سندھ میں رواں ماہ شیڈول میٹرک کے امتحانات ماہ رمضان کے بعد لینے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
وزیر تعلیم سندھ سید سردار شاہ نے آئی بی اے ٹیسٹ پاس اساتذہ کی بھرتیوں کے مرحلے میں بھی توسیح کا اعلان کیا ہے۔ سید سردار شاہ نے کہا ہے کہ تجویز ہے کہ مارچ میں صرف پریکٹیکلز منعقد کروائے جائیں، بقیہ امتحانات عیدالفطر کے بعد منعقد کروانے پر غور جاری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ صوبہ سندھ میں میٹرک امتحانات کے شیڈول میں ردوبدل کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، مارچ میں شیڈول امتحانات اب رمضان المبارک اور عیدالفطر کے بعد لیے جائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق وزیر تعلیم سندھ سید سردار شاہ نے منگل کو محکمہ تعلیم کی ایگزیکٹیو کمیٹی کا اہم اجلاس طلب کرلیا ہے، اس اجلاس میں صوبے بھر میں میٹرک کے امتحانات کی تاریخ تبدیل کرنے کا فیصلہ متوقع ہے۔ اس سے قبل میٹرک کے امتحانات مارچ میں شیڈول تھے۔ وزیر تعلیم سندھ سید سردار شاہ نے آئی بی اے ٹیسٹ پاس اساتذہ کی بھرتیوں کے مرحلے میں بھی توسیح کا اعلان کیا ہے۔ سید سردار شاہ نے کہا ہے کہ تجویز ہے کہ مارچ میں صرف پریکٹیکلز منعقد کروائے جائیں، بقیہ امتحانات عیدالفطر کے بعد منعقد کروانے پر غور جاری ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال مئی میں سندھ کے دارالحکومت کراچی میں گرمی کی شدت میں اضافے اور ہیٹ ویو کے پیش نظر میٹرک کے امتحانات ملتوی کردیے گئے تھے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے سندھ میں ہیٹ ویو الرٹ جاری کیا تھا، جس کے بعد وزیر تعلیمی بورڈ اور جامعات سندھ کے حکم پر ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی نے 21 سے 27 مئی کے درمیان ہونے والے میٹرک کے امتحانات ملتوی کر دیے گئے تھے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: میٹرک کے امتحانات سید سردار شاہ نے وزیر تعلیم کے بعد
پڑھیں:
ماہ محرم اور یوم عاشور کی فضیلت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اللہ ربّ العزت نے جب سے زمین وآسمان پیدا فرمائے ہیں، مہینوں کی تعداد بارہ مقرر کی ہے یعنی محرم، صفر، ربیع الاول، ربیع الثانی، جمادیٰ الاولیٰ، جمادیٰ الثانی، رجب، شعبان، رمضان، شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ۔ ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں: محرم، رجب، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ۔ اور ان میں سے محرم الحرام کی نسبت اپنی طرف کی ہے:
ہادی عالم محمد رسول اللہؐ سے سیدنا ابوذر غفاریؓ نے پوچھا تھا کہ: ’’رات کا کون سا حصہ بہتر ہے اور کون سا مہینہ افضل ہے، تو آپؐ نے فرمایا: رات کا درمیانی حصہ بہتر ہے اور افضل مہینہ، اللہ کا وہ مہینہ ہے جسے تم محرم کہا کرتے ہو‘‘۔ امام نسائی نے السنن الکبری:4102 میں اس حدیث کو روایت کیا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے۔
اس سے مراد اس کا رمضان المبارک کے علاوہ دوسرے مہینوں سے افضل ہونا ہے کیونکہ صحیح مسلم میں ابوہریرہؓ سے یہی بات مروی ہے:
رسول اللہؐ سے کسی نے پوچھا کہ بعد فرض نماز کے کون سی نماز افضل ہے اور ماہ رمضان کے بعد کون سے روزے افضل ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’نماز، رات کی (تہجد) اور روزے محرم کے‘‘ (صحیح مسلم)۔
سیدنا حسنؓ کی مرسل روایت میں ہے: ’’فرض نمازوں کے بعد افضل نماز وہ ہے جو درمیانی رات کو ادا کی جائے یعنی تہجد اور رمضان المبارک کے بعد افضل مہینہ محرم ہے اور یہی اللہ کا مضبوط مہینہ ہے‘‘۔
اس مہینے کے اللہ کی طرف منسوب ہونے سے ہی اس کی فضیلت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ کسی خاص چیز کی نسبت ہی اللہ کی طرف ہوسکتی ہے جیسے رسول اللہ، خلیل اللہ، بیت اللہ، کتاب اللہ، ناقۃ اللہ انہی نسبتوں کی طرح اس مہینے کی نسبت بھی اللہ کی طرف ہے اور اسے شھر اللہ المحرم قرار دیا گیا ہے۔
حرمت والے مہینوں کا اللہ کے ہاں خاص احترام ہے، ان میں لڑائی جھگڑا، دنگا فساد تو بالکل ہی نہ کرنا چاہیے کیونکہ اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے:
’’اللہ کے ہاں اس کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور اس دن سے ہے جس دن، اس نے زمین وآسمان پیدا فرمائے ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں، یہی سیدھا (اور معتدل) دین ہے، لہٰذا تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو‘‘ (سورہ التوبۃ: 36)۔
جس طرح حرمت والے مہینوں میں محرم الحرام کو شہراللہ ہونے کا شرف حاصل ہے اسی طرح اس مہینے کے دنوں میں عاشورا کو بھی خاص شرف حاصل ہے، کیونکہ:
اس دن اللہ نے سیدنا آدمؑ کی توبہ قبول فرمائی تھی۔ ابن عباسؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ’’یہی وہ دن ہے جس میں آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی گئی‘‘ (اتحاف اھل الاسلام بخصوصیات الصیام)۔
نوٹ: یوم عاشور سے متعلق اس طرح کی روایات کو ضعیف احادیث میں جمع کیا گیا ہے اور یہ حدیث بھی ضعیف ہے۔
سیدنا علیؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا: ماہ رمضان کے بعد کس مہینے میں روزہ رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں؟ تو انہوں نے اس سے کہا: میں نے اس سلسلے میں سوائے ایک شخص کے کسی کو پوچھتے نہیں سنا، میں نے اسے رسول اللہؐ سے سوال کرتے سنا، اور میں آپ کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! ماہ رمضان کے بعد آپ مجھے کس مہینے میں روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر ماہ رمضان کے بعد تمہیں روزہ رکھنا ہی ہو تو محرم کا روزہ رکھو، وہ اللہ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ نے کچھ لوگوں پر رحمت کی اور اس میں دوسرے لوگوں پر بھی رحمت کرے گا‘‘ (سنن ترمذی)
سیدنا علیؓ نے فرمایا: عاشورا کا یہ وہی دن ہے جس میں یونس علیہ السلام کی توبہ قبول کی گئی۔
ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب نبی کریمؐ مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ ایک دن یعنی عاشور کے دن روزہ رکھتے تھے۔ ان لوگوں (یہودیوں) نے بتایا کہ یہ بڑی عظمت والا دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی اور آل فرعون کو (اس کے لشکر سمیت بحیرۂ قلزم میں) غرق کیا تھا۔ اس کے شکر میں موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ میں موسیٰ علیہ السلام کا ان سے زیادہ قریب ہوں۔ چنانچہ آپؐ نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھنا شروع کیا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا (صحیح بخاری)۔
چنانچہ صحابہ کرامؓ اس روز خود بھی روزہ رکھتے تھے اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے اور ان کے لیے کھلونے بناتے جب وہ روتے تو انہیں ان سے شام تک بہلاتے تھے۔
’’اور انہیں ہم اون کا ایک کھلونا دے کر بہلائے رکھتے۔ جب کوئی کھانے کے لیے روتا تو وہی دے دیتے، یہاں تک کہ افطار کا وقت آ جاتا‘‘ (صحیح بخاری)
یہ معاملہ فرضیت صیام رمضان تک رہا۔ اس کے بعد اس کی پابندی ختم ہوگئی اور فضیلت باقی رہ گئی۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں ابوقتادہ سے ایک روایت بیان کی ہے کہ ایک آدمی نے نبیؐ سے یوم عاشور کے روزے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
’’میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ یوم عاشور کا روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)
ام المؤمنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ عاشور ایک ایسا دن تھا کہ جس میں قریش زمانہ جاہلیت میں روزہ رکھتے تھے اور رسولؐ بھی اس دن روزہ رکھتے تھے، جب آپ مدینہ آئے تو اس دن آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزے فرض کیے گئے تو صرف رمضان ہی کے روزے فرض رہے اور آپ نے عاشورا کا روزہ ترک کر دیا، تو جو چاہے اس دن روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے (سنن ترمذی)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: 1۔ یہ حدیث صحیح ہے، 2۔ اس باب میں ابن مسعود، قیس بن سعد، جابر بن سمرہ، ابن عمر اور معاویہ ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
ہاں البتہ آپ خود روزہ ضرور رکھتے بلکہ فرمایا تھا کہ میں آئندہ سال دو روزے رکھوں گا لیکن آپ کی عمر نے وفا نہ کی (صحیح مسلم)۔