بھارت جدوجہد آزادی کو دبانے کے لئے خواتین کے خلاف تشدد کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، حریت کانفرنس
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
مسرت عالم بٹ نے نئی دہلی کی تہاڑ جیل سے اپنے پیغام میں کہا کہ بھارتی فوجیوں کو کالے قانون آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کے تحت استثنیٰ حاصل ہے اور وہ علاقے میں گھنائونے جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے علاقے میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت حق خودارادیت کے حصول کے لئے کشمیریوں کی جدوجہد کو دبانے کے لیے خواتین کے خلاف تشدد کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ بات کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ نے کنن پوش پورہ اجتماعی عصمت دری کے 34سال مکمل ہونے کے موقع پر نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل سے اپنے ایک پیغام میں کہی۔ بھارتی فوجیوں نے 23 فروری 1991ء کو ضلع کپواڑہ کے علاقے کنن پوش پورہ میں محاصرے اور تلاشی کی ایک کارروائی کے دوران ہر عمر کی تقریبا 100خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی تھی۔ 2014ء کے بعد سے 23فروری کو ہر سال کشمیری خواتین کے مزاحمتی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، جس کی کال سب سے پہلے جموں و کشمیر کوئلیشن آف سول سوسائٹی نے دی تھی اور اس کی حمایت کل جماعتی حریت کانفرنس نے کی تھی۔
مسرت عالم بٹ نے نئی دہلی کی تہاڑ جیل سے اپنے پیغام میں کہا کہ بھارتی فوجیوں کو کالے قانون آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کے تحت استثنیٰ حاصل ہے اور وہ علاقے میں گھنائونے جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فوج کشمیری عوام کی تذلیل اور جدوجہد آزادی کے لئے ان کے عزم کو توڑنے کے لئے خواتین کی بے حرمتی اور ہراسانی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں پر زور دیا کہ وہ اجتماعی زیادتی کے سانحے کے متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ زمرودہ حبیب، یاسمین راجہ، فریدہ بہن جی، محمد یوسف نقاش، خادم حسین، سید سبط شبیر قمی اور عبدالصمد انقلابی سمیت کل جماعتی حریت کانفرنس کے دیگر رہنمائوں نے سرینگر سے جاری اپنے بیانات میں مجرم فوجیوں کو سزا دلانے کے لئے کنن پوشپورہ سانحے کی بین الاقوامی جنگی جرائم کے ٹریبونل سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ بھارتی عدلیہ پر کشمیریوں کا اعتماد ختم ہو چکا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کل جماعتی حریت کانفرنس کہ بھارتی کے طور پر کے لئے
پڑھیں:
یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب
بھارت میں یکم نومبر 1984 وہ دن تھا جب ظلم و بربریت کی ایسی داستان رقم ہوئی جس نے ملک کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے سیاہ کردیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد شروع ہونے والا یہ خونیں باب سکھ برادری کے قتلِ عام، لوٹ مار اور خواتین کی بے حرمتی سے عبارت ہے، جس کی بازگشت آج بھی عالمی سطح پر سنائی دیتی ہے۔
یکم نومبر 1984 بھارت کی سیاہ تاریخ کا وہ دن ہے جب سکھ برادری پر ظلم و بربریت کی انتہا کردی گئی۔ 31 اکتوبر 1984 کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ملک بھر میں سکھوں کا قتل عام شروع ہوا، جس دوران ہزاروں سکھ مارے گئے جبکہ سیکڑوں خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دنیا بھر کے معروف عالمی جریدوں نے اس المناک واقعے کو شرمناک قرار دیا۔ جریدہ ڈپلومیٹ کے مطابق انتہاپسند ہندوؤں نے ووٹنگ لسٹوں کے ذریعے سکھوں کی شناخت اور پتوں کی معلومات حاصل کیں اور پھر انہیں چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا۔
شواہد سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سکھوں کے خلاف اس قتل و غارت کو بھارتی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ہندوستانی حکومت کی سرپرستی میں سکھوں کے خلاف باقاعدہ نسل کشی کی مہم چلائی گئی۔
انتہاپسند ہندو رات کے اندھیرے میں گھروں کی نشاندہی کرتے، اور اگلے دن ہجوم کی شکل میں حملہ آور ہوکر سکھ مکینوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں اور دکانوں کو نذرِ آتش کر دیتے۔ یہ خونیں سلسلہ تین دن تک بلا روک ٹوک جاری رہا۔
1984 کے سانحے سے قبل اور بعد میں بھی سکھوں کے خلاف بھارتی ریاستی ظلم کا سلسلہ تھما نہیں۔ 1969 میں گجرات، 1984 میں امرتسر، اور 2000 میں چٹی سنگھ پورہ میں بھی فسادات کے دوران سکھوں کو نشانہ بنایا گیا۔
یہی نہیں، 2019 میں کسانوں کے احتجاج کے دوران مودی حکومت نے ہزاروں سکھوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔ رپورٹوں کے مطابق بھارتی حکومت نے سمندر پار مقیم سکھ رہنماؤں کے خلاف بھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے کارروائیاں جاری رکھیں۔
18 جون 2023 کو سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں قتل کر دیا گیا، جس پر کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے واضح طور پر کہا کہ اس قتل میں بھارتی حکومت براہِ راست ملوث ہے۔
ان تمام شواہد کے باوجود سکھوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی جاری ہے، جس نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔