں آتی۔ بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ سابقہ قبائلی علاقے میں ٹی ٹی پی کے جنگجو عدالتیں لگاتے ہیں۔ پارہ چنار گزشتہ 6 ماہ سے ملک سے کٹا ہوا ہے۔

قبائلی جرگوں کی بناء پر اس علاقے میں امن قائم ہوا ہے مگر اب بھی پارہ چنار میں ضروری اشیاء و ادویات کی سخت قلت ہے۔ پولیس کی نگرانی میں قافلے پارہ چنار آتے جاتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے حالات کو معمول پر لانے کے اعلانات کے باوجود صورتحال خراب ہے۔ گزشتہ دنوں پارا چنار میں پھنسے ہوئے کئی طالب علموں نے اپیل کی تھی کہ یورپ اور امریکا میں ان کے داخلے اس لیے منسوخ ہو رہے ہیں کہ وہ پارہ چنار سے نہیں نکل سکتے۔

دوسری طرف بلوچستان میں بھی حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ دہشت گردوں نے پھر ہرنائی میں غریب کان کنوں کو نشانہ بنایا۔ اب تک 16کان کنوں کے مرنے کی خبریں ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق 6 فروری 2025کو خضدار میں پولیس لائنز کے علاقے سے مسلح افراد نے ایک گھر سے ایک خاتون اسماء بلوچ کو اغواء کیا اور دو دن تک خواتین اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

اسماء کے اہلِ خانہ اور خضدار کے شہریوں نے کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر دھرنا دیا۔ یہ دھرنا 3 دن تک جاری رہا، جس کی وجہ سے ایران اور افغانستان کو کراچی کی بندرگاہ سے ملانے والی قومی شاہراہ پر ہر قسم کا ٹریفک معطل رہا۔ دھرنا کی قیادت اسماء بلوچ کی والدہ اور بھائی عطاء اﷲ جتک کررہے ہیں۔ عطاء اﷲ جتک اس وقت لسبیلہ یونیورسٹی کے پلانٹ پیتھالوجی شعبہ میں لیکچرار ہیں۔ اسماء بلوچ کے منگیتر عبدالسلام کو 6ماہ قبل نامعلوم افراد نے اغواء کر کے قتل کردیا تھا مگر اس نوجوان کے قاتل پکڑے نہ جاسکے، البتہ کوئٹہ کراچی مرکزی شاہراہ بند ہونے سے قلات ڈویژن کے کمشنر کو فوری توجہ دینی پڑی۔ پولیس نے اسماء کو برآمد کیا جس کے بعد دھرنا ختم ہوا، بدامنی کی صورتحال صرف خضدار تک محدود نہیں رہی بلکہ مکران ڈویژن میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر احتجاجی سلسلہ جاری ہے۔

گزشتہ ہفتے تربت میں معروف شخصیت شریف ذاکر کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے زخمی کردیا۔ شریف ذاکر ایک ماہرِ تعلیم تھے اور تربت کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ ان کا ایک بیٹا پہلے ہی لاپتہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک 16سالہ نوجوان حیات سبرل گزشتہ سال لاپتہ ہوا تھا۔ اس کی لاش پنجگور کے علاقے سے ملی۔ اس علاقے کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ تربت میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ایک نوجوان اﷲ داد بلوچ کو ہلاک کردیا۔ اﷲ داد بلوچ ایم فل کے اسکالر تھے۔ شریف ذاکر بنیادی طور پر ایک ماہر تعلیم تھے۔ ان کو قتل کرنے والوں نے مکران ڈویژن کے تعلیمی نظام کو تباہ کیا ہے۔ کراچی پریس کلب کے سامنے ایک نوجوان بلوچ لڑکی اپنے 75سالہ بوڑھے باپ کی بازیابی کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہے۔ یہ بوڑھا شخص گزشتہ ایک سال سے لاپتہ ہے۔

 بلوچستان کے امور کے ماہر صحافی عزیز سنگھور نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اجتماعی دھرنوں سے بلوچستان میں تجارتی زندگی معطل ہوگئی ہے ۔ دوسری طرف اپر سندھ اور جنوبی پنجاب سے متصل کچے کے علاقے میں پولیس اور رینجرز کے مسلسل آپریشن کی خبروں کے باوجود ڈاکوؤں کے خاتمے کی امید نظر نہیں آتی۔ دونوں صوبوں میں پولیس جدید اسلحہ اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے مگر اس علاقے کے صحافی کہتے ہیں کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین اسلحہ ہے جن کی سرپرستی قبائلی سردار اور نان اسٹیٹ ایکٹرزکرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکومت کئی سال گزرنے کے باوجود کچے کے علاقے کے ڈاکوؤں پر قابو نہیں پاسکی ہے۔ کندھ کوٹ کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں کی سرپرستی قبائلی سردار، منتخب اراکین اسمبلی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاق، پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کے دعوؤں کے باوجود کچے کا علاقہ غیر محفوظ نظر آتا ہے۔

 صدر زرداری نے اپنے دورۂ چین کے بعد ایک دفعہ پھر یہ اعلان کیا کہ سی پیک گیم چینجر ہوگا مگر بلوچستان میں مستقل بدامنی اور اہم شاہراہوں کے مستقل بند ہونے سے گیم چینجر کا خواب کیسے پورا ہوگا؟ حکومت کے بار بار اعلانات کے باوجود سیاسی استحکام ابھی تک نظر نہیں آتا۔ جب ملک میں مکمل طور پر سیاسی استحکام نہیں ہوگا تو اقتصادی ترقی ایک خواب رہے گی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے باوجود پارہ چنار کے علاقے افراد نے

پڑھیں:

عوام سے ناراض پرویز خٹک نے سیاسی سرگرمیاں کا آغاز کردیا، ’کسی کا کوئی کام نہیں کروں گا‘

سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور معروف سیاست دان پرویز خٹک وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر بننے کے بعد ایک بار پھر سیاست میں سرگرم ہو گئے ہیں اور اپنے حلقے نوشہرہ میں غیر جماعتی بنیادوں پر سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ عام انتخابات میں شکست کی بنا پر عوام سے بدستور ناراض ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:پرویز خٹک بادام نہیں توڑ سکتا پی ٹی آئی کو کیا توڑے گا، اختیار ولی کی شدید تنقید

پرویز خٹک کے قریبی حلقوں کے مطابق وہ اسلام آباد ہی میں رہتے ہیں تاہم ہفتہ اور اتوار کو آبائی علاقے منکی شریف نوشہرہ آتے ہیں اور ووٹرز سے ملتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے بھی پرویز خٹک نوشہرہ ائے اور کارنر میٹنگ سے خطاب بھی کیا۔ جس میں انہوں نے حلقے کے ووٹرز سے کھل کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔

’جن کو ووٹ دیا ہے وہ جانیں ترقیاتی کام‘

پرویز خٹک نے کہا کہ جن کو ووٹ دیا ہے، وہی جانیں، اور جنہوں نے ترقیاتی کام دیکھے ہیں، انہیں بھی جانچنا ہوگا۔ میں نے آپ لوگوں کی خدمت کی، لیکن اس کا صلہ کچھ اور ملا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جن لوگوں نے میرا ساتھ دیا ہے، میں بھی ہر حد تک ان کا ساتھ دوں گا۔

اپنے خطاب میں پرویز خٹک نے واضح بتا دیا کہ اب وہ کوئی کام نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں کام کرنے کے لیے کسی عہدے کی ضرورت نہیں۔ جبکہ انہیں دکھ اس وقت ہوا انہیں ان کی خدمات اور کاموں کا صلہ نہیں دیا گیا۔

انہوں نے اپنے ووٹرز کو بتایا کہ انہوں نے ترقیاتی کام کیے، لوگوں کو نوکریاں دیں، لیکن ووٹ کے وقت کسی نے انہیں یاد نہیں رکھا۔

پرویز خٹک حلقے کے ووٹرز سے خفا کیوں؟

سال 2023 میں عمران خان سے راہیں جدا کرنے کے بعد پرویز خٹک نے اپنی الگ سیاسی جماعت بنا لی اور عام انتخابات کے لیے مہم شروع کی، وہ جیت کر وزیر اعلیٰ بننے کا کھلم کھلا اعلان کررہے تھے، وہ پُر امید تھے کہ اپنے حلقے میں ترقیاتی کاموں کی بنیاد لوگ انہیں ووٹ دیں گے۔ لیکن انتخابات میں نتائج یکسر مختلف آئے اور انہیں بری طرح شکست ہوئی۔ اس شکست کے بعد انہوں نے اپنی ہی جماعت کی سربراہی اور رکنیت سے استعفی دیا اور سیاست سے دوری اختیار کر لی۔

پرویز خٹک اپنے قریبی حلقوں سے بھی ناراض ہیں

پرویز خٹک کافی عرصے تک سیاسی منظر نامے سے غائب رہے۔ نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی شہاب الرحمن بتاتے ہیں پرویز خٹک اپنے قریبی حلقوں سے بھی ناراض ہیں۔ اور پہلے کی طرح حلقے پر توجہ نہیں دے رہے۔

یہ بھی پڑھیں:عوام خیبرپختونخوا حکومت سے مایوس، عام انتخابات میں لوگ اندھے بہرے ہوگئے تھے، پرویز خٹک

انہوں نے کہا پرویز خٹک کی ناراضگی کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ عام انتخابات میں شکست ہے۔ اور اسی وجہ سے حلقے میں آنا بھی کم کر دیا تھا اور اسلام آباد میں رہائش کو ترجیح دیتے تھے۔ تاہم مشیر بننے کے بعد وہ ایک بار پھر سرگرم ہو گئے ہیں اور حلقے کا رخ بھی کر رہے ہیں۔

خوشی اور غم میں شرکت

شہاب نے بتایا کہ پرویز خٹک حلقے کے عوام کے خوشی اور غم میں ضرور شریک ہوتے ہیں۔ لیکن شکست کے بعد اب لوگوں کا کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ پرویز خٹک  حلقے میں اپنے مخالفیں کو بتا رہے ہیں کہ انہیں ووٹ کی ضرورت نہیں اور ووٹ کے بغیر بھی وہ عہدہ لے سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پرویز خٹک حلقے میں غیر سیاسی بنیادوں پر سرگرم ہیں اور ابھی تک کسی سیاسی جماعت میں باقاعدہ اعلان نہیں کیا ہے۔

پرویز خٹک اپنی سیاست زندہ رکھنا چاہتے ہیں

شہاب کے مطابق پرویز خٹک ناراض ضرور ہیں لیکن وہ اپنی سیاست کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور ہفتے میں 2 دن باقاعدگی سے حلقے میں گزرتے ہیں۔ اور لوگوں کو احساس دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے دور میں کنتے ترقیاتی کام ہو رہے تھے اور اب کیا صورت حال ہے۔ پرویز خٹک کے پاس اب عہدہ ہے۔ اب وہ ووٹرز کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

پرویز خٹک کا مختصر سیاسی پس منظر

پرویز خٹک کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع  نوشہرہ سے ہے۔ وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما رہے اور 2013 سے 2018 تک خیبر پختونخوا کے وزیرِاعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ جبکہ 2018 سے 2023 تک وفاقی وزیر دفاع بھی رہے۔ ان کا شمار عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا

پروی

پی ٹی آئی پی

2023 کے بعد انہوں نے اپنی الگ سیاسی راہ اختیار کی۔ اور پی ٹی آئی پی کے نام سے ایک الگ سیاسی جماعت بنا کر الیکشن میں حصہ لیا۔ لیکن انہیں بری طرح شکست ہوئی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پرویز خٹک کو عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف خیبر پختونخوا میں لانج لیا گیا تھا،مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ عام انتخابات میں شکست کے بعد پرویز خٹک نے سیاست سے آرام لینے کا اعلان کیا اور کافی عرصے تک سیاست سے دور رہے۔ جبکہ کچھ عرصہ قبل انہیں وفاقی کابینہ میں شامل کیا گیا اور وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ بن گئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پرویز خٹک پی ٹی آئی پی ٹی آئی پی عمران خان نوشہرہ

متعلقہ مضامین

  • قوم ملکی استحکام و دفاع کیلئے مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہے: عبدالخبیر آزاد 
  • پاک-بھارت کشیدگی، واہگہ بارڈری کی بندش کے باوجود شہریوں کی واپسی جاری
  • ہماری اصل طاقت عوام کی وہ بیداری ہے جو کسی سیاسی مصلحت کی مرہونِ منت نہیں
  • بلوچستان کے حالات پر پورے ملک کو تشویش ہے، لیاقت بلوچ
  • فطری اور غیر فطری سیاسی اتحاد
  • آج عالمی اور مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں استحکام
  • بانی پی ٹی آئی سیاسی داؤ پیچ میں صفر بٹا صفر ہیں، حفیظ اللہ نیازی
  • تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد
  • پاکستان سے 67 ہزار سے زائد عازمین کا حج رقم ادائيگی کے باوجود کھٹائی میں پڑ گیا
  • عوام سے ناراض پرویز خٹک نے سیاسی سرگرمیاں کا آغاز کردیا، ’کسی کا کوئی کام نہیں کروں گا‘