آسٹریلیا بمقابلہ انگلینڈ:’لاہور ، لاہور ہےخوبصورت قذافی اسٹیڈیم ، اور ہاوس فل پرجوش کراؤڈ‘
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
29 سال بعد پاکستان میں کرکٹ کا بین الاقوامی میلہ سج چکا ہے جہاں کرکٹ کی دنیا کی 8 ٹاپ ٹیموں میں کانٹے دار مقابلے دیکھنے کے لیے شائقین کرکٹ بے تاب اور کھلاڑی پرجوش ہیں۔ شائقین کرکٹ کے جوش کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ روز آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2025 میں آسٹریلیا اور انگلینڈ میں لاہور کا قذافی اسٹیڈیم تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا جس میں اکثریت پاکستانی کرکٹ شائقین کی تھی۔
سوشل میڈیا پر پوری دنیا سے صارفین نے قذافی اسٹیڈیم میں لاہوریوں کے جذبے کو خوب سراہا اور کہا کہ ایک نیوٹرل میچ میں ہاؤس فل پاکستانی ہی کرسکتے ہیں ۔ صارفین کا کہنا تھا کہ پاکستان کا میچ نہ ہونے کے باوجود جس جوش اور جذبے سے پاکستانی کرکٹ شائقین نے آسٹریلیا اور انگلینڈ کی ٹیموں کو سپورٹ کیا وہ داد کے قابل ہے ۔
سابق کھلاڑیوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے قذافی اسٹیڈیم کے ہاؤس فل کراؤڈ کی ویڈیوز شیئر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پتا چلتا ہے کہ پاکستانی قوم کرکٹ سے کتنی محبت کرتی ہے۔
ایک صارف نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ایک نیوٹرل گیم کے لیے لاہور کا ماحول انتہائی شاندار رہا۔ پاکستان اس چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کا مکمل طور پر مستحق ہے اور امید ہے کہ مستقبل میں یہاں آئی سی سی کے مزید ایونٹس ہوں گے۔
Fabulous atmosphere in Lahore for a neutral game.
Pakistan completely deserved to host this Champions Trophy and hopefully more ICC events in the future. pic.twitter.com/B9jXmobM9p
— Ragav ???? (@ragav_x) February 22, 2025
ایک اور صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’لاہور کے لیے کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں، بلکہ امن کی پہچان اور جذبے کی علامت ہے۔ قذافی اسٹیڈیم کی روشنیوں میں جگمگاتا پاکستان دنیا کو امن، محبت اور کھیل سے جڑنے کا پیغام دے رہا ہے۔ شاندار میزبانی اور کرکٹ سے بے پناہ محبت، یہی ہے اصل پاکستان!‘
لاہور کے لئے کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں، بلکہ امن کی پہچان اور جذبے کی علامت ہے۔ قذافی اسٹیڈیم کی روشنیوں میں جگمگاتا پاکستان دنیا کو امن، محبت اور کھیل سے جڑنے کا پیغام دے رہا ہے۔ شاندار میزبانی اور کرکٹ سے بے پناہ محبت، یہی ہے اصل پاکستان!
— X insights (@Qamarniazz) February 22, 2025
بحث مزید آگے بڑھی تو لاہور اور کراچی کے کراؤڈ کا موازنہ بھی کیا جانے لگا، بعض صارفین نے کراچی والوں سے شکوہ کیا کہ لاہور کے لوگ ایک نیوٹرل گیم کے لیے اسٹیڈیم بھر سکتے ہیں تو آپ پاکستان کے میچ کے لیے کیوں نہیں آئے؟ ایک صارف نے لکھا کہ لاہور کا کراؤڈ واقعی شاندار ہے، اور قذافی اسٹیڈیم میں اتنی بڑی تعداد میں شائقین کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ تاہم، کراچی کا کراؤڈ بھی کرکٹ کے لیے جذبہ رکھتا ہے، لیکن ممکنہ طور پر سہولیات، سیکیورٹی، یا دلچسپی کے مسائل کی وجہ سے شرکت کم ہوتی ہے۔ ہر شہر کو برابر مواقع ملنے چاہئیں، لیکن لاہور اورراول پنڈی کے اسٹیڈیمز کے حالیہ ترقیاتی کاموں نے واقعی انہیں بین الاقوامی میچز کے لیے زیادہ موزوں بنایا ہے۔ شاید کراچی کے اسٹیڈیمز میں بھی بہتری لائی جائے تو صورتحال بدل سکتی ہے۔
لاہور کا کراؤڈ واقعی شاندار ہے، اور قذافی اسٹیڈیم میں اتنی بڑی تعداد میں شائقین کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ تاہم، کراچی کا کراؤڈ بھی کرکٹ کے لیے جذبہ رکھتا ہے، لیکن ممکنہ طور پر سہولیات، سیکیورٹی، یا دلچسپی کے مسائل کی وجہ سے شرکت کم ہوتی ہے۔ ہر شہر کو برابر مواقع ملنے چاہئیں، لیکن…
— ????????????????ℕ ????????????ℍ???????? ???? (@MughalZaada001) February 22, 2025
ایک صارف نے لکھا ’لاہور پھر لاہور ہےخوبصورت قذافی اسٹیڈیم ، اور ہاؤس فل پرجوش کراؤڈ واقعی لگ رہا ہے کہ انٹرنیشنل ایونٹ میں 2 چیمپئنز ٹیمیں مدمقابل ہیں۔
لاہور پھر لاہور ہے????
خوبصورت قذافی اسٹیڈیم ، اور ہاوس فل پرجوش کراوڈ
واقعی لگ رہا ہے
کہ انٹرنیشنل ایونٹ میں دو چیمپٸنز ٹیمیں مدمقابل ہیں♥️
— Sabrina Malik (@sabrinamalik786) February 22, 2025
واضح رہے کہ آسٹریلیا کے بیٹر جوش انگلس نے لاہور کے شائقین کرکٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ شائقین کے جوش نے میچ کو مزید یادگار بنا دیا۔ جبکہ انگلش کھلاڑی جو روٹ بھی لاہوریوں کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز قذافی اسٹیڈیم لاہور میں آسٹریلیا نے آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے چوتھے میچ میں انگلینڈ کے خلاف 352 رنز کا ہدف عبور کرکے نئی تاریخ رقم کردی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2025 آسٹریلیا انگلینڈ چیمپیئنز ٹرافی قذافی اسٹیڈیم کراؤڈ کرکٹ لاہورذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2025 ا سٹریلیا انگلینڈ چیمپیئنز ٹرافی قذافی اسٹیڈیم کرکٹ لاہور چیمپیئنز ٹرافی قذافی اسٹیڈیم کرتے ہوئے ا سٹریلیا لاہور کا لاہور کے ہوتی ہے ڈ واقعی رہا ہے کراو ڈ کے لیے
پڑھیں:
تھامی سولیکلی: باکمال وکٹ کیپر کی المیہ داستان
جنوبی افریقہ کے وکٹ کیپر بیٹر ہینرک کلاسن کے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائر ہونے کی خبر نظر سے گزری تو اس ملک سے تعلق رکھنے والے ایک بدقسمت سیاہ فام وکٹ کیپر تھامی سولیکلی کا نام ذہن میں آیا جو نسلی تعصب کی وجہ سے بین الاقوامی کرکٹ میں اپنے جوہر نہ دکھا سکے تھے۔
کرکٹ کے سفر میں ایک وقت میں وہ ڈگر سے ہٹ کر کلرکی کرنے لگے، لیکن لائنز فرنچائز سے وابستگی نے انہیں دوبارہ سے پٹڑی پر چڑھا دیا اور انہوں نے وکٹ کے پیچھے اور آگے رہ کر کامیابیاں سمیٹیں۔
انگریزی کا ایک لفظ ہے prodigy، یہ ان غیر معمولی افراد کے لیے برتا جاتا ہے جن کی کسی میدان میں صلاحیتوں کا بھرپور اظہار بچپن اور لڑکپن کے زمانے سے ہونے لگے۔ اس لفظ کی بہترین ترجمانی اردو کی اس ضرب المثل سے ہو سکتی ہے:
ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات
تھامی سولیکلی اسی کینڈے کے کرکٹر تھے۔ کیپ ٹاؤن میں اسکول کی سطح پر کرکٹ میں انہوں نے بیٹر کی حیثیت سے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے، جن میں سے کئی ریکارڈ کچھ ہی سال پہلے جیک کیلس نے اپنے نام کیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:چائے کے اشتہار میں علامہ اقبال اور کے ایل سہگل
تھامی سولیکلی ایسے فطری اتھلیٹ تھے جو کسی بھی کھیل میں کامیاب ہوسکتے تھے۔ بچپن میں فٹبال اچھی کھیلتے تھے۔ ہاکی میں ان کی ہنرمندی کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جنوبی افریقہ کی نمائندگی کی لیکن پھر انہوں نے کرکٹ کو اپنی تگ و تاز کا میدان بنا لیا۔
سن 2000 میں فرسٹ کلاس کرکٹ کا آغاز کیا اور اگلے ہی برس وہ جنوبی افریقہ کی انڈر 19 ٹیم کے کپتان بن گئے۔ اس سے اگلا پڑاؤ اے ٹیم میں شمولیت تھی۔ یہ وہ زمانہ ہے جب جنوبی افریقہ کی ٹیم میں وکٹ کیپر کے طور پر مارک باؤچر اپنی مستقل جگہ بنا چکے تھے۔ 1997 میں شیخوپورہ میں پاکستان کے خلاف اپنے پہلے ٹیسٹ سے لے کر 75 ویں ٹیسٹ تک وہ مسلسل ٹیم کا حصہ رہے۔
سن 2004 میں تھامی سولیکلی کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کا دروازہ کھلا جو 3 ٹیسٹ میچوں کے بعد بند ہوگیا۔ اس وقت کسے خیال تھا کہ یہ دروازہ ان کے لیے دوبارہ نہیں کھلے گا۔ اس کے بعد مارک باؤچر نے مزید 72 ٹیسٹ میچوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کی اور 147 ٹیسٹ کھیل کر ریٹائر ہوئے۔ یہ کسی بھی وکٹ کیپر کا سب سے زیادہ ٹیسٹ میچوں میں شرکت کا ریکارڈ ہے۔
جنوبی افریقہ کی طرف سے دوبارہ کھیلنے کی تمنا سولیکلی کے دل میں تروتازہ رہی اور وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں اور اے ٹیم کی طرف سے وکٹ کیپنگ اور بلے بازی میں عمدہ کارکردگی دکھاتے رہے جس کے بعد یہ طے ہو گیا تھا کہ مارک باؤچر کے جانشین وہی ہوں گے ۔اس بات کی تصدیق سلیکٹروں کے نیشنل کنوینر اینڈریو ہڈسن نے بھی کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:علاؤالدین مظہر: سہگل سے عشق کا ایک فراموش باب
2012 میں مارک باؤچر کے ریٹائر ہونے کا مرحلہ آن پہنچا تو اس وقت سولیکلی فرسٹ کلاس کرکٹ کی بھٹی میں کندن ہو گئے تھے۔ عمدہ وکٹ کیپر تو تھے ہی اب ان کا بلا بھی مسلسل رنز اگلنے لگا تھا۔ 2009-2010 کے سیزن میں انہوں نے 58.10 کی اوسط سے رنز بنائے تھے اور 2011/2012 میں ان کی اوسط 53 رہی تھی۔ اس سے پہلے 2010 میں انہوں نے بنگلہ دیش اے کے خلاف مسلسل 2 سنچریاں بھی بنائی تھیں۔ 2011 میں سولیکلی نے جنوبی افریقہ اے کی طرف سے کھیلتے ہوئے آسٹریلیا کی مضبوط باؤلنگ کے خلاف خراب پچ کے باوجود عمدہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا تھا۔
2012 میں دورہ انگلینڈ کے لیے ریزرو وکٹ کیپر کے طور پر ان کا انتخاب ہوا۔ باؤچر کی یہ آخری ٹیسٹ سیریز تھی جس کے بعد سولیکلی ہی ان کی جگہ فطری انتخاب تھے۔ انہیں اس سے پہلے سینٹرل کنٹریکٹ بھی مل چکا تھا ۔
انگلینڈ میں سمرسٹ کے خلاف وارم اپ میچ میں عمران طاہر کی گیند پر بیلز ہوا میں اڑیں تو ایک مارک باؤچر کی بائیں آنکھ میں جا لگی جس کی وجہ سے انہیں فوراً کرکٹ چھوڑنی پڑی۔ اب سولیکلی کی 8 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی یقینی نظر آ رہی تھی۔ دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے وہ آن پہنچا تھا۔ لیکن انہیں یہ موقع نہیں دیا گیا۔ کپتان گریم اسمتھ اور کوچ گیری کرسٹن اور ٹور سلیکٹر نے وکٹ کیپنگ کی ذمہ داری اے بی ڈیویلیئرز کو سونپ دی اور اس کے اعلان سے پہلے کرسٹن نے باقی سلیکٹروں سے مشورہ کرنا بھی گوارا نہ کیا۔ انگلینڈ کے بعد دورہ آسٹریلیا میں سولیکلی ٹیم کے ساتھ رہے لیکن انہیں میدان میں اترنے کا موقع نہیں ملا۔ اس زیادتی پر وہ چپ رہے اور اچھے سمے کا انتظار کرتے رہے۔
اس موقعے پر ٹیسٹ کرکٹ میں 390 وکٹیں لینے والے جنوبی افریقہ کے سیاہ فام فاسٹ بولر میکھایا نتینی نے ان کے حق میں آواز بلند کی اور سولیکلی کی ٹیم میں عدم شمولیت کو نسلی امتیاز کا شاخسانہ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں:ہندوستان میں بنیاد پرستوں کے عزائم بروقت بھانپنے والے لکھاری
نتینی کا کہنا تھا کہ سولیکلی اگر گورے ہوتے تو ٹیم میں کھیل رہے ہوتے۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ جنوبی افریقہ کی کرکٹ میں واپسی کے 20 سال بعد بھی آخر ایک ہی سیاہ فام کھلاڑی ٹیم کا حصہ کیوں ہے؟ اس وقت سولیکلی ٹیم میں واپسی سے ناامید نہیں ہوئے تھے، اس لیے انہوں نے اپنے بہی خواہ کی ہاں میں ہاں ملانے سے گریز کیا اور اس تنازع میں پڑنے سے بچنے کی راہ اپنائی۔
ہڈسن نے انہیں نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں موقع دینے کا وعدہ کیا جو وفا نہ ہو سکا اور سولیکلی ٹیم سے ڈراپ ہو گئے اور جس آس کی ڈوری سے وہ کئی سال سے بندھے تھے وہ بالآخر ٹوٹ گئی۔
کرکٹ میں نسلی تعصب کے اس قصے کا تذکرہ میں نے پہلی دفعہ اسٹیفن زیمنسکی اور ٹم وگمور کی کتاب ‘کرکونومکس، دی اناٹومی آف ماڈرن کرکٹ’ میں پڑھا تھا اور اس مضمون کی بنیاد اس کتاب سے اٹھائی ہے۔ اس کے مصنفین نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ مارک باؤچر کی ریٹائرمنٹ سے 2 سال پہلے ہی جنوبی افریقہ کی ٹیم میں سولیکلی کی شمولیت کا کیس مضبوط تھا کیوں کہ باؤچر نے آخری 15 ٹیسٹ میچوں میں 22.23 کی اوسط سے رنز بنائے تھے جس میں ان کی صرف 2 نصف سنچریاں شامل تھیں، اس لیے وہ ان کے ٹیم میں ٹکے رہنے کے دوسرے عوامل کی طرف توجہ دلاتے ہیں:
’اور اس تمام عرصے میں، ان کی سینیارٹی اور نسلی تفوق کی بدولت، اور شاید کپتان اسمتھ سے ان کے قریبی تعلقات کی وجہ سے، ٹیسٹ کرکٹ میں ساتویں نمبر پر بیٹنگ کے لیے ان کی موزونیت پر کبھی کوئی سوال نہیں اٹھا‘۔
کرکٹ میں کپتان کو آمرانہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں ، اس لیے وہ انصاف پسند نہ ہو تو کھلاڑیوں کا کیریئر تباہ کر سکتا ہے۔ ایسی مثالوں سے کرکٹ کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ اسمتھ مضبوط کپتان تھے اور ان کے دور میں ٹیم کی کارکردگی نے ان کی قوت میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ انگلینڈ میں سیریز میں کامیابی کے بعد جنوبی افریقہ ٹیسٹ کی نمبر ون ٹیم بن گئی تھی جس کے بعد اس نے آسٹریلیا میں بھی ٹیسٹ سیریز جیت لی۔ فتح مندی کے اس نشے میں غریب سولیکلی کے بارے میں سوچنے کی فرصت کسے ہوتی۔
اسمتھ کو ٹیم کے سینئیر کھلاڑیوں کا اعتماد بھی حاصل تھا۔ ہرشل گبز نے اپنی آپ بیتی ’ٹو دی پوائنٹ‘ میں لکھا ہے کہ اسمتھ طاقتور کپتان تھے اور چار کا ٹولہ جس میں اسمتھ، باؤچر، کیلس اور ڈیویلیئرز شامل تھے، جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کو کنٹرول کرتا تھا۔
2020 میں میکھایا نتینی اور ایشول پرنس نے اپنے ساتھ امتیازی سلوک پر دل کے پھپھولے پھوڑے تو سولیکلی نے بھی اپنے دکھڑے بیان کیے اور اپنے ساتھ زیادتی پر گریم اسمتھ کو کٹہرے میں کھڑا کرکے سوالات اٹھائے اور کھلاڑیوں کی شکایات پر ان کی حیرانی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس لیے ہے کہ وہ نسل پرستی کو اس ملک میں معمول کی بات سمجھتے ہیں۔ انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی میں اپنی ناکامی کی وجہ نسلی تعصب کو قرار دیا۔
سولیکلی کی یہ کہانی ایک سیاہ فام کرکٹر سے ناانصافی کے بارے میں بتاتی ہے جس پر بہت سے لوگوں نے آواز اٹھائی لیکن کسی نے اپنی غلطی تسلیم نہیں کی اور بس اپنے دفاع میں دلائل تراشے۔
کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد اسمتھ ڈائریکٹر آف کرکٹ کی اہم پوزیشن پر متمکن رہے۔ اسی زمانے میں مارک باؤچر کو لیول فور کی کوچنگ کا تجربہ نہ ہونے کے باوجود قومی ٹیم کا کوچ مقرر کیا۔ اس پوسٹ کے لیے اشتہار دینے سے بھی گریز کیا گیا۔ اس دوست نوازی پر اسمتھ پر تنقید بھی ہوتی رہی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس عمل سے بھی سیاہ فام کوالیفائیڈ کوچ اینوخ اینکوے کی حق تلفی ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:میلہ چراغاں پر صفدر میر کیوں یاد آتے ہیں؟
نیرنگی زمانہ ہے کہ اسمتھ اور مارک باؤچر نے کرکٹ چھوڑنے کے بعد بھی بڑے منصب حاصل کیے اور دوسری طرف قسمت کے ہیٹے سولیکلی پر 2015 میں ریم سلام چیلنج میں میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگ گئی۔ یہ وہ گڑھا تھا جو انہوں نے اپنے لیے خود کھودا جس سے نکلنا کسی طور ممکن نہیں ہوتا۔ پہلے وہ مظلوم کرکٹر کے طور پر جانے جاتے تھے لیکن اب انہوں نے خود سے یہ رسوائی وابستہ کرلی جو ان کے لیے ہمیشہ باعثِ ننگ رہے گی۔
اس مشکل وقت اور برے حالوں میں جس کھلاڑی نے ان سے مسلسل رابطہ رکھ کر انہیں زندگی کی طرف واپس لانے کی کوشش کی وہ ٹیمبا باووما ہیں جو کیپ ٹاؤن میں انہی کے علاقے لانگا سے تعلق رکھتے ہیں اور کھلاڑی کی حیثیت سے ان کی بلندی اور میچ فکسنگ کے بعد ان کی پستی کے عینی شاہد ہیں۔
3 سال پہلے سولیکلی سے ملاقات کے بعد انہوں نے ’نیوز 24‘ کو بتایا کہ سولیکلی جانتے ہیں انہوں نے جو کیا وہ کرکٹ کی روح کے منافی تھا اور انہیں اس پر پچھتاوا ہے۔ باووما نے کہا کہ اب وہ جس حالت میں ہیں اس میں انہیں دیکھنا اندوہناک ہے اور وہ جب بھی لانگا جائیں ان سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لانگا میں سولیکلی کی حیثیت ایک متاثر کن شخصیت کی رہی ہے، اس لیے ان کے نام سے وابستہ تمام تر منفیت کے باوجود علاقے کے لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔
اسمتھ تھامی سولیکلی ٹیمبا باووما جنوبی افریقہ سولیکلی کرکٹ مارک باؤچر میکھایا نتینی ہرشل گبز