امریکہ، اسرائیل کے ساتھ یوکرائن جیسا برتاو کریگا، علی اکبر ولائتی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
رہبر معظم انقلاب کے مشیر سے اپنی ایک ملاقات میں زیاد النخالہ کا کہنا تھا کہ امریکی و مغربی استعمار کے سامنے عرب ممالک کے کمزور موقف نے خطے میں اسرائیل کی پوزیشن کو مضبوط کیا۔ اسلام ٹائمز۔ بین الاقوامی امور میں رہبر معظم انقلاب کے مشیر "علی اکبر ولایتی" نے کہا کہ آج دنیا کی صورت حال بدل چکی ہے۔ اسی لئے مغربی ایشیاء اور دنیا کے دیگر حصوں میں امریکہ کا طریقہ کار بھی بدل رہا ہے۔ امریکہ، اسرائیل کے ساتھ یوکرائن جیسا سلوک کرے گا۔ علی اکبر ولائتی نے ان خیالات کا اظہار فلسطین کی مقاومتی تحریک "جہاد اسلامی" کے سیکرٹری جنرل "زیاد النخالہ" سے ملاقات میں کیا۔ اس موقع پر انہوں نے غزہ میں حماس اور اسلامی مقاومت کو عظیم کامیابی پر مبارک پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ عظیم کامیابی صیہونی رژیم کے مقابلے میں فلسطینی عوام اور استقامتی محاذ کے فولادی عزم کی بدولت نصیب ہوئی۔ علی اکبر ولائتی نے اس تاریخی فتح کو باعث افتخار قرار دیا۔ انہوں نے اس جیت کو فلسطینیوں کے جائز، قانونی حقوق کے حصول اور اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے نام کیا۔ انہوں نے کہا کہ استقامتی محاذ، حالیہ سالوں میں پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے خطے میں فیصلہ کن قوت بن چکی ہے اور اس قوت کا سب سے بڑا دشمن امریکہ ہے۔
دوسری جانب زیاد النخالہ نے فلسطینی مقاومت کی بے دریغ حمایت کرنے پر اسلامی جمہوریہ ایران کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس بات کا یقین دلایا کہ استقامتی محاذ، مضبوط ارادے کے ساتھ صیہونی رژیم کا مقابلہ جاری رکھے گا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ کامیابی، ہمارے سفر کا آغاز ہے۔ ہم صیہونی پنجوں سے سارے فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ جہاد اسلامی کے سیکرٹری جنرل نے مقاومتی گروہوں کے درمیان یکجہتی کی اہمیت اور اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے کردار کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے اس اتحاد کے حوالے سے کہا کہ یہ باہمی یگانگت، آخری فتح اور قابض صیہونی رژیم کو نابود کرنے میں معاون ثابت ہو گی۔ زیاد النخالہ نے مسئلہ فلسطین پر عرب ممالک کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی و مغربی استعمار کے سامنے عرب ممالک کے کمزور موقف نے خطے میں اسرائیل کی پوزیشن کو مضبوط کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ زیاد النخالہ علی اکبر اور اس
پڑھیں:
بیروت اور دمشق سے ابراہیم معاہدہ ممکن نہیں، اسرائیلی اخبار معاریو
اپنے ایک کالم میں اسرائیلی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں یکطرفہ شرائط پر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی فوج کے ریٹائرڈ کرنل اور مشرق وسطیٰ امور کے ماہر "موشے ایلاد" نے "معاریو" اخبار میں لکھا کہ مشرق وسطیٰ میں یکطرفہ شرائط پر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ 2020ء میں اسرائیل اور کچھ عرب ممالک کے درمیان ہونے والا "ابراہیم معاہدہ شام اور لبنان تک بڑھایا نہیں جا سکے گا۔ تاہم موشے ایلاد نے اس معاہدے کو اسرائیل اور عرب ممالک کے تعلقات میں تاریخی قدم اور معیاری تبدیلی قرار دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ یہ معاہدے نہ صرف سفارتی تعلقات کی نوید دیتے ہیں بلکہ ٹیکنالوجی، معیشت، سیاحت، سیکورٹی اور زراعت کے شعبوں میں بھی معمول کے تعلقات کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ سوال ابھارا کہ کیا ابراہیم معاہدہ واقعی دونوں فریقوں کے لیے فائدہ مند ہیں یا اسرائیل کو ہمیشہ ممکنہ خطرات کا سامنا رہے گا؟۔ اس سوال کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذکورہ سوال کا جواب اس معاہدے کی کامیابی کی تفصیلات میں پوشیدہ ہے۔ انہوں نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ ابراہیم اکارڈ کا حصہ بننے والے ممالک کے ساتھ اسرائیل کے یہ معاہدے ایک نئی سیاسی صورتحال کا نتیجہ ہیں، وہ ممالک جو اقتصادی ترقی کے بارے میں سوچتے ہیں اور اپنے مفادات کو ایک مختلف نقطہ نظر سے دیکھنے کے لیے تیار ہیں۔ البتہ شام اور لبنان میں ایسی صورتحال ممکن نہیں۔
اس ریٹائرڈ کرنل نے دعویٰ کیا کہ ابراہیم معاہدہ سفارتی تعلقات سے آگے بڑھ کر دہشت گردی اور ایران جیسے مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے بارے میں ہے جن سے اسرائیل فرنٹ لائن پر نبرد آزما ہے۔ اس کے باوجود انہیں شک ہے کہ خطے کے تمام ممالک قیام امن کے لیے حقیقی تعاون کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے گہرے شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا واقعی یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ابراہیم معاہدہ شام اور لبنان جیسے ممالک تک پھیلایا جا سکے گا؟۔ جس کی مستقبل میں کوئی خاص امید نہیں۔ دونوں ممالک کی اسرائیل کے ساتھ دشمنی کی ایک طویل تاریخ ہے اور اندرونی سیاسی مخالفت بھی امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہو گی۔ آخر میں اس اسرائیلی تجزیہ کار نے کہا کہ اگر ہم صحیح معنوں میں شام اور لبنان کے ساتھ امن کے خواہاں ہیں تو ہمیں نہ صرف سلامتی کے میدان میں بلکہ اقتصادی و ثقافتی میدانوں میں بھی ٹھوس کامیابیوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس راستے میں صبر اور موجودہ عمل میں بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر ان دو ممالک میں عوامی شعور کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ، ابراہیم معاہدے کی کامیابیاں بے حسی اور منفی رویے کی دیوار سے ٹکرا سکتی ہیں۔